آؤ مدینے چلیں … محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار
(گذشتہ سے پیوستہ)
دو دہائیوں میں اللہ کریم نے اتنی عنایات کی اوربے شمار مواقع فراہم کئے کہ نہ صرف اس کے گھر کی زیارت ہوئی بلکہ سرکار دوعالمﷺ کے روضہ مبارک کی بھی حاضری نصیب ہوئی۔ الریاض سے مدینہ اور مکہ کا سفر کا اچھا خاصا ہے لیکن اچھی سڑکوں اور بہترین سواریوں کی بدولت یہ سفر زیادہ تھکاوٹ نہیں دیتا البتہ بیماروں کے لیے بسا اوقات اتنی سہولیات کے باوجود بھی سفر مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ صحت و تندرستی کی حالت میں اس سفر نے کبھی نہیں تھکایا لیکن گذشتہ دو ؍اڑھائی برس سے کمر کی شدید تکلیف نے سفر سے معذور کررکھا ہے اور اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اتنا لمبا سفر کروں البتہ ماہ رمضان کی بابرکت ساعتوںمیں ان شاء اللہ رخت سفر باندھ چکا ہوں اور اس وقت بارگار رسالت ﷺمیں پیش ہوں۔گذشتہ برسوں (قریباً 2016)برادرم سعید وسیم کے ساتھ عرصہ دراز کے بعد ملاقات ہوئی، سعید وسیم اپنے چند دوستوں کے ہمراہ گذشتہ بیس بائیس برس سے ماہ رمضان میں مسجد نبوی میں اعتکاف کرتے ہیں۔ کیا روح پرور منظر ہوتا تھا کہ مسجد نبوی میں عاشقان رسولؐ شمع توحید کے پروانے ماہ رمضان کی برکات سمیٹتے نظر آتے ،مسجد کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ضیوف الرحمن مسجد میں عبادات میں مشغول نظر آتے۔ البتہ میرے جیسے گنہگار ایک عرصہ تک معاش کی خاطر سعودیہ میں مقیم رہنے اورماہ رمضان میں حرمین حاضری دینے کے باوجود ،اعتکاف کی نیت و خواہش رکھنے کے باوجود ،در نبیؐ پر اس سعادت سے محروم رہے کہ چھٹی کے ایام یہی خواہش اور کوشش ہوتی کہ پاکستان کا رخت سفر باندھا جائے اور گھر والوں کے ساتھ وقت گذارا جائے،لیکن گذشتہ چند برسوں میں چند قانونی مسائل کے باعث پاکستان کا سفر ممکن نہ ہو
سکا اور 2016میں برادرم سعید وسیم کے ساتھ یہ سعادت بھی اس ناچیز کو نصیب ہوئی کہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں درنبیؐ پر ٹوٹی پھوٹی عبادت اور ندامت کے آنسو لیے پڑے رہے ،اپنے لیے ،عزیز و اقارب، امت مسلمہ اور بالخصوص وطن عزیز کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ اللہ رب العزت نے یہ خواہش بھی پوری کی گو کہ یہ ایسی خواہش ہے کہ اس کی تشنگی بھرنے میں نہیں آتی اور دل چاہتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو ہمیشہ کے لیے در نبیؐ پر پڑا رہوں ،وہیں اس امید پر یہ جان،جان آفرین کے سپرد کروں کہ محبوب خداکے درپر نکلی جان پر اللہ کریم کی رحمتیں ضرور ہوں گی ،جو خامیاں بندگی میں رہ گئی ،اللہ کریم ان سے درگذر فرمائے گااور ان شاء اللہ جنت میں داخل فرمائے گا۔یہ خواہش و تمنا تو ہر مسلمان کے دل میں ہے اور اللہ کریم قادرمطلق ہے،جو چاہے کرسکتا ہے اوراگر چاہے تو مجھ جیسے گنہگار کو اپنے اس گمان کے مطابق موت عطا کر سکتا ہے کہ اس کا فرمان جلیل ہے کہ میرا بندہ مجھ سے جو گمان رکھتا ہے،میں اس کو اسی طرح نوازتا ہوں،بخدا میرا یہ گمان او رایمان ہے کہ اللہ رب العزت اپنی رحمت سے اس بندہ ناچیز کی بخشش فرما کر اپنی قربتوں کے سائے میں رکھے گا،ان شا ء اللہ،خواہ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوں۔
