ColumnKashif Bashir Khan

طرز حکمرانی کا فرق! …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
کچھ دنوں قبل شیخ محمد بن زید النہیان جو ابو ظہبی کا ولی عہد اور وہاں کی آرمی کا ڈپٹی سپریم کمانڈر ہے، اپنے ایک معاون کے ساتھ گاڑی پر کہیں جا رہا تھا،  اس نے ایک سکول کے باہر بچی کو اکیلے پریشان بیٹھے دیکھا۔ اس نےگاڑی موڑ کر واپس اس بچی کے پاس روک دی اور اس بچی سے پوچھا کہ تم پریشان اور اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟اس بچی کا جواب تھا کہ میرے والد سکول سے واپسی پر ابھی تک مجھے لینے نہیں آئے اور میں ان کا انتظار کر رہی ہوں اس لیے پریشان ہوں۔ ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان اس بچی کے پاس بیٹھ گیا اور کہا کہ’’بیٹی اگر تمہارے والدنہیں آئے تو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیتا ہوں‘‘لیکن بچی نے انکار کر دیا کہ میرے والد نے مجھے کسی اجنبی کے ساتھ جانے سے منع کیاہے۔ شہزادے کے معاون نے بچی کو کہا کہ’’تمہیں نہیں پتا کہ یہ ولی عہد ہیں اور اس ملک کے آنے والے بادشاہ؟ بچی نے جواب دیا کہ’’ہاں مجھے پتا ہے کہ یہ ابو ظہبی کے ولی عہد ہیں لیکن میرے والد نے مجھےسختی سےمنع کیاہے کہ کسی اجنبی کے ساتھ کہیں بھی نہیں جانا‘‘ شہزادے نے بچی کو پیار کیا ، اس کے پاس ہی فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اورکہا کہ’’اچھی بات ہے کہ تم اپنے والد کی اتنی تابعدار ہو‘‘۔ جب قریباً ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد بچی کا والد اسے لینے کے لیے پہنچا تو شہزادہ محمد بن زید النہیان اس بچی کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا اور اس نے اس بچی کو اس کے والد کے حوالے کرنے کے بعد اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔بہترین طرز حکومت کے اس سچے واقعہ کا مظاہرہ اس سکول کی ٹیچرز نے دیکھا اور کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ابوظہبی کا ولی عہد اور شہزادہ سڑکوں پر سرعام پھر رہا تھا اور ایک بچی کو اکیلی بیٹھے دیکھ کر اس کی مدد کو پہنچ گیا اور گھنٹوں اس بچی کے پاس بیٹھا رہا اور اس کے والد کے آنےپروہاں سےہٹا۔ پاکستانی قوم کے لیے کمال کی خبر نہیں کہ دبئی کا ولی عہد کسی بھی پروٹوکول کے بغیر وہاں کی سڑکوں پر پھر رہا تھا۔
اسی طرح آج سے بہت برسوں پہلے جب دبئی کے شہزادے شیخ راشد بن سعید المکتوم جو بعد میں دبئی کے حکمران بنے، نے دبئی کی ترقی کا سفر شروع کیا تووہاں تعمیرات اور سڑکوں کا جال بچھادیا ۔ آج دبئی دنیا کے سیاحوں کے لیے سب سے بڑی جگہ ہے اور وہاں کی حکومت آج اربوں ڈالر صرف سیاحت کی انڈسٹری سے حاصل کر رہی ہے۔جس زمانے میں شہزادہ شیخ راشد بن سعید المکتوم نے دبئی کی ترقی کا سفر شروع کیا تھا،ایک دن شہزادہ راشد اپنی گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کرکے اپنا کام کرنے کے لیے ایک عمارت میں چلا گیا۔جب شہزادہ راشد المکتوم واپس آیا تو اس کی گاڑی کے پاس ٹریفک پولیس کا ایک سپاہی کھڑا تھا اور اس نے شہزادہ شیخ راشد بن سعید المکتوم کو سلام کرنے کے بعد گاڑی غلط پارک کرنے پر جرمانہ کی پرچی پکڑا دی۔ ٹریفک پولیس کے ایک ادنیٰ سپاہی کے اس ایکٹ پر شہزادہ راشد کے ساتھی نے کہا کہ’’آپ ولی عہد اور شہزادے ہواور اس سپاہی کو آپ کے عہدے اور مرتبے کا خیال کرنا چاہئے تھا‘‘اس پرولی عہد دبئی شہزادہ راشد بن سعید المکتوم نے اپنے ساتھی کو جواب دیا کہ’’ نہیں اس نے اپنی ڈیوٹی ایمان داری سے انجام دی ہے اور اس سپاہی کی ذمہ داری کے بعد مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب دبئی کو ترقی کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی‘‘۔
پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس کوئی ایسا لیڈر موجود ہی نہیں جس کا سیاسی قد کاٹھ اتنا بڑا ہو اور جو اتنا ایمان دار ہو کہ پاکستان کے عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کی جلتی ہو ئی پیشانی پر ہاتھ رکھ سکے اور ان کی پہاڑ سی زندگیوں سے مسیحائی کر سکے۔21کروڑ سے زائد کی آبادی اور4 صوبوں پر مشتمل پاکستان میں اس وقت لیڈر شپ کا قحط ہے اور کوئی بھی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جو چاروں صوبوں کی زنجیر ثابت ہو سکے اور جس کے دل میں پاکستان اور اس کے عوام کا درد ہو۔آج پاکستان میں صرف اور صرف ایماندار اور پاکستان کے عوام کا درد رکھنے والے حکمران کی ضرورت ہے۔
2018 تک جتنے بھی الیکشن پاکستان میں ہوئے، عوام سمجھ رہے تھے کہ شاید ان کے دکھوں کا مداوا ہوسکے لیکن جو کچھ ہمیشہ پاکستان کے عوام کے ساتھ ہوا وہ نہایت الم ناک ہے۔بے حس،نااہل اور بدعنوان حکمرانوں نے ہمیشہ جو سلوک عوام سے کیا ہے، اس کا تصور کوئی بھی قومی غیرت رکھنے والا حکمران سوچ بھی نہیں سکتا۔آج پاکستان میں مفادات کی سیاست کو عروج حاصل ہےاور تمام ہی حکمران اشرافیہ ہیں۔ روٹ لگا کر سفر کرنے والے موجودہ تمام حکمرانوں (جوجمہوریت کے لبادے میں بدترین آمر ہیں)نے اس ملک کی سالمیت کا سودا کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ جہاں سے واپسی بہت مشکل ہوا کرتی ہے اور اس کے بعد ایک ایسا سفر شروع ہوا کرتا ہے جو قوم کی مکمل تباہی پر ختم ہوا کرتا ہے۔فکر کی بات نہیں اس ملک کی حفاظت کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے اور پاکستان کے عوام کاکام کسی بھی وقت شروع ہوسکتا ہے۔ قانون قدرت ہے کہ اللہ تعالی طاقت و دولت دے کر بھی آزمایا کرتا ہے اور ایسی آزمائش میں رسی بھی دراز کر دیا کرتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ ابتر ترین معاشی اور معاشرتی حالات متقاضی ہیں کہ عوام صرف یہ سوچیں کہ جو کچھ پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ گزشتہ 7 دہایوں سے تمام اشرافیہ حکمران اور ان تمام طبقوں نے جو طاقت و اختیارات کا منبع رہے ہیں، کیا ہے اس کے بعد کیا پاکستان کے عوام کو زیب دیتا ہے کہ آج بھی ان تمام اشرافیہ کے حق میں نعرے ماریں اور ان کی حمایت کریں؟پاکستان کی بنیادیں ہلانے اور پاکستان کے عوام کی آنے والی نسلیں اداس کرنے والے موجودہ تمام روایتی سیاست دانوں کو بھی آج سوچنا ہو گا کہ اب تو خلق خدا کی تباہی پر اپنے رب سے معافی مانگ لیں کہیں ایسانہ ہو کہ قانون قدرت حرکت میں آجائے اور ان کا انجام بھی لیبیا کے کرنل قذافی یا پھر سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی جیسا ہو۔ وقت کے فرعونوں اور عوام کواپنے اپنے طورپر سوچنا ہو گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button