CM RizwanColumn

حب الوطنی کا معیار ….. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

سات اپریل 2022 ملکی تاریخ کا یادگار دن ہے جس روز ملک کی سب سے بڑی عدالت نے انصاف کا بول بالا کرتے ہوئے پاکستان کے آئین کی پامالی کا گھنائونا منصوبہ نا کام بناتے ہوئے ایک تاریخی فیصلہ دیا۔ یقین جانیں آئین اور جمہوریت پسندوں کو اس فیصلے سے بہت حوصلہ ملا ہے۔ بلاشبہ انصاف کے تقاضوں پر پورا اُترتا یہ فیصلہ کسی ایک سیاسی جماعت یا شخصیت کی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور آئین پاکستان کی جیت تھی۔ اس روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی میں سپیکر کی ایک غیر آئینی رولنگ کو ڈنکے کی چوٹ پر غیر آئینی قرار دیا اور اس تاریخی فیصلہ کا خیر مقدم کرنے والی پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا بھی سیاسی شعور بھی قابل ستائش ہے کہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے ملکی اور قومی مفادات کو قربان نہیں کیا اور ملک کے وسیع تر مفاد اور جمہوریت کی بقا کو پس پشت نہیں ڈالا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتیں ایک ساتھ کھڑی نہ ہوتیں۔

