ColumnZameer Afaqi

ہائے گرمی …. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

لارنس گارڈن میں صبح کی سیر کے وقت درختوں پر جا بجا لگے بورڈز پر لکھا ہوا جملہ متوجہ کرتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’کیا آپ کو میری اہمیت کا اندازہ ہے میں روزانہ چار لوگوں کو آکیسجن فراہم کرتا ہوں ‘‘اندازہ لگایئے کہ ایک درخت روزانہ چار لوگوں کو زندگی کا سامان مہیا کرتا ہے تو ایک بڑا درخت 36ننھے منے بچوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے، دس بڑے درخت ایک ٹن ائیر کنڈیشنر جتنی ٹھنڈک پیدا کرتے ہوئے فضائی آلودگی اور شور کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن المیہ دیکھئے جب ہم درختوں کا بے دریغ قتل عام کرتے ہیں تو کتنے افراد اور بچوں کی سانس روکتے ہیں اور ماحول کو آلودہ کرنے کے ساتھ گرمی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ یہاں ملین ٹری کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ او خدا کے بندو دعوئوں سے درخت نہیں لگتے اس کے لیے سنجیدگی سے تمام عوامل کا جائزہ لینےاور نیک نیتی سے اقدام اٹھانے کے بعد ہی دعوے عمل پذیر ہو سکتے ہیں،کیا خیبر پختونخوا اور باقی صوبوں میں درختوں کے بے دریغ قتل عام سے حکومت بے خبر ہے؟

