ColumnRoshan Lal

بلوچستان سے وابستہ تلخ حقائق ۔۔۔۔ روشن لال

 گزشتہ کالم ’’ شاری بلوچ اور بلوچستان‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا گیا تھا ۔ اس کالم میں جو کچھ کہا اس پر چند دوستوں کے تحفظات کے باوجود راقم اپنی لکھی ہوئی ہر بات سے مطمئن ہے۔ اس اطمینان کے باوصف راقم کا خیال ہے کہ بلوچستان پر بات کرتے ہوئے جن تلخ حقائق کاذکر ضروری تھا ان کا بیان لفظوں کی حد بندی کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا۔ بلوچستان کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کا قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے ، اس بات کے سچ ہونے کے باوجود ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بلوچستان ہی پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ بھی ہے ۔بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس میں عوام کا معیار زندگی ملک کے دیگر حصوںکی نسبت پست تر ہے۔ اسی صوبہ میں لوگوں کی فی کس آمدنی، شرح خواندگی، شرح روزگار اور صحت کا معیار نچلے ترین درجے کا ہے۔اس صوبہ کے عوام کی محرومیوںکے متعلق ایک ناقابل تردید اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی زمین سے 1950کی دہائی میں نکلنے والی قدرتی گیس ملک کے دور دراز علاقوں میں پہنچانے کا انتظام تو فوری طور پر کر دیا گیا مگر اس نعمت کو صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ تک پہنچنے میں30 برس لگ گئے۔

اپنی محرومیوں کا ذکر کرنے والے کچھ بلوچوںکا کہنا ہے کہ گوہماری زمین معدنی دولت سے مالا مال ہے مگر ہمارے لیے اس کا مصرف یہ ہے کہ موت کے بعد یہ صرف ہماری قبر بنانے کے کام آتی ہے۔سب سے زیادہ رقبے اور سب سے کم آبادی والے اس صوبے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں بچوں کی شرح اموات ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔بلوچستان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر یہاں روزگار کے مواقع پیدا ہو بھی جائیں تو اس کے باسیوں کو نوکریوں کے لیے نااہل تصور کر لیا جاتا ہے۔ اس خطہ کے باسی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں میں یہ بات بھی شمار کرتے ہیں کہ ان کے صوبے سے نکلنے والی قدرتی گیس کی رائلٹی پنجاب کے علاقے ڈھوڈک سے نکلنے والی گیس کی رائلٹی سے تین گنا کم ہے۔ اسی طرح کی محرومیوں کی وجہ سے یہاںایک سے زیادہ مسلح بغاوتوں کا ظہور دیکھنے میں آیا۔ ایسی مسلح بغاوتوں کے انسداد کے لیے یہاں کئی فوجی آپریشن بھی دیکھنے میں آچکے ہیں۔ کسی اور کو یاد رہے یا نہ رہے مگر آج کے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان یہ تلخ حقائق اچھی طرح ازبر کیے ہوئے ہیں کہ ان کی زمین پر پہلا آپریشن 1948 میں کیا گیا، دوسرا آپریشن 1958-59میں ہوا، تیسرا آپریشن 1963 سے 1969 تک جاری رہا،چوتھا آپریشن 1973 میں شروع ہو کر1977تک چلتا رہا اور اکبر بگتی کی شہادت پر مبنی جو پانچواں آپریشن 2004 میں شروع ہوا اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہنوز جاری ہے۔

