Editorial

چیلنجز سے نمٹنے کا وقت 

ملک بھر میں عید الفطر1443ہجری روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منائی گئی اور نماز عید کے اجتماعت میں ملک و قوم اور اُمت مسلمہ کی سلامتی کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف سمیت اہم ملکی سیاسی و مذہبی شخصیات اور ریاست کے اہم شعبوں کے سربراہان نے عید آبائی علاقوں میں اپنوں کے ساتھ گذاری۔

وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے جاتی امراء میں نماز عید ادا کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہباز نے بھی جاتی امراء میں عید کی نماز ادا کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے والدین ،بھائی اور بھابی کی قبور پر حاضری دی پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز شہریوں سے عید بھی ملے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس، سابق صدر آصف علی زرداری سمیت تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین اور وزرا اعلیٰ کو ٹیلیفون پر عیدالفطر کی مبارکباد دی ہے۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے صدر ڈاکٹر عارف علوی ،آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس، سندھ، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان کے وزرا اعلی اور قائم مقام گورنر بلوچستان و بھی عید کی مبارکباد دی۔ تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین، سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمان سے بھی فون پر گفتگو کی ، عید کی مبارکباد دی۔وزیراعظم نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو ٹیلیفون کیا اور انہیں عیدالفطر کی مبارکباد دی۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا کو ٹیلیفون کیا اور انہیں عیدالفطر کی مبارکباد دی۔وزیراعظم نے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل محمد امجد خان نیازی اور پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سندھو کو بھی ٹیلیفون کیا اور انہیں عید کی مبارکباد دی۔

عیدالفطرکی تعطیلات کے بعد آج سے معمولاتِ روزمرہ کا آغاز ہورہا ہے ، سرکاری دفاتر اور نجی شعبے پھر سے معمول کے مطابق کام کا آغاز کردیں گے لیکن آج سے وفاقی اور صوبائی حکومت پنجاب کے لیے حقیقی معنوں میں آزمائش کاکڑا وقت شروع ہورہا ہے۔ میاں محمد شہبازشریف بطور وزیراعظم اِس وقت اُن چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے بہترین ٹیم اور بہتر انتظامی سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بلاشبہ میاں محمد شہبازشریف اپنی ماضی کی کارکردگی کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہیں اور اُن میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو موجودہ حالات کے تقاضے ہیںاِسی لیے اتحادی جماعتوں نے اُنہیں وزارت عظمیٰ کے اہم منصب کے لیے منتخب کیا ہے۔

وزیراعظم کے منصب کے لیے اِس وقت داخلی اور خارجی چیلنجز کی فہرست اتنی طویل ہے کہ کمزور اعصاب اور کمزور قوت ارادی کا مالک کوئی بھی فرد اِن چیلنجز سے نبرد آزما نہیں ہوسکتا لیکن چونکہ میاں شہبازشریف بہترین ایڈمنسٹریٹر اور معاملہ فہم شخصیت ہیں اور ریاستی اداروں کے معاملات انتہائی تدبر اور دانائی سے چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اِس لیے صرف اتحادی جماعتوں کی نہیںبلکہ وطن عزیز کی عوام کو بھی آپ سے بے حد توقعات ہیں، خصوصاً سندھ، سرحد اور خیبر پختونخوا کے پاکستانی جو پنجاب سپیڈ کا ہمہ وقت ذکر سنتے تھے، اب ریاستی کی سربراہی اُسی شخصیت کے پاس ہے، اِس لیے اب وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے پنجاب ہی نہیں بلکہ باقی صوبوں کو بھی اپنے عملی اقدامات سے ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کا معنی سمجھانا ہے۔