اسی طرح اگر ان جماعتوں کا سیاسی شعور کمزور ہوتا تو ماضی کے اختلافات کی وجہ سے آج ان جماعتوں کے رہنما اور کارکن آپس میں گتھم گتھا ہوتے۔ گو کہ ہماری تمام ملکی سیاسی جماعتیں ابھی اعلیٰ سیاسی شعور کی حقیقی منزل سے کوسوں دور ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان جماعتوں کا سیاسی شعور مسلسل پختگی کا سفر طے کررہا ہے۔اس ضمن میں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کا کردار بھی لائق صد تحسین ہے۔
کوئی سی بھی دو جماعتوں یا ان کی لیڈر شپ میں سیاسی اختلافات ہونا بذات خود کوئی بری چیز نہیں لیکن ان اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کی کردار کشی کرنا اور اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کردیناناپسندیدہ عمل ہے۔پاکستان کی تمام جماعتوں کو اپنے کارکنوں کی اس نہج پر تربیت کرنی چاہیے کہ وہ سیاسی اختلاف کو دشمنی میں تبدیل نہ کریں بلکہ مخالف کی رائے، خیال اور نظریے سے احترام اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر اختلاف کریں۔ ان کو یہ بھی باور کروانا چاہیے کہ جس طرح ان کو، کوئی بھی  رائے، خیال یا نظریہ رکھنے کا حق حاصل ہے اسی طرح یہی حق ان کے مخالفین کو بھی حاصل ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر خود کو حق جبکہ مخالف کو باطل اسی طرح خود کو محب وطن اور مخالف کو غدار سمجھنا در حقیقت سیاسی بے شعوری کی بدترین مثال ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے لے کر کارکنوں تک کا باہمی اختلاف در حقیقت ملک و ملت کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا مسابقہ ہوتا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اس کے برعکس روایت جنم لے چکی ہے اسی لیے تو سیاسی امن و امان شدید خطرات سے دوچار ہو گیاہے۔
اس وقت ملک میں تیسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف ساڑھے تین سالہ حکومت کا دور گزار کر متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی
کامیابی کی صورت میں قائم ہونے والی شہباز شریف حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ اب اس جماعت کے روح رواں اور سابق وزیراعظم عمران خان قریباً روزانہ کی بنیاد پر ملک کے مختلف علاقوں میں عوامی جلسے کر رہے ہیں۔ ان جلسوں میں ان کے خطاب اور الزامات اور اپنے کارکنوں کو آخری حد تک جاکر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی ترغیب وطن عزیز میں ایک نئی متشدد اور خوفناک روایت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ حالانکہ ایک تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ہی آئینی طریقے سے اقتدار اس جماعت سے چھن گیا ہے۔ اس صورت میں اس جماعت کے تمام رہنمائوں کو اپنا خود احتساب کرنا چاہیے اور اپنی سابقہ کارکردگی پر غور کرنا چاہیے کہ اپنی حکومت میں معاشرے میں نفرتوں کی خلیج کو گہرا کرنے کے سوا اس جماعت نے کیا کیا ہے۔
اس جماعت کی قیادت سے لے کر عام کارکن تک سب نے مخالفین کو چور اور ڈاکو کہنے کے سوا عملی حوالے سے کچھ نہیں کیا۔ مخالفین کو دشنام کے اسلحہ سے ڈھیر کرنے کی پالیسی سے اس جماعت نے پاکستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کردی ہیں۔دانش مندی کا تو تقاضا یہی تھاکہ عمران خان وقت سے سبق حاصل کرتے اور اپنی سیاسی جدوجہد کو ایک مثبت سمت دینے کی کوشش کرتے کیونکہ پچھلے چار برسوں میں مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دے کر اور اپنے مصاحبین کی طرف سے ان کی کردار کشی کرواکرانہوں نے ملک و ملت کی کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ مخالفین کو ایک مفروضے کی بنیاد پر غدار قرار دے کر انہوں نے
ملک و ملت کے وقار سمیت سالمیت، استحکام اور ریاستی اداروں کی غیر جانبداری کو بھی دائو پر لگا دیا ہے۔
نوجوان نسل کے ذہنوں میں امریکی سازش اور حقیقی آزادی جیسے جھوٹے افسانوں کی بنیاد پر جو زہر عمران خان اور ان کی جماعت کے دوسرے رہنمائوں نے بھر دیا ہے اس کے اثرات نہ صرف پاکستان کے شہروں، لندن اور امریکہ حتیٰ کہ مدینہ منورہ میں انتہائی شرمناک صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اس تمام صورتحال کو بجائے کنٹرول کرنے کے، اسے اپنی کامیابی تصور کرکے اسی طرح کے مزید واقعات کے لیے پی ٹی آئی ورکروں کو ترغیب دی جارہی ہے۔ صرف عمران مخالف ہی نہیں بلکہ اب تو ان کے حامی بھی اس امر کو تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ اگر مخالف جماعتوں کے خلاف پی ٹی آئی ورکرز کی پرتشدد کارروائیاں اور مظاہرے شروع ہو گئے تو ملک کا امن و امان تباہ ہو سکتا ہے۔
قریباً ایک سال قبل لندن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف پر پی ٹی آئی یوتھ کا حملہ اب بھی یہ بری خبر دے رہا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان اپنے مخالفین کے متعلق معاندانہ رویہ ترک کر دیں لیکن اگر آئندہ بھی وہ اپنے خطابات میں اپنے حامیوں کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں تو نفرت اور انتشار کی آگ مزید بھڑکے گی۔ وہ اگر سیاست میں امن وآشتی نامی کسی شے کے وجود کے قائل ہیں تو انہیں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سنگین غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور اپنے مطالبات کو مطالبات کی حد تک محدود کردینا چاہئے جنگی رجز کا درجہ نہیں دینا چاہیے۔ جہاں تک پاکستان کی تاریخ میں بنیادی کردار رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور ممبران اسمبلی کو غدار قرار دینے کا تعلق ہے تو عمران خان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غدار اور محب وطن ہونے کا معیار ان کی ذات گرامی نہیں کہ ان کا ہر ایک حامی محب وطن ٹھہرے اور ان کے تمام سیاسی مخالف غدار۔ ملکی آئین کا احترام کرنے والا ہر شہری بغیر کسی امتیاز کے محب وطن ہے۔ حب الوطنی کا معیار کوئی ایک سیاسی جماعت، ادارہ، مذہب یا رہنما نہیں بلکہ حب الوطنی کا معیار اس ملک کے آئین کا احترام ہے۔ حقوق اور آئین کی پاسداری کی بات کرنا قطعاً غداری نہیں اور آئین کے مطابق ملک کو معاشی بحران میں دھکیلنے والے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پیش کرنا بھی غداری نہیں ۔
اسی طرح وہ آئین جو ملک کے تمام باشندوں کو موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اس آئین کو توڑنا غداری ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کے سینے پر غداری کے میڈل سجانے اور قوم کو تقسیم کرنے والوں کو کیا کہا اور کیا لکھا جانا چاہیے۔ نام نہاد سیاسی زعماء کیا جانیں کہ حب الوطنی کا معیار کیا ہے۔ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے آئین کو قربان کرنے والوں کو کیامعلوم حب الوطنی کا معیار کیا ہے۔ حب الوطنی کا معیار پوچھنا ہے تو اس فوجی سے پوچھنا چاہیے جو اگلے مورچوں پر دشمن کے دانت کھٹے کرتا ہے، حب الوطنی کا معیار وہ شخص بتا سکتا ہے جو بار بار وزارت عظمیٰ کے عہدے سے غیر قانونی طریقے سے ہٹایا جاتا ہے لیکن ملک کے خلاف ایک حرف بھی زبان پر نہیں لاتا بلکہ عوام کے حقوق کے لیے اس کی آواز مزید توانا ہو جاتی ہے اور حب الوطنی کا معیار وہ شخص بخوبی جانتا ہے جو اپنی بیوی کی شہادت کے بعد بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button