جو بلوچ نوجوان اپنے صوبے سے متعلق تلخ حقیقتوں سے آگاہ ہیں ان میں بغاوت کے آثار نمایاں ہیں۔ بعض معاملات میں یہ بغاوت علیحدگی پسندی کی طرف مائل دکھائی دیتی ہے۔بلوچستان میں علیحدگی کی آوازیں پاکستان بننے کے فوراً بعداٹھنا شروع ہو گئی تھیں ۔ یہ آوازیں کبھی بہت پرزور اور کبھی بہت دھیمی ہو جاتی ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ بھی علیحدگی کی آوازیں بلند کر رہے ہیں وہ یہی سوچتے ہیں کہ علیحدہ ہو کر انہیں وہ معاشی خوشحالی میسر آجائے گی جو ابھی تک دستیاب نہیں ہوسکی۔ یاد رہے کہ کسی بھی خطے کی آزادی یا غلامی کا تعلق انسانی حقوق، سیاست اور سیاسی نظام سے وابستہ ہوتا ہے جبکہ اس کے باسیوں کی معاشی خوشحالی یا پسماندگی کا انحصاروہاں رائج معاشی نظام اور زمینی وسائل پر ہوتا ہے۔ ہمارے اردگرد نظر آنےوالی علیحدگی کی تحریکوں کے مطالعہ سے یہ بات بڑی حد تک واضح ہوچکی ہے کہ ضروری نہیں کہ کسی علاقے میں محض سیاسی تبدیلیاں رونما ہونے سے وہاں مطلوب معاشی خوشحالی کا حصول بھی ممکن ہو جائے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان لوگوں کو جو بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوں کے ساتھ
معاشی خوشحالی کی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں ، یہ سوچنا چاہیے کہ خونریز جدوجہد کی بدولت ایسٹ تیمور کی انڈونیشیا سے اور جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی کے بعد بھی وہاں مطلوبہ خوشحالی کیوں ممکن نہیں ہوسکی۔
یاد رہے کہ ماضی قریب میں آزاد ہونے والے ایسٹ تیمو ر اور خاص طور پر جنوبی سوڈان میں بیرونی طاقتوں کی اعانت کی بدولت حاصل ہونی والی آزادی کے بعد صرف یہ ہوا کہ وہاں بیرونی سرمایہ کاروں نے اپنے لیے تو بہتر اور زیادہ منافع کے حصول کے مواقع پیدا کر لیے مگر عوام کی معاشی حالت پہلے سے بھی بد تر ہو گئی ۔ جنوبی سوڈان اور ایسٹ تیمور کی علیحدگی کے بعد ظاہر ہونے والی حقیقتیں بلوچستان کے حالیہ حقائق کی طرح ہی تلخ ہیں۔ ان تلخ حقیقتوں کے بیان کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بلوچستان کی تلخیوں کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ بلوچستان میں عرصہ سے جاری جبر اور احساس محرومی کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ اس جبر کے خلاف مزاحمت کی حمایت ہر انسان دوست پر لازم ہے مگر یاد رہے کہ اس مزاحمت کی شکل میں بلوچستان کی علیحدگی کے نام سے جو نئی راہیں تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیںان کی منزل ضروری نہیں کہ صرف بہتری اور خوشحالی کی صورت میں ہی برآمد ہو۔
ایسی راہوں کے متعلق یہ وسوسہ موجود ہے کہ آگے چل کر یہ راہیں دل دہلا دینے والی خونریزی میں بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔ بلوچستان سمیت چھوٹے صوبوں میں جو احساس محرومی موجود ہے اس کا تدارک علیحدگی کے نعروں میں نہیں بلکہ صوبائی خودمختاری کی جدوجہد میں ہے۔ بلوچستان میں جو لوگ علیحدگی کے نعرے لگا رہے ہیں ان کو تو شاید بلوچستان کے اندر سے بھی مناسب حمایت نہیں مل رہی مگر صوبائی خود مختاری کے نعرے میں ایسے مطالبے مضمر ہیں جن کی حمایت صرف بلوچستان اور چھوٹے صوبوں کے عوام ہی نہیں بلکہ پنجاب کے لوگوں کی بڑی اکثریت بھی کر سکتی ہے۔ اگر صوبائی طور پر خود مختار بلوچستان کے وسائل وہاں کی جمہوری حکومتوں تصرف میں چلے جائیں گے تو وقت گذرنے کے ساتھ بلوچستان کے
عوام دور غلامی کے تسلسل سے اپنا دامن بچا کر خوشحالی کے راستوں پر گامزن ہو سکیں گے۔
صوبائی خود مختاری کے ضمن میں اس ملک کے اندر اٹھارویں ترمیم کی شکل میں ایک بہت بڑی انقلابی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے متعلق یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ بوجوہ اس کے ثمرات چھوٹے صوبوں کے عوام تک اس طرح نہیں پہنچ سکے جس طرح پہنچ سکتے تھے یا پہنچنے چاہیے تھے۔ چھوٹے صوبوں کے عوام کی ان ثمرات سے محرومی کی ذمہ دار جہاں اٹھارویں ترمیم کی دشمن قوتیں ہیں وہاں کسی نہ کسی حد تک ان صوبوں کے سیاستدان بھی ہیں۔ بلوچستان یا دیگر چھوٹے صوبوں میں جو لوگ علیحدگی کی تحریکوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وہ اگر اپنے علاقوں میں جمہوری سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہوئے اپنی توانائیاں اٹھارویں کو مستحکم کرنے اور اس کے مطابق حقوق حاصل کرنے میں صرف کریں توکسی قسم کی خونریزی اور قیمتی جانوں کے زیاں کے بغیر ہی اپنے لوگوں کی معاشی خوشحالی کی منزل کی طرف رواں ہو سکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button