CM RizwanColumn

سول حکومت اور جمہوری روایات .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

سرگودھا میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نون لیگی قائد محترمہ مریم نواز نے حکومت چھوڑنے کا واضح اشارہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام پر عمران حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے مہنگائی کا بوجھ لادنے سے بہتر ہے کہ اقتدار چھوڑ دیا جائے۔ نواز شریف کے لیے آسان تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط مان کر سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کرتے اور ملک کے لیے مالی سہولت حاصل کرلی جاتی لیکن ہم یہ عوام دشمنی کیوں کریں۔ اس بیان سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون  موجودہ حالات میں عوام کو مزید مہنگائی سے دوچار کر کے یا پھر دوسرے پہلو سے دباؤ میں رہ کر برسراقتدار رہنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اشارہ حکومت میں شامل ان اتحادی جماعتوں کو دیا گیا ہے جو جلد انتخابات کی بجائے انتظار کرنے اور مسائل حل کرنے پر زور دے رہی ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کو دھمکانے کی کوشش ہے کہ اگر حکومت کی شرائط پر اسے کام نہ کرنے دیا گیا تو مسلم لیگ نون ایسی لولی لنگڑی اور بے اختیار حکومت میں دلچسپی نہیں رکھتی اور بہتر ہوگا کہ وہ آئندہ انتخابات میں مکمل کامیابی حاصل کرکے حکومت سازی کی کوشش کرے۔ مسلم لیگ نون کو اندیشہ ہے کہ مارکیٹ تخمینے اور آئی ایم ایف کی شرائط کی بنیادپر پیٹرول کی قیمتوں میں پچاس ساٹھ روپے اضافے کا فیصلہ کیا گیا تو اس سے افراط زر میں شدید اضافہ ہوگااور مسلم لیگ نون کی مقبولیت کو زبردست دھچکا لگے گا۔ اب ظاہر ہورہا ہے کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم رکھنے کے لیے مسلم لیگ نون یہ قیمت ادا نہیں کرنا چاہتی یا پھر کم از کم پارٹی میں جس گروپ کی نمائندگی مریم نواز کرتی ہیں، اب اس کی پوزیشن واضح ہورہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ جلد اور فوری مشکل معاشی فیصلے نہ کئے گئے تو خاکم بدہن پاکستان ڈیفالٹ کر سکتاہے۔ نادہندگی کی صورت سے بچنے کے لیے فوری بیرونی امداد کی ضرورت ہے جو آئی ایم ایف پیکیج سے مشروط ہے۔

شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی وزیر خزانہ
مفتاح اسماعیل کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے واشنگٹن بھیجا اور فنڈ نے پاکستان کو 6 کی بجائے 8 ارب ڈالر کا پیکیج دینے کا اعلان بھی کیا لیکن پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کی شرط اسی طرح قائم رکھی جو سابقہ عمران حکومت نے معاہدے میں تسلیم کر رکھی ہے۔ اب قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے بعد پیٹرول کی قیمتوں کے بارے میں کسی معجزاتی فیصلہ کے بغیر کسی مالی معاونت کا امکان نہیں۔ چند ہفتوں میں شہباز شریف نے مالی امداد کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور چین جانے کا پروگرام بھی طے تھا، تاہم ان دونوں ملکوں نے خیرسگالی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود واضح کیا ہے کہ مالی معاونت کا کوئی ٹھوس معاہدہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پانے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ بیجنگ سے بھی ایسے ہی اشارے ملے ہیں حالانکہ چین سی پیک منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ماضی قریب میں پیدا ہونے والے تعطل کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ چین بھی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات طے ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف بیجنگ جانے کی بجائے لندن چلے گئے تاکہ اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ نون کے حقیقی لیڈر نواز شریف سے
ہدایات لے سکیں۔کسی باقاعدہ اعلان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان ملاقاتوں میں کیا فیصلے کئے گئے ہیں تاہم اتوار کو لندن سے واپسی پر شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے لیڈروں سے ملاقات کرکے انہیں اعتماد میں لیا۔ اس ملاقات کے بعد آئندہ برس اگست تک حکومت کرنے اور ضروری آئینی و معاشی اصلاحات پر اتفاق رائے ہوا اور یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ خلوص کے ساتھ موجودہ حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہوگی تو اکیلی مسلم لیگ نون ممکنہ مشکل سیاسی فیصلوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ ایسی صورت میں قومی اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کا انعقاد ہی واحد حل ہوگا لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس طرح موجودہ معاشی بحران کا حل نہیں نکل سکتا۔ انتخابات کے لیے قائم ہونے والی عبوری حکومت عالمی اداروں سے دیرپا معاہدے کرنے کی اہل نہیں ہوگی۔

