ColumnImtiaz Ahmad Shad

کیا پاکستان اسلامی فلاحی ریاست ہے؟ … امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

پاکستان کو وجود میں آئے 75برس بیت چکے، بر صغیر کے مسلمانوں کو جب بتایا گیاکہ اس خطے میں ایک ایسی ریاست وجود میں آئے گی جس کی جڑیں ریاست مدینہ کے ساتھ منسلک ہوں گی اور اسلامی قوانین کا نفاذ ہو گا تب اس خطے کے ہر مسلمان نے تن من دھن کی قربانی دیتے ہوئے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔بہت سے اہم رہنمائوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی شدید مخالفت کی،ان میں سے اکثریت کا یہ بیانیہ تھاکہ قائد اعظم کو دین محمدی ﷺ کا کوئی علم نہیں لہٰذا یہ ایک ایسی ریاست کیسے بنا سکتے ہیں جس میں ریاست مدینہ کو تصور ہوگا۔ مگر کسے معلوم تھا کہ وہ دینی علوم سے ناواقف اتنا بڑا کام کرجائے گا جو بڑے بڑے دینی اسلامی علوم کے ماہر بھی نہ کر پائے ۔اللہ کب کس کا دل پھیر دے اور کس سے کیا بڑا کام لے لے یہ راز وہی ذات بہتر جانتی ہے۔اسلام کسی شخصیت یا خاص گروہ کا محتاج نہیںبلکہ اسلام دین فطرت ہے اور اسلام میں انسانیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ایک اسلامی ریاست ہی حقیقت میں ایک فلاحی ریاست کہلاتی ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں عدل و انصاف پر لوگوں کا مکمل  یقین ہوتا ہے اور وہاں یہ خدشات نہیں ہوتے کہ قاضی شہر یا جج کسی لالچ یا سکینڈل کا شکار ہوں گے، حکمران عوام پر بے جا محصولات (ٹیکس)  لگائیں گے، تاجر ذخیرہ اندوزی کریں گے،اور محافظ اپنے شہریوں کی جان و مال کے دشمن ہوں گے، وہاں تعلیم میں تقسیم ہو گی اور نہ ہی بنیادی حقوق کی پامالی ہو گی۔ایسی ریاست میں اللہ تعالی کی حاکمیت کا تصور واضح ہو گا۔

دستور میں تمام طبقات کا خیال رکھا جائے گا۔اختیارات کی منصفانہ تقسیم ہو گی۔ ریاست اعلیٰ اخلاقی اقدار پر استوار ہو گی۔امت مسلمہ کا تصور اور اسلام کا پرچم سربلند ہو گا۔وہاں قانون کی حکمرانی ہوگی۔وہاں کوئی چھوٹا چور جیل میں اوربڑا ڈاکو سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ مقامی رسوم و رواج کا احترام ہو گا۔معاشی کفالت اور ترقی کے سنہری اصول کار فرما ہوں گے۔سود کی لعنت سے نجات ہو گی۔ بیٹیوں کو جہیز کی لعنت کی وجہ سے گھر میں بیٹھنا نہیں پڑے گا۔ملک کے دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا۔ریاست بنیادی انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی ضمانت دے گی۔خواتین کے متعین حقوق کی پامالی نہیں ہو گی۔مخالفین کی سازشوں کا تدارک ہو گا۔اسلامی ریاست کے یہ رہنما اصول قرارداد مقاصد کا حصہ بھی بنے جو ہمارے آئین کا حصہ ہے۔

یہ قرارداد جو پاکستان کے ایک اسلامی اور نظریاتی ریاست ہونے کا دوٹوک اعلان ہے اور جس نے ملک کی وفاقی حیثیت، جمہوری طرز حکومت، اقلیتوں کے جائز حقوق، پسماندہ طبقات کے حقوق، عدلیہ کی آزادی، بنیادی انسانی حقوق، صوبائی خود
مختاری اور مساوات و حریت جیسے اہم بنیادی مسائل پر دوٹوک فیصلے دے کر ان پر بحث و تمحیص کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ایسی ریاست میں  باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں، یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان ومال وآبرو، آزادی مذہب ومسلک، عبادت، اظہار رائے، نقل وحرکت اور اکتساب رزق ،ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی اداروں سے استفادہ کا حق سب کو حاصل ہو گا۔