کیا نت نئی ہاوسنگ سوسائٹیوں کے بننے سے زرخیز زمینی رقبہ اور درخت کم نہیں ہوتے جارہے؟ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے مسائل میں اضافہ ہو گا، مسائل کم نہیں ہوں گے، اگر زرعی اور زرخیز زمینوں پر یونہی ہاوسنگ سوسائٹیاں بنتی رہیں اور کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے ہوتے رہے تو وہ وقت بھی آسکتا ہے جب ہم زرعی اجناس کے لیے ترسیں گے اور مہنگے داموں ایکسپورٹ کرنے کے ساتھ گرمی کی حدت اور شدت سے مزید تڑپیں گے۔ کراچی کا جو حال ہے وہ الارمنگ ہے جبکہ دیگر بڑئے شہروں میں ہیٹ سڑوک بڑھتی جارہی ہے۔
کراچی سے کافی عرصے سے بارشیں منہ موڑ چکی ہیں، جس کی وجہ اس شہر میں درختوں کی کمی اور موجود درختوں کی کٹائی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر میں صرف 60 لاکھ درخت موجود ہیں جبکہ آبادی کے لحاظ سے ماحولیات کے اثر سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈیڑھ کروڑ مزید درختوں کی ضرورت ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق کسی بھی شہر کے 25 فیصد رقبے پر درخت ہونا ضروری ہیں، مگر شہر کراچی میں جتنی فضائی آلودگی ہے، اس لحاظ سے 25 فیصد رقبہ بھی ناکافی ہے۔
گلوبل وارمنگ دنیا بھر میں موسموں پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے، زیادہ تر باتوں سے تو ہم واقف ہیں۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی کے کچھ اثرات ایسے بھی ہیں جو ہمارے طرز زندگی کو حیرت انگیز طور پر تبدیل کر دیں گے۔ہم ناراض تر ہوتے جائیں گے۔ موسمیاتی تبدیلی ہمارے مزاجوں پر بھی بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ محققین کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کے باعث انسان زیادہ غصیلے ہو جائیں گے اور تشدد میں بھی اضافہ ہو گا۔ سماجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا غصہ عالمی سطح پر مسلح تنازعات کی شکل اختیار کر جائے گا۔ دنیا بھر میں ہیٹ ایمرجنسی یا موسم گرما میں شدید حالات سے نمٹنے کو بھی اہم چیلنج کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
رواں برس پاکستان اور بھارت میں شدید گرمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
ادھر پاکستان میں سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے رواں برس شدید گرمی کے تناظر میں وفاقی اور صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ہسپتالوں میں خصوصی انتظام کرے تا کہ ‘ہیٹ سٹروک سے متاثر ہونے والے افراد کو فوری علاج کی سہولت میسر ہوسکے۔ ہیٹ سٹروک بڑھنے سے لوگوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ غیر ضروری گھروں سے باہر نکلنے سے اجتناب کریں۔ لوگوں کو زیادہ پانی پینے اور سروں کو ڈھانپ کر گھر سے باہر نکلنے کی بھی تلقین کی جاتی ہے لیکن کہیں یہ نہیں کہا جاتا کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور ماحول کو آلودہ کرنے والے عوامل کو ختم کریں اور گندگی پھیلانے سے باز آئیں ۔
رواں برس جنوبی ایشیائی ملکوں میں شدید گرمی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیاہے، اس مناسبت سے ماحولیاتی سائنسدان پہلے ہی اس خطے کے ممالک کو بڑھتی گرمی کے حوالے سے متنبہ کر چکے ہیں۔ماحول پر نگاہ رکھنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جس طرح زمین کا ماحول بتدریج گرم ہو رہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے چند سالوںمیں جنوبی ایشیائی ملکوںکے بعض حصے انسانی آبادیوں سے محروم ہو جائیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی صحرائی پٹی کے ایک کونے پر آباد شہر سبّی کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
بلوچستان کے اس شہر سبی میں گزشتہ برس درجہ حرارت باون ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا اور سائنس دانوں کا کہنا درست دکھائی دیتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں انسانوں سے آباد کئی علاقے ویران ہو جائیں گے۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں چلتی لْو کے ساتھ انتہائی گرم گرد و غبار بھی اڑتا ہے۔ ماحولیاتی ریسرچرز کی جانب سے یہ انتباہ سائنسی معلومات کے جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع ہوا ہے۔محققین کے مطابق جنوبی ایشیا کے وہ علاقے جہاں، آج کل سخت گرمی کے دوران شدید حبس کی کیفیت میں بھی عام لوگ سایہ دار جگہ اور مناسب حفاظتی انتظامات کے ساتھ گزربسر کر سکتے ہیں، اْس وقت یہ ممکن نہیں ہو گا جب درجہ حرارت میں پانچ یا چھ درجے کا اضافہ ہو جائے گا پھر انسانوں کو سائے میں بھی جینا مشکل ہو جائے گا۔ریسرچرز کا کہنا ہے کہ قریباً پچاس ساٹھ برس بعد جنوبی ایشیائی خطے کی تیس فیصد آبادی کھولتے پانی جتنے درجہ حرارت کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ برصغیر پاک و ہند کے گنجان آباد دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ اتنے شدید گرم موسم میں زندگی کا بچنا محال ہوجائے گا۔ محققین کا کہنا ہے کہ ہولناک گرم لْو اگلی دو تین دہائیوں میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہو جائے گی اور اناج کے لیے زرخیز دریائے گنگا کا میدانی علاقہ بھی شدید متاثر ہو سکتا ہے۔
موسمو ں کے اثرات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ درختوں کی کمی اور کاربن کے اخراج میں اضافہ بتایا جاتا ہے۔ ایک درخت سال بھر میں بارہ کلو گرام تک کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور چار انسانوں کے لیے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ مگر ہمارا عزم ہے کہ آکسیجن کی اس مفت سپلائی کو کاٹ کر ہی دم لینا ہے۔دنیا بھر میں مدِنظر رکھا جاتا ہے کہ تمام منصوبے انسان دوست ہونے کے ساتھ ماحول دوست بھی ہوں اور جہاں اس طرح کے منصوبوں کے لیے درخت کاٹنے ضروری ہوں، وہاں پہلے متبادل درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ ماحولیاتی توازن برقرار رہے لیکن ہمارے ہاں کیا ایسا ہوتا ہے؟کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں لندن اور برمنگھم کو ملانے کے لیے تیز رفتار ٹرین کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔
اس کے روٹ میں آنے والے قدیم درختوں کے کاٹنے کے منصوبے پر شدید عوامی
احتجاج سامنے آیا، چونکہ ان میں سے چند قدیم دیوہیکل درختوں کی منتقلی ممکن نہیں، اس لیے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ درخت کاٹنے سے قبل ٹرین کے روٹ کے دونوں اطراف20لاکھ درخت لگائے جائیں گے جن سے نہ صرف کاٹے جانے والے درختوں کا ازالہ ہوگا بلکہ برطانیہ کے جنگلات کے رقبے میں بھی اضافہ ہوگا۔ہم ایک زمانے سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ چین ہمارا بہترین دوست ہے اور اصل میں حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کو قائم ہوئے چھ دہائیوں سے زائد ہوچکے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چین جیسے بہترین دوست سے ہم نے ماحولیات کے حوالے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔چین کا شاید ہی کوئی علاقہ ہوگا جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر نہ ہوں۔
ہزاروں کلومیٹر پر محیط ریلوے نظام اور بس روٹس کا جال پھیلا ہوا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی منصوبے پر عمل کرنے سے پہلے درختوں کو جدید طریقوں سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے اور مزید درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ آلودگی کامسئلہ درپیش نہ ہو۔ہمارے ہاں جتنے منصوبے بنتے ہیں ، درختوں کابے دریغ قتل عام کیا جاتا ہے، کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کئے جاتے ہیں اس پر معاشرے کی خاموشی کیا جرم نہیں؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button