CM RizwanColumn

لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی؟ …. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

جب سے مسلم لیگ نون کے صدر میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں ملک کے صنعتکاروں اور تاجر برادری کو کسی حد تک یقین ہوگیا ہے کہ وہ وزیراعظم کی حیثیت سے صنعت اور صنعت کاروں کے مسائل جلد اور بہتر انداز میں حل کرنے کی کامیاب کوشش کریں گے۔ ہمارے ایک دوست معروف صنعت کار ارشد جمال کا اس حوالے سے استدلال ہے کہ پوری قوم اور خاص طور پر صنعت کار طبقہ چند دنوں میں یہ خوشخبری سنے گا کہ ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گیا ہے اور سابقہ نواز دور کی طرح ملک بھر میں بجلی کی بلا تعطل سپلائی شروع ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں لوڈ شیڈنگ کی زیادہ تر وجوہات انتظامی نوعیت کی ہیں جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کی شہرت ایک سیاست دان سے زیادہ سخت گیر منتظم کی ہے جو پنجاب میں ان کے وزارت اعلیٰ کے مختلف ادوار میں قائم ہوئی۔ 2008 سے 2018 تک مسلسل دو بار وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے شہباز شریف کے دور اقتدار میں لاہور سمیت پنجاب میں ترقیاتی کاموں (جن میں میٹروز، اورنج ٹرین لائن جیسے بڑے منصوبے بھی شامل تھے) پر تیز رفتاری سے کام ہوا جس کے باعث’’شہبازسپیڈ‘‘ کی اصطلاح عام ہوئی اور انہی منصوبوں کی بنیاد پر اُن کو کرپشن کے الزامات اور کیسز کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دوسری جانب ان پر یہ تنقید بھی ہوتی رہی کہ انہوں نے پورے صوبے کی بجائے لاہور کو ہی توجہ اور ترقیاتی فنڈز کا مرکز بنائے رکھا،اس کے باوجود شہباز شریف کی اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر شہرت اب بھی کافی حد تک قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے تمام قائدین نے بھی ان کو ہی وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیا۔ باوجود اس کے کہ شہباز شریف اس عہدے کے خواہشمند نہیں تھے لیکن ان کو اتحادیوں کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔
پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے ادوار میں شہباز شریف کے حوالے سے یہ عام رائے تھی کہ وہ اپنی صوبائی کابینہ کے وزرا سے زیادہ بیوروکریٹس پر انحصار کرتے اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بطور سخت گیر منتظم وہ ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ جو کام بھی شروع ہو وہ فوراً مکمل ہو جائے اور اس میں بیوروکریسی کی جانب سے کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ تاہم اب وفاق میں دفاع، امور خارجہ، ملکی معیشت، بجلی اور پانی جیسے بڑے مسائل کے ساتھ شہباز شریف کی کابینہ میں اپنی جماعت کے اراکین کے علاوہ (جو شہباز شریف کی طرز حکمرانی کو بخوبی جانتے ہیں) اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی شامل ہیں جن کی ناراضی مول لینا اس لیے بھی اتنا آسان نہیں ہو گا کہ موجودہ مخلوط حکومت انہی اتحادیوں کے بل بوتے پر کھڑی ہے اور حکومت کی مدت بھی واضح نہیں۔ بہرحال شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز صبح سویرے اسلام آباد میٹرو کے منصوبے کا دورہ کیا اور زیر تعمیر منصوبوں کے اچانک دورے کرنا بھی شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کا ایک خاصہ رہا ہے۔ شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ کافی برق رفتاری سے کام کرنے کے عادی تھے۔ عموماً وہ صبح چھ بجے اٹھتے ، کافی کا کپ لے کر گاڑی میں بیٹھتے اور کسی نہ کسی پراجیکٹ کی بریفنگ یا دورے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔
بیوروکریٹس ان سے تنگ بھی آجاتے کیونکہ انہیں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا۔ ایک سہل پسند سرکاری افسر کے لیے بیس بیس گھنٹے تک کام کرنا آسان نہیں ہوتامگر دیکھاگیاکہ متعلقہ بیوروکریٹ اور افسران تھک جاتے لیکن شہباز شریف نہ تھکتے ۔ شہباز شریف سے متعلق یہ بات بھی عام ہے کہ وہ بہت کم وقت کے لیے سوتے ہیں اور اب بھی سُنا ہے کہ شہباز شریف رات کے دو بجے سوئمنگ کرتے ہیں یعنی جب عام لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کام کے حوالے سے کتنے باصلاحیت اور ہر وقت دستیاب رہنے والے منتظم ہیں۔ اپنی اس عادت کا مظاہرہ شہباز شریف نے اُس وقت بھی کیا جب ایوان وزیراعظم کا مکین بنتے ہی پہلا حکم نامہ سرکاری ملازمین کی ہفتے کے دن کی چھٹی کی کٹوتی اور آفس کے وقت میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔ وہ بھی ماہ رمضان میں جب اکثر سرکاری دفاتر میں کام کی رفتار سست رہتی ہے۔ شہباز شریف سے متعلق ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ کام کے معاملے میں کافی سخت گیر ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر بیورو کریٹس اُن کے لیے دل سے کام نہ کرتے اورانکا خیال ہوتا ہے کہ تھوڑے آرام اور سہولت سے بھی کام ہو سکتا ہے لیکن شہباز شریف کام کے معاملے میں نسبتاً عجلت پسندی کے قائل ہیں۔ جن وزراء اور مشیروں نے ماضی میں شہباز شریف کے ساتھ کام کیا انہوں نے یہی کہا کہ شہباز شریف کے ساتھ وہی وزیر چل سکے جو محنتی تھے، جن کو اپنے کام پر عبور تھا اور جو ان کے دیے گئے ٹارگٹس کو پورا کر سکتے تھے لیکن اگر کسی وزیر یا مشیر کو اپنے کام کا علم ہی نہ ہو تو ظاہر ہے پھر بیوروکریسی سے ہی کام کروانا پڑتا تھا اور شہباز شریف اس صورت میں بھی کام ضرور کرواتے تھے۔