ہجرت مدینہ کے بعد حضور اکرمﷺ نے ریاست کے اندرونی استحکام پر تو جہ فرمائی اورمدینہ میں بسنے والے تمام قبائل کے اندرونی تضادات اور کشیدگی ختم کر کے ان میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کی۔آپ ﷺ نے سیاسی حکمت عملی کے تحت فنون حرب پر خصوصی توجہ فرمائی۔ جنگ بدر میں پہلی بار اسلامی لشکر کی صف بندی کر کے فوجی قوت کو منظم کیا۔اس طرح مسلمانوں کا بہت کم نقصان ہوا۔ابن اسحاقؓ کا بیان ہے کہ غزوہ خیبر کے دوران قبیلہ بنو اسلم کی شاخ بنوسہم کے لوگوں نے حاضر ہوکر رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ ہم لوگ تھکاوٹ سے چْور ہوچکے ہیںاور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ یا اللہ! تجھے ان کا حال معلوم ہے، تو جانتا ہے کہ ان کے اندر قوت نہیں اور میرے پاس بھی کچھ نہیں کہ میں انہیں دوں۔ لہٰذا انہیں یہود کے ایسے قلعے کی فتح سے سرفراز فرماجو سب سے زیادہ کار آمد ہو اور جہاں سب سے زیادہ خوراک اور چربی دستیاب ہو۔

اسکے بعد لوگوں نے حملہ کیا اور اللہ عزوجل نے قلعہ صعب
بن معاذ کی فتح عطافرمائی۔ خیبر میں کوئی ایسا قلعہ نہ تھا جہاں اس قلعے سے زیادہ خوراک اور چربی رہی ہواور جب دعا فرمانے کے بعد نبی اکرمﷺنے مسلمانوں کو اس قلعے پر حملے کی دعوت دی تو حملہ کرنے میں بنواسلم ہی پیش پیش تھے۔پھر اسی روز سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہوگیااور مسلمانوں نے اس میں بعض منجنیق اور دبابے بھی پائے۔دبابہ ٹینک کی پرانی شکل ہے۔آپﷺ نے اپنی سیاسی پالیسی میں معاشی دباؤ کا حربہ بھی استعمال کیا۔آپ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالی جب کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو ان کا حکمران دانش مند لوگوں کو بنا دیتا ہے اور ان کا مال سخی لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیتا ہے اور جب کسی قوم کو آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتا ہے تو ان پر نادانوں کو حکمران بنا دیتا ہے اور ان کے مال بخیل لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیتا ہے۔

جو شخص میری امت کے معاملات کا نگران بنا اور اس نے ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں نرم خوئی کا مظاہرہ کیا تو اس کی ضرورت کی گھڑی آنے پر اللہ تعالی اس کے ساتھ لطف و کرم سے پیش آئے گا اور اگر وہ ان کی ضروریات سے لا تعلق رہا تو اللہ بھی اس کی ضرورت و محتاجی کی طرف مطلق توجہ نہ دے گا۔امام غزالی کے مطابق سیاست اللہ تعالی کی مخلوق کی دنیا و آخرت میں نجات دلانے کے لیے اصلاح کر کے سیدھے راستے پر رہنمائی کرتی ہے۔اقربا پروری، رشوت، کرپشن، اور نا انصافی کسی بھی ریاست کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔کیا ریاست پاکستان انہی اصولوں پر چل رہی ہے جن کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے وجود کے لیے لاکھوں افراد نے ہر طرح کی قربانیاں دیں؟

اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں انہی اصولوں کی جانب واپس لوٹنا ہو گا ورنہ لاکھ کوشش کرلیں، جتنے مرضی قرضے لے لیں،کسی صورت خوشحالی مقدر نہ بن پائے گی جب تک ریاست مدینہ کے اصولوں پر اپنی سیاسی ،معاشی اور سماجی راہ نہ ہموار کی جائے۔اس کاوش میں تمام مکتبہ فکر کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔اللہ اپنے بندوں پر آزمائشیں نازل فرماتا ہے تاکہ وہ سرخرو ہو سکیں۔ پاکستانی قوم اور ریاست پاکستان نے بہت سے امتحانات کا سامنا کیا ہے بارگاہ الٰہی میں پر امید ہیں کہ ریاست اور قوم سرخرو ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button