ColumnKashif Bashir Khan

فوری فیصلہ کرنا ہو گا! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

پاکستان میں لوگوں کے غم اور مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ڈالر کی قیمت کتنی ہو گئی یہ لکھنا بیکار ہے کہ عوام کا مسئلہ ڈالر نہیں بلکہ دو وقت کی روٹی ہے۔ کرپشن جنہوں نے کی ان کا بھلا ہوا، عام عوام کا کرپشن سے کیا لینادینا؟عوام کو تو امن و سکون کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی چاہیے۔ایسا ملک جو بنیادی طور پر زرعی ملک ہے مگر اس میں لوگوں کو آٹا اور سبزیوں جیسی بنیادی ضرورت زندگی نہایت مہنگے داموں ملتی ہے بلکہ بسا اوقات قلت کا بھی سامنا رہتا ہے۔ زرعی ممالک تو زراعت میں خود کفیل ہوتا ہے اوراجناس عوام کو نہایت ارزاں دستیاب ہوتی ہیں، کم از کم کھانے پینے کی زرعی پیداوار عوام کو بھوکا تو نہیں مرنے دیتی لیکن ہمارا المیہ ہے کہ ہماری زرعی پیداوار کی اعلیٰ ترین اقسام یا تو برآمد کر دی جاتی ہے اور جوباقی بچتی ہے وہ افغانستان وغیرہ سمگل کر دی جاتی ہے ۔ایسا ہی آٹا چینی اور گوشت کے ساتھ کیا جاتا ہے اور باقی ماندہ اجناس اور گوشت اول ملکی ضروریات کے لیے نہایت کم پڑجاتاہے اور ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں لیموں کی قیمت بارہ سو روپے کلو تک پہنچی ، وہ اس پالیسی کی زندہ مثال ہے۔زراعت میں خود کفیل ہونے کی بات تو قصہ پارینہ ہو چکی کیونکہ ماضی میں مختلف حکومتوں نے زرعی اور رہائشی زمینوں کاا متیازقریباً ختم کردیا تھا یوں زرعی زمینوں کا بہت بڑا حصہ رہائشی زمینوں میں تبدیل ہو کر مہنگے داموں بک چکاہے۔

آج لاہور پر نظر دوڑائیں تو شہر کے گردونواح میں زرعی زمینوں کا نام و نشان نہیں ملتا۔عوام کا مسئلہ قیمتوں کا ایک جگہ پر رکنا نہیں بلکہ اشیائے ضروریہ کا مہنگا ہونا ہے اس لیے عوام کوغرض نہیں کہ حکومت کس کی ہے اور وہ کیا
کررہے ہیں۔افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اس وقت ایک بنانا اسٹیٹ کا نقشہ پیش کر رہا ہے جہاں حکومت تبدیل ہونے کے بعد پچھلے قریباً ڈیڑھ ماہ سے پنجاب اور مرکز میں حکومت دکھائی نہیں دے رہی۔ معیشت دن بدن تباہ و برباد ہو رہی ہے اور عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات طے کرنے میں غیر ضروری تاخیر کی جارہی ہے جو ملکی معیشت کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہے۔

اتحادی حکومت کے پیش نظر صرف اقتدار حاصل کرنا دکھائی دے رہا ہے اور مشکل معاشی فیصلوں سے گریز نہایت سنگین غلطی ثابت ہو سکتا ہے،بلکہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جو پاکستان کی سالمیت کے تناظر میں نہایت ہی خطرناک ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ جب عدم اعتماد لاکرتحریک انصاف کی حکومت ختم کی گئی تو کیا معیشت وہاں کھڑی تھی جہاں صرف ڈیڑھ ماہ میں پہنچ گئی ہے؟ موجودہ حکومت کی نااہلی اور عوام کی بدقسمتی کہ جو نعرے وہ اپوزیشن میں لگاتے تھے، وہ سب بھڑکیں ہی نکلیں اور ملک پاکستان چند دنوں میں ہی شدید ترین لوڈ شیڈنگ اور معاشی بحران کی زد میں آگیاہے۔وزارت خزانہ جیسا اہم قلمدان ایسے شخص کو تھما دیا گیا جو کسی طور پر بھی اس کا اہل نہیں اور اسے لندن میں بیٹھے اسحاق ڈار نے ان کی اہلیت کے بارے میں بات کرکے عام پاکستانی کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔
پنجاب اور مرکز شدید آئینی و سیاسی بحران کا شکار ہیں اور عمران خان کی عوامی تائید ہر گزرتے دن کے ساتھ  بے پناہ بڑھتی نظر آرہی ہے۔عوام ایسے کسی حکومتی بیانیے کو ماننے کو تیار نظر نہیں کہ موجودہ حالات کی ذمہ دارعمران حکومت ہے۔گو عمران حکومت میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں لیکن بجلی(گو مہنگی)لیکن عوام کو مل رہی تھی اور امن و امان کی حالت بھی تسلی بخش ہی تھی۔ عوام کو ڈالر کی قیمت سے کیا لینا دینا لیکن ان کو پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں تو بجٹ تک فکس نظر آرہی تھیں اور سابق مشیر خزانہ شوکت ترین کے مطابق عوام کو یہ سبسڈی بھی عمران حکومت نے مختلف پراجیکٹس کی لاگت میں کٹ لگا کر مہیا کی تھی۔شوکت ترین کا یہ کہنا بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پیٹرولیم میں عوام کو جو سبسڈی دی جارہی تھی وہ آئی ایم ایف کے علم میں تھی بلکہ ان کے اصرار کے باوجود عمران حکومت نے یہ سبسڈی عوام کو مہیا کی اور آئی ایم ایف کو اس پر کوئی اصرار نہیں تھالیکن شہباز شریف کی حکومت نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول میں ناکامی کے بعد موجودہ بدترین معاشی صورتحال کی ذمہ داری عمران خان کی پیٹرولیم مصنوعات میں عوام کو دی گئی سبسڈی کو قرار دینا شروع کر
دیاہے جو غیر مناسب اور حقیقت پر مبنی نہیں ۔