البتہ درنبیؐ پر رہنے والے مسلمانوں پر رشک آتا ہے کہ کیا خوش نصیب لوگ ہیں،ان کی محبت سرکار دوعالمؐ سے کس قدر زیادہ ہے یاآقائے نامدارؐ،ان احباب سے کتنے خوش ہیں کہ انہیں اپنے درپر رکھا ہوا ہے، نہ ان احباب کو سرکارؐ سے دوری برداشت ہے اور نہ سرکارؐان سے دوری برداشت کرتے ہیں۔ان میں سے کئی ایک احباب کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو دہائیوں سے در نبیؐ پر قیام پذیر ہیں اور تجلیات سے بہرہ ور ہوتے ہیں،سرکارؐ کی قربت سے محظوظ ہوتے ہیں۔ کووڈ سے پہلے مسجد نبوی ؐ کے اندرونی حصہ میں افطار کا الگ ہی سماں رہتاتھا کہ مدینہ کی مخصوص افطاری سے دستر خوان بھرے ہوتے اور زائرین کی ایک بڑی تعداد ان دسترخوانوں پر اپنے میزبانوں کے سامنے بیٹھی نظر آتی، انتظامی امور کے باعث اب اندرونی حصہ میں افطار کا انتظام بدل چکا اور اب افطار ڈبوں میں بند زائرین کو مہیا کی جا رہی ہے۔ البتہ انصار مدینہ کی مہمان نوازی آج بھی روز اول کی طرح قائم ہے اور چھوٹے بچے آج بھی کسی اجنبی کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھتے اسے اپنے دسترخوان پر افطار کی دعوت دیتے ہیں،اسے اپنے نرم ہاتھوں میں پکڑ کر،یا عم یا عمی پکارتے،اپنے دستر خوان کی طرف کھینچتے ہیں کہ افطاری ہمارے ساتھ کرو۔ کوئی اجنبی جب ان بچوں کی پکار پر ان کے ساتھ ہو لیتا ہے تو مسرت کے دیپ ان معصوموں کی آنکھوں میں جلتے صاف دکھائی دیتے ہیں،جیسے انہوں نے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو ،ہفت اقلیم انہیں مل گئی ہو۔ علاوہ ازیں! اہل مدینہ کی سخاوت کہیں،اعلیٰ ظرفی کہیں یا مہمان نوازی کہیں،یہ ساری دنیا میں مسلمہ ہے کہ اگر کسی کو نہ بھی جانتے ہوں تب بھی جو بن پڑتا ہے،کھلے فیاض دل سے کرتے نظر آتے ہیں،اس کا مشاہدہ
میں بذات خود کر چکا ہوں کہ گذشتہ کسی رمضان میں، مسجد نبوی میں چلتا ہوا اپنی مخصوص جگہ کی طرف جا رہا تھا کہ راستے میں ایک سعودی کو اس کے عمال کے ساتھ محو گفتگو پایا،عمال اپنے سعودی کفیل کو عطر ایک چھوٹی سی شیشی ہدیہ کر نا چاہ رہا تھا جبکہ سعودی اس سے انکار کر رہا تھا،میں نے پاس سے گذرتے گذرتے ازراہ تفنن ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا کہ اگر آپ نہیں قبول کرنا چاہتے تو مجھے عنایت کر دیں۔ میری یہ بات سن کر پہلے تو سعودی مسکرایا اور پھر دفعتاً اپنے عمال سے وہ عطر کی شیشی پکڑی اور مجھے ’’محمد‘‘ کی آواز(کہ مدینہ میں کسی بھی انجان کو محمد کہہ کر پکارنا ایک روایت ہے)دے کر بلایا اور وہ عطر مجھے اسی وقت ہدیہ کر دیا۔ میں حیران پریشان اس سعودی کی طرف دیکھنے لگا کہ کہاں تو یہ شخص اپنے عمال سے وہ ہدیہ قبول نہیں کر رہا تھا اور کہاں یکلخت اس کا دل بھی رکھا اور میری پکار(خواہ مذاقاً ہی سہی)کوردنہ کیا،ایسی فیاضی، ایسی سخاوت مدینہ میں ہی نظر آتی ہے،بہت کم سعودی عرب کے دوسرے شہروں میں یہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