ملکی سیاست میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ حیرت انگیز طور پر کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ مشورہ نہیں کر رہی اور نہ ہی حسب سابق کوئی حکم نامہ جاری کررہی ہے۔ پاکستان کی سیاسی روایت کے تناظر میں تو یہ طرز عمل ناقابل فہم ہے کہ ستر برس تک فوجی قیادت ہی نے ملکی عدلیہ کے ساتھ مل کر اور بعض اوقات الگ سے ملکی سیاست پر اپنے گہرے نقوش مرتب کئے ہیں۔ سول ایگزیکٹو اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تعاون و اشتراک کا یہ سلسلہ سابقہ عمران حکومت تک جاری رہا ہے۔تاہم اپریل میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لا کر، باقی ماندہ قریباً سب پارٹیوں پر مشتمل اتحادی حکومت کے قیام سے یہ تاثر قائم ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اسی لیے ملک کی دگرگوں حالت کو سنبھالنے کے لیے مسلم لیگ نون ، پیپلز پارٹی اور دیگر تمام جماعتوں نے طویل غوروخوض کے بعد باہمی سیاسی نظریاتی اختلافات کے باوجود اتحادی حکومت پر اتفاق کیا۔ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ حکومت خود مختارانہ فیصلے کرے گی، ملک و قوم کو درپیش مسائل کا حل سامنے لائے گی اور ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے گی۔ تاہم اب یہ تاثر مل رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہونے کی یقین دہانی تک کوئی بڑا فیصلہ اس حکومت سے ممکن نہیں یا شاید حکومت قائم رکھنا بھی سود مند نہیں ہوگا۔اس کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کا احتجاج اور موجودہ حکومت کے خلاف پرزور الزاماتی مہم جوئی ہے۔ ملک میں اشتعال کی ایک کیفیت پیدا کر کے یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ فوج کاقابل ذکر اور بااثر حلقہ عمران خان کا حامی ہے جس کی وجہ سے عسکری قیادت غیر جانبداری کے اعلان کے باوجود کھل کر حکومت کا ساتھ دینے یا اس کے احکامات کی پابند رہنے کا اقرار کرنے سے گریز کررہی ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے جو فوجی قیادت نے2017میں فیض آباد دھرنے کے دوران اختیار کی تھی اور حکومت کو انتہائی ہتک آمیز شرائط پر تحریک لبیک سے معاہدہ کرنے اور فیض آباد دھرنا ختم کروانے پر مجبور کیا تھا۔ اب عمران خان اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے اور بیس لاکھ لوگ جمع کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے تک اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔ انتظامی طور سے اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے حکومت کو فوج اور عدلیہ کے غیر مشروط تعاون کی بھی ضرورت ہوگی مگر حالات سے تویہی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ دونوں ادارے داخلی تقسیم کی وجہ سے حکومت کا سہارا بننے اور ایک مشکل بحران پر قابو پانے میں معاونت پر آمادہ نہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے ایک سوموٹو نوٹس کے تحت حکم دیا ہے کہ حکومت ہائی پروفائل کیسز میں افسروں کے تبادلے نہیں کر سکتی اور نہ ہی نیب یا ایف آئی اے اپنے ہی قائم کئے ہوئے مقدمات واپس لینے کی مجاز ہو گی۔ یہ فیصلہ بھی حکومتی اختیار کو محدود کرنے کا ایک واضح اشارہ اور حکومتی لیڈروں کی قسمت کی ڈور مسلسل عدلیہ کے ہاتھ میں رہنے کا امکان ظاہر کررہا ہے۔ چیف جسٹس نے اس معاملہ کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ یہ اقدام کسی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ انصاف کی بالادستی اور عدلیہ کی خود مختاری کے لیے کیا گیا ہے لیکن حکومتی ذرائع اس رائے کے انتظامی مضمرات کے بارے میں متنبہ کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے ایک جلسہ میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ عدلیہ ایسے فیصلوں سے اپنا وقار کم کر رہی ہے، بعد میں ہم سے شکایت نہ کی جائے۔ سابقہ حکومت نے جب انتظامی اختیارات کے تحت سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی تھیں تو تب عدلیہ خاموش رہی لیکن عمران خان کے ایک جلسہ سے گھبرا کر سو موٹوو نوٹس لینے پر آمادہ ہوگئی۔

میاں شہباز شریف اگرچہ انتہائی کم اکثریت سے منتخب ہوئے ہیں اور قائد ایوان بننے کے لیے انہیں چھوٹی بڑی 10 پارٹیوں کا تعاون حاصل کرنا پڑا ہے لیکن وہ بہر حال ملک کے وزیر اعظم ہیں اور آئین انہیں تمام انتظامی اختیار ات تفویض کرتا ہے۔ یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کا انتظار کرنے کی بجائے خود سے سخت ترین فیصلے لئے جائیں اورپھر عملدرآمد کروایا جائے۔ چاہے وہ فیصلے سابقہ حکومت کی کرپشن پر بڑی بڑی گرفتاریوں کے ہی کیوں نہ ہوں اور اگر موجودہ حکومت کے فیصلوں کے خلاف کسی ادارے کے افسران ذاتی یا گروہی حیثیت میں اثرانداز ہوں تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔موجودہ حکومتی اور انتظامی صورتحال ماضی سے مختلف اور وزیراعظم شہباز شریف سے متقاضی ہے کہ وہ گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اصلاحات کرجائیں۔ ان کے بڑے اتحادی آصف علی زرداری اس حوالے سے بہتر بھی ہیں اور باہمت بھی۔ اللہ کرے ملک میں جمہوری روایات مضبوط اور محفوظ ہو جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button