عمران خان آج یا کل اسلام آباد مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے جارہے ہیں اس لیے حکومت بری طرح پریشانی کا شکار ہے جبکہ شہباز شریف، رانا ثناءاللہ اور مریم صفدر نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اداروں سے مدد کی بھی بات کرنا شروع کر دی ہے۔ویسے عوام کو تو اس سے کچھ نہیں لینا دینا لیکن سری لنکا میں آئی معاشی تباہی اور موجودہ حکمرانوں کی ضروری معاشی فیصلوںمیں تاخیر نے عوام کے کان کھڑے کر دیئے ہیں اور عوام میں نون لیگ کے لیے سخت ردعمل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بدترین لوڈشیڈنگ کو عمران حکومت پر ڈالنے کا حکومتی استدلال بھی ناقابل فہم اور ناقابل یقین ہے کہ تحریک انصاف کی ساڑھے تین سال کی حکومت میں پاکستان کے عوام کو بجلی بلا تعطل ملتی رہی ہے۔آج پاکستان کے تمام طبقے سوچ رہے ہیں کہ جب حالات قدرے بہتر ہو رہے تھے تو پھر تحریک انصاف کی حکومت کو کیوں ختم کیا گیا اور اگر ختم کر ہی لیا تھا تو پھر معیشت کی بہتری کے تناظر میں مشکل فیصلے کیوں نہیں لئے گئے؟نہایت افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اوورسیزپاکستانیوں کا ووٹ کا حق ختم کرنے اور نیب سمیت تمام تحقیقاتی اداروں کے پر کاٹنے کے لیے حکومت حاصل کی گئی اور ای سی ایل میں سے قریباً 4ہزار لوگوں کا نام بھی نکال دیا گیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کا سوموٹو ایکشن بھی لے لیا اور ایف آئی اے اور نیب سمیت تمام اداروں میں تقرریوں اور تبادلوں پر پابندی لگاتے ہوئے ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں کی لسٹ بھی منگوا لی ہے۔ یہ صورتحال نہایت افسوس ناک ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے اور اس پیچیدہ سیاسی و معاشی صورتحال کے تناظر میں اگر اتحادی حکومت مشکل معاشی فیصلے صرف اس لیے نہیں کر پارہی کہ ان کی عوامی تائید و حمایت میں کمی آئے گی تو ان کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ وہ عمران خان کی حکومت گرا کر عوامی حمایت تو پہلے ہی کھو چکے ہیںاور ان پر چلنےوالے مقدمات میں بھی پیش قدمی رکنے نے عوام کو ان کے خلاف کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی کی سنیئر رہنما شیریں مزاری کو جس طریقے سے اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا اس نے معاشی بدحالی کے شکار پاکستان میں سیاسی اشتعال پیدا کر دیاہے، ایک ایسا کیس جو ڈاکٹر شیریں مزاری کے چھ سال عمر ہونے پر درج کیا گیا اور اسی بناء پر 10اپریل کو ایک ایف آئی آر درج کر کے انہیں بہیمانہ طریقے سے قواعد و ضوابط کے خلاف گرفتار کرنا نہایت افسوسناک ہے جبکہ حمزہ شہباز کا ان کی رہائی کا حکم بھی سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان انتشار کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور میں نہایت ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ شیریں مزاری کے گرفتاری کا اینٹی کرپشن کے ذمہ داران کو بھی علم نہیں تھا اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے تادم تحریر تمام ارباب اختیار کو شیریں مزاری کو رات ساڑھے گیارہ بجے تک پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ صورتحال پیچیدہ ترین ہو چکی کہ جمعہ کی رات عمران خان کی بنی گالا کی رہائش گاہ پر بھی قیدیوں کی وین کے ساتھ سینکڑوں پولیس اراکین نے دھاوا بولا لیکن وہاں موجود سینکڑوں نوجوان کارکنان کی موجودگی اور عمران خان کی پشاور میں موجودگی کی وجہ سے واپس چلے گئے۔سننے میں آیا ہے کہ پولیس کے اہلکاروں نے بنی گالا میں حفاظت پر مامور اہلکاروں سے بھی بدتمیزی کی۔حالات خراب سے خراب اور خانہ جنگی کی جانب بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔فوری انتخابات کا انعقاد نہ کروایا گیا تو پھر کسی کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آنے والا۔مقتدر حلقوں کا امتحان ہے، فوری فیصلہ کرنا ہو گا کہ دیر نہ ہو جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button