خواجہ سلمان رفیق کہتے ہیں کہ شہباز شریف کو اپنے منصوبوں پر اتنا عبور حاصل ہوتا ہے کہ بیورو کریٹس کے لیے ان کے روبرو جھوٹ بولنا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ وقت ضائع نہیں کرتے۔ ایسے ٹارگٹ سیٹ کر دیتے ہیں جو کبھی کبھار بظاہر ناممکن لگتے ہیں اور پھر ان کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ بار بار فالواپ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض وزراء کو ان سے اختلاف بھی ہوجاتا ہے تو وہ دلیل سے قائل کرلیتے اور ورکنگ ریلیشن شپ بھی برقرار رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ بڑے اہداف اپنی عجلت پسندی اور کمٹ منٹ کی وجہ سے حاصل کر لیتے ہیں، بحیثیت حکمران شہباز شریف کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ایسے بیورو کریٹس کو اپنی ٹیم میں شامل کیا جو اُن کے کام کے طریقے کو سمجھتے اور نتائج دے سکتے تھے۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ انہوں نے چند بیوروکریٹس کو چُنا اور اپنے کام کی رفتار کے حساب سے ان کو ٹرینڈ کیا جن میں احد چیمہ، فواد حسن فواد، میجر اعظم سلیمان، کیپٹن اسد، نبیل اعوان، مومن علی آغا جیسے بیوروکریٹس شامل تھے۔ یہ شہباز شریف کی خاص ٹیم ہی تھی جو اُن کی آنکھوں کے اشارے بھی سمجھتےتھے۔ شہباز شریف ڈائریکٹ وزیراعظم منتخب نہیں ہوئے ان کے سیاسی سفر کو باقی لوگوں کے مقابلے میں دیکھیں تو شہباز شریف نے ایک ایم پی اے کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کیا، پھر ممبر قومی اسمبلی، پھر پنجاب میں اپوزیشن لیڈر رہے اور پھر وزیر اعلیٰ بنے۔ انہوں نے سسٹم کو اندر سے دیکھا اور تجربہ حاصل کیا۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی کو سیدھا وزیر اعظم لگا دیں کہ کام کرتے ہوئے سیکھ لے گا جیسے گذشتہ دور میں وفاق اور صوبوں میں مذاق ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ نظام کواور نظام چلانے والوں کو جانتے ہیں تو یقیناً آپ کے لیے کام کرنا اور کروانادونوں آسان ہو جائیں گے، ورنہ وزیراعظم کو مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ ہماری تیاری نہیں تھی۔ لہٰذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ شہباز شریف کا پنجاب میں بیوروکریسی کے ساتھ طویل عرصے تک کام کرنے کا تجربہ یقیناً وفاق میں بھی ان کے کام آئے گا۔
گو کہ صوبے کی وزارت اعلیٰ اور وفاق میں وزارت عظمیٰ میں بہت فرق ہے۔ صوبے کے معاملات اور وفاق کے اختیارات بھی بہت حد تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ وفاق میں بہت سی اہم وزارتیں اور بڑے مسائل ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں سیاسی و معاشی چیلنجز کے حوالے سے درجہ حرارت عروج پر ہے، حکومت اتحادیوں کے بل بوتے پر کھڑی ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان میں اب بھی کام کرنے کی وہی صلاحیت ہے جو پہلے وقت میں تھی۔ اگر استعداد کار پہلے جیسی بھی ہو پھر بھی شہباز شریف کے لیے اصل چیلنج یہ ہو گا کہ سیاسی حالات اور اتحادیوں کے ساتھ کس قسم کا ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوتی ہے اور حکومت کتنا عرصہ چلتی ہے۔ شہباز شریف کے پاس وقت اور اکثریت دونوں کی کمی ہے۔ جس طرح کے مسائل کا ملک کو آج سامنا ہے۔ ایسے میں سخت فیصلوں کی ضرورت ہے جو صرف وہی حکومت لے سکتی ہے جس کے پاس لمبا عرصہ اور پارلیمان میں اکثریت ہو۔ گورننس کا معاملہ، معاشی مسائل اور مہنگائی کے ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی تقسیم کسی بھی حکومت کے لیے بڑے چیلنج ہیں لیکن خصوصاً ایک اتحادی حکومت کے لیےجس کے پاس وقت بھی کم ہے ان کا حل نکالنا مشکل ہے۔ صنعت کار ارشد جمال کا کہنا ہے کہ یہی مشکلات ہی شہباز شریف کے لیے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا باعث بنیں گی اور وہ ثابت کریں گے کہ وہ نہ صرف ایک سخت گیر منتظم بلکہ ایک قابل بھروسہ حکمران ہیں۔ سعودی عرب کے پہلے دورے میں ہی چھ کروڑ ڈالرز کی ریلیف لے کر آنا ان کا ہی کام ہے۔ اس ریلیف سے یقیناً وہ کئی معاشی بحرانوں پر قابو پانے کے قابل ہوں گے اور لوڈ شیڈنگ تو وہ اپنے وعدے کے مطابق یقینی طور پر ختم کر کے ہی دم لیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button