کووڈ کے دوسال حرمین کی رونقیں ماند رہی لیکن اب چونکہ دنیا بھر سے زائرین کو حرمین کاقصد کرنے کی اجازت مل چکی ہے،اس لیے ساری دنیا سے زائرین جوق درجوق حرمین کی زیارت کے لیے امڈے آ رہے ہیں۔ برادرم سعید بھی رخت سفر باندھ چکا ہے اور الحمد للہ اپنی بیماری کے باجود،اللہ رب العزت کا شکرگذار ہوں کہ اس نے اس ناچیز کی حاضری بھی حرمین میں قبول کر لی ہے،اذن مل چکا ہے اور کل ان شاء اللہ مدینہ کی تیاری ہے۔ مسجد نبوی ؐمیں پاکستان سے بھی احباب تشریف لا رہے ہیں،کچھ حاضر ہو چکے ہیں اور آنے سے قبل بذریعہ واٹس ایپ نہ صرف مطلع کر چکے ہیں بلکہ ملنے کے خواہش کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ دوسری طرف مدینہ میں ڈاکٹر اسامہ محی الدین کی زندگی سے بھرپور شخصیت موجود ہے،جن سے ملاقات کا اپنا ہی لطف ہے کہ دین و دنیا کے علم سے لبریز شخصیت ہیںاور مسجد نبوی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک احباب کی خیریت دریافت کرتے نظر آتے ہیں،جو بن پڑتا ہے،احباب کی خدمت کرنے میں تامل سے کام نہیں لیتے۔ برادر محترم محمد سجاد مانچسٹر سے ہر سال تشریف لاتے ہیں،گذشتہ دوبرسوں کی تشنگی ختم کرنے کے لیے سال کے اوائل میں بھی تشریف لائے لیکن اپنی بیماری کے باعث ان سے ملاقات نہ ہوسکی،جس کا شکوہ وہ ہرٹیلیفونک گفتگو میں کرتے ہیں۔باغ و بہار قسم کی شخصیت اور ہر وقت متحرک رہتے ہیں،ان کی کمپنی کاایک اپنا مزہ ہے،اسی طرح برادرم نعمان مکہ سے ہمرکاب ہوتے ہیںجو محفل کو کشت زعفران بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں،خاموش طبع علی احمد بھی اس محفل کا حصہ ہوتے ہیں۔ان سب سے بڑھ کر آخری عشرے میں ہونے والی شبینہ میں عبادت کا اپنا مزہ ہے کہ جہاں امام مسجد نبوی ؐکی رقت آمیز آواز میں قرآت سے آنکھیں نم ہوئی جاتی ہیں۔مانگی جانے والی دعاؤں میں امام کی گریہ زاری مقتدیوں کے دل کھینچ لیتی ہے،مقتدی امام کے ساتھ ہی گڑگڑاتے ہوئے،رب ذوالجلال کے حضور امت مسلمہ اور انفرادی بخشش کی دعائیں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ایک بات برمحل ہے کہ اللہ رب العزت کے حضور صرف دعائیں کافی نہیں کہ اس کے لیے عمل بھی درکار ہے،ہمیں انفرادی و اجتماعی حیثیت میں سوچنا ہو گا کہ آخر ایسے مقدس مقامات پرمانگی جانے والی دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتی؟ ہمیں اپنے اعمال کی تصحیح انفرادی حیثیت میں کرنا ہو گی تا کہ اجتماعی طور پر ہماری نجات و بخشش ہو سکے،ہمیں ہماری کھوئی ہوئی عزت و وقار نصیب ہو سکے،جس کے لیے ہمیں احکام الٰہی کی پابندی کرنا ہو گی،اس کے بغیر ہماری عزت، ہمارا وقار ہمیں واپس نہیں مل سکتا خواہ ہم ساری زندگی سفر مدینہ میں محو رہیں۔