ColumnZulfiqar Ahmed Rahat

کامیاب حکمرانی میں ٹیم مینجمنٹ کا کردار … ذوالفقار احمد راحت

ذوالفقار احمد راحت

کسی بھی حکومت یا وزیراعظم کے لیے بنیادی اور ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوروکریٹ اور سیاسی ٹیم کیسے منتخب کرتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں میں یہ فیکٹر کھل کر سامنے آتا ہے کہ اس کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار اس کی ٹیم پر ہی ہوتا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ کی بات کرلیں تو امریکی صدر کے انتخاب کے بعد ان کے لیے سب سے بڑا امتحان اپنی ٹیم کی سلیکشن ہی ہوتا ہے۔ایوب خان،زیڈ اے بھٹو، ضیاء الحق،میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور اب عمران خان سب کی کامیابی اور ناکامی کا مختصراً جائزہ لیا جائے تو جگہ جگہ سلیکشن آف پیپلز کی غلطی ہی نظر آئیگی ۔ جن لوگوں کو ان تمام حکمرانوں سے کئی کئی میل دور ہونا چاہیے تھا وہ سب کے سب ان کے دفاتر، گھروں اور بیڈ رومزکے اندر پائے گئے اور جن کو قریب ہونا چاہیے تھا ان کو بہت دور رکھا گیابلکہ ذلیل کیا جاتا رہا۔