وزیراعظم نے منصب سنبھالا تو ملک میں غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری تھا، پلاورپلانٹس معمولی نقائص کی وجہ سے بند پڑے تھے اور جو چالو تھے اُنہیں ایندھن کی قلت کا سامنا تھا ،آئی پی پیز کے واجبات اپنی جگہ واجب الادا تھے لیکن بروقت اقدامات کی وجہ سے اب ملک کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہیںرہا اور یقیناً یہ بحران بھی اب ٹل گیا ہے، انتظامی مشینری سے کام لینے کے وسیع تجربے کی وجہ سے یقیناًمرکز اور صوبوں بالخصوص پنجاب میں گڈ گورننس کے مسائل نہیں ہوں گے ، اِس وقت ہمارے نزدیک اولین مہنگائی اور دوسری سیاسی صورتحال بڑے مسائل کی صورت میں درپیش ہیں کیوںکہ چیئرمین پی ٹی آئی سابق وزیراعظم عمران خان رواں ماہ کے آخر میں اسلام آباد میں دھرنے کی کال دے چکے ہیں اور وہ اپنی بیانیہ پر قائم ہیں جبکہ پنجاب میں بھی وزارت اعلیٰ کے معاملے پر ابھی تک بحران بدستور قائم ہے حالانکہ وزیراعلیٰ میاں حمزہ شہبازشریف عدالتی احکامات کی روشنی میں حلف اُٹھاکر اپنے کام کا آغاز کرچکے ہیں مگر سردارعثمان بزدار کے استعفے کے معاملے پرابھی تک میچ پڑا ہوا ہے اور گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ اُنہیں وزیراعلیٰ تسلیم کرنے کو تیار نہیں یوں چاروں صوبوں اور مرکز میں سیاسی استحکام نظر نہیں آتا کہ سیاسی استحکام ہو تو عوام کی طرف توجہ مرکوزکی جائے،
اگرچہ ہماری سیاسی روایات ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہیں کہ حزب اختلاف ہمیشہ حزب اقتدار کو اُلجھائے رکھتی ہے اور اِسی سیاسی کشمکش میں عوام کے مسائل جوں کے توں بدستور برقرار رہتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں تو سیاسی بحران شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے ۔ سیاسی اتحاد تو اپنی بہترین اننگ کھیل کر برسراقتدار آچکا ہے لیکن دوسری ٹیم ہمہ وقت اُسے ٹف ٹائم دینے کے لیے نئے نئے راستے تلاش کررہی ہے، اِس لیے وزیراعظم شہبازشریف کو انتہائی تدبر ، دانائی اور بہترین حکمت عملی کے ساتھ جہاں ایک طرف اپنی اتحادی جماعتوں کو ساتھ جوڑ کر رکھنا ہے تو وہیں سیاسی محاذ پر بھی کامیابی حاصل کرنی ہے ، حکومت کے لیے ایک اور سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا خاتمہ ہے جو یقیناً سمجھ سے بالا ہے کہ کیسے ختم ہوگی کیوں کہ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل بارہا پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر بنیادی اشیاء ضروریہ کی مہنگائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ سابقہ حکومت معاشی میدان میںبارودی سرنگیں بچھاکر گئی اس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ معیشت کے حالات اور بین الاقوامی دبائو کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیاء ضروریہ پر سبسڈی ختم کرکے بوجھ عوام پر منتقل کرنا پڑے گا اور اگر حکومت ایساکرتی ہے اور یقیناً ایسا ہی کرنا پڑے گا تو عوام کی طرف سے زبردست ردعمل سامنے آئے گا کیوںکہ صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہی عوام کو ہوش اُڑادیں گی اور پھر اُس کے بعد مہنگائی کا ایسا طوفان آئے گا جو سب کچھ بہالے جائے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ میاں محمد شہبازشریف کے لیے بطور وزیراعظم یہ صورت حال مشکل ہوگی کہ ایک طرف عالمی مالیاتی اداروں کا دبائو ہوگا تو دوسری طرف عوام کی معاشی پریشانیاں۔ اگرچہ ہم متفق ہیں کہ حکومت کو معاشی لحاظ سے سخت فیصلے کرنا ہی پڑیں گے لیکن دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ عام انتخابات کے انعقاد کا وقت قریب آرہا ہے ، وزیراعظم اگر معاشی ٹیم کو سخت فیصلے کرنے کی اجازت دیدیتے ہیںجو بلاشبہ ناگزیر بھی ہیں تو اِن کے اثرات مہنگائی کی صورت میں عام عوام پر مرتب ہوں گے جو پہلی حکومت سے بھی اِسی وجہ سے حائف تھے۔ بہرحال نوجوان وزیراعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہباز شریف کو بھی کم و بیش ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے انہوں نے پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے مگر عام انتخابات تک اُنہیں اپنی خاندانی اور پارٹی سیاست کی لاج رکھنے کے لیے بالکل اسی طرز پر فیصلے کرنا پڑیں گے جیسے مرکز میں میاں شہبازشریف کریں گے یقیناً یہ آزمائش حمزہ شہبازشریف کے لیے بھی اُتنی یہ کڑی ہے جتنی میاں محمد شہبازشریف کے لیے۔ مگر ہم میاں محمد شہبازشریف اور نوجوان وزیراعلیٰ میاں حمزہ شہبازشریف کی کامیابی کے لیے پرامید اور دعا گو ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button