میں ہمیشہ کہا کرتا ہوںکہ بیورو کریسی اور سیاسی ٹیم کی تشکیل کے معاملے میں مسلم لیگ نواز دوسری جماعتوں سے بہت آگے ہے۔حتی کہ میڈیا مینجمنٹ کا میکنزم بھی دوسری تمام جماعتوں سے بہت بہتر ہے۔ میڈیا مینجمنٹ آج 85 نیوز چینلز، سینکڑوں اخبارات اور سوشل میڈیا کی موجودگی میں ایک سائنس کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔جو سیاستدان، جو ادارے اور جو حکمران اس آزاد میڈیا کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لیں گے ان کی سیاست،حکمرانی اور صحت کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں اور حکومت اپنے رویے تبدیل کر لیتی ہیں کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور ہماری سیاسی شخصیات میں جمہوریت اور برداشت بہت کم ہے اسی لیے میڈیا کے ساتھ رومانس اپوزیشن میں تو کافی زیادہ ہوتا ہے  لیکن جونہی حکومت بنتی ہے، رویے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کی آزادی کے دور میں عمران خان کی حکومت نے میڈیا کے ساتھ جو کیا ماضی میں نواز لیگ ایسا کرکے تاریخ سے سبق سیکھ چکی ہے ۔یہ بھی ایک تاریخی سچ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی نواز لیگ کی بہت بڑی خوبی بن جاتی ہیں اور دوسری طرف مسلم لیگ نواز کا بڑے سے بڑا بلنڈر بھی پی پی ٹی آئی کی خوبی نہیں بن پاتا۔ وجہ کیا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے پاس میڈیا مینجمنٹ کے میکنزم کے ساتھ ساتھ اس میکنزم کو لے کر چلنے والی باصلاحیت اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے ۔
کامریڈ پرویز رشید اور مریم اورنگزیب جیسا کمیٹڈ اور میڈیا کو سمجھنے والا ایک شخص بھی پاکستان تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے۔مریم اورنگزیب اور پرویز رشید جیسے لوگ کسی بھی سیاسی پارٹی کا قیمتی سرمایہ ہوا کرتے ہیں جو پارٹی کے نظریے کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے دوست اور دشمنوں کی بھی مکمل پہچان رکھتے ہیں۔ایسے نظریا تی سیاسی ورکر ذاتی مفاد کو پارٹی کے مفاد پر ترجیح نہیں دیتے۔ایسے لوگ اپنے نظریے اور مشن کے لیے جان تک دے دیتے ہیں۔ اچھے اور برے وقت میں ان کو پتا ہے کہ کس طرح بہترین میڈیا مینجمنٹ کرتے ہوئےاپنی پارٹی اور نظریے کو تکمیل تک پہنچانا ہےجبکہ
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف میں میڈیا مینجمنٹ کے نام پر ایسے ایسے تجربے کیے گئے اور ایسے لوگ لائے گئے جن کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کو پارٹی کے ہمدرد دس صحافیوں کے بھی نام تک نہیں آتے۔ لوگ آتے رہے لوگ جاتے رہے اور ان لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو پاکستان کے اس آزاد میڈیا کے خلاف کھڑا کر دیا۔ ان میڈیا منیجرز نے یہ بھی نہ سوچا کہ عمران خان اسی آزاد میڈیا کی سپورٹ کی بدولت اقتدار میں آیااور وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھا ہے۔ اگر ان یوتھیا میڈیا منیجرز کو کسی سمجھدار سرکاری افسر نے بات سمجھانے کی کوشش بھی کی تو انہوں نے آگے سے اپنا ہی فلسفہ جھاڑنا شروع کر دیا۔ ان حضرات نے وزیراعظم پاکستان کو بالآخر قائل کرلیا کہ ان کا سب سے بڑا دشمن پاکستانی میڈیا ہی ہے۔ راتوں رات میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین بننے لگے۔سب سے بڑے میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹو شکیل الرحمن کو جیل میں ڈال دیا۔یہ ٹاسک کسی اور کا تھا مگر گالیاں تحریک انصاف کی حکومت نے رضاکارانہ طور پر کھائیںاور حکومت اس بلنڈر کی پوری طرح سے ذمہ داری بھی لیتی رہی ۔عمران خان کی میڈیا ٹیم کی طرف سے حامد میر،نصرت جاوید، طلعت حسین، عامر متین اور رئوف کلاسرا ایسے لوگوں کو آپ ایئر کروانے کا سرعام کریڈٹ لیا جاتا رہا۔یہ میڈیا منیجر ز کا تکبرانا سٹائل بھی میڈیا کو پارٹی سے دور کرتا رہا۔چھوٹی چھوٹی بات پر میڈیا پرسنز کی بے عزتی کرنا تحریک انصاف کے میڈیا منیجر نے معمول بنائے رکھا۔
عمران خان کی میڈیا ٹیم کی فرعونیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معروف صحافی طلعت حسین کی شکل جس چینل NEO پر نظر آئی اس کے سرکاری اشتہارات بند کر دیئے گئے۔اسی طرح پرنٹ میڈیا انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی اور سینکڑوں اخبارات بند ہوگئے۔
چینلز اور اخبارات نے ڈاؤن سائزنگ کے نام پر اخباری کارکنان کو نکالنا شروع کردیا جبکہ حکومت نے مختلف اداروں سے نکلنے والے ان ورکنگ جرنلسٹس کو میڈیا مالکان کے خلاف استعمال
کرنے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام رہی۔اسی طرح عمران خان کی بادشاہت کو طوالت اور استحکام دینے کے لیے میڈیا کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔بادشاہ سلامت کے امپورٹڈ اور میڈ ان پاکستانی میڈیا منیجر یہ بات بھول گئے کہ بادشاہ سلامت کی حکومت تو دو تین ممبران کی ہاں یا ناں پر کھڑی ہے۔ عمرانی حکومت نے میڈیا ہاؤسز کے اشتہار بند کرکے اور بعد ازاں کھول کر میڈیا مینجمنٹ کے نئے نئے اصول وضع کیے۔ ان معاملات میں پاکستان کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ دار افسران انکو سمجھاتے رہے مگر انہوں نے سننے اور سمجھنے بجائے اپنے ایجنڈے پر کام جاری رکھا اس کے بعد پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی۔PMDA کے نام سے ایک نیا ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے ذریعے پیمرا، پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان،پاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور APP جیسے سرکاری اداروں کا قبلہ درست کرنے کے ساتھ ساتھ تمام پرائیویٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مربوط میکنزم تجویز کیا گیا۔اے پی این ایس، سی پی این ای اور پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن۔ ,غیرہ نے حکومتی سٹیک ہولڈرز کو بہت مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی مگر حکمران کب سنتے ہیں۔اس کے بعد سوشل میڈیا کی آزادی کی سب سے بڑی حامی جماعت تحریک انصاف نے اظہار رائے کی آزادی کا مکمل گلا گھٹنے کے لیے peeka نامی ایک آرڈیننس جاری کردیا۔تحریک انصاف کی حکومت کے آزادی اظہار رائے پر قدغن کے لیے بنائے گئے دونوں قوانین تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہاتھوں دوسرا مریم اورنگزیب کے ہاتھوں۔یہ الگ بات ہے کہ کچھ اہل نظر دوستوں کی رائے یہ ہے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ peeka آرڈیننس کو ختم نہ کرتی تو آج پاکستان تحریک انصاف کی آدھی قیادت اسی آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے جیل میں ہوتی۔ آج میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ نواز شریف کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد پرویز رشید کی گائیڈ لائن اور مریم اورنگزیب کی میڈیا مینجمنٹ نہ ہوتی تو مسلم لیگ نواز آج اقتدار میں نہ ہوتی ۔اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ شہباز شریف حمزہ شہباز یا نواز شریف کی باقی ٹیم کا کردار نہیں ہے۔میرا مقصد یہ ہے کہ جب کپتان ٹیم بناتا ہے ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے۔تو پھر ٹیم کے ممبران کی کارکردگی کھل کر سامنے آتی ہے۔عمران خان کی ناکامی اگر تجزیہ کیا جائے تو سب سے بڑی وجہ سامنے آئے گی کہ وہ بیوروکریٹ اور سیاسی ٹیم بنانے میں ناکام رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button