کامیاب حکمرانی میں ٹیم مینجمنٹ کا کردار … ذوالفقار احمد راحت
کسی بھی حکومت یا وزیراعظم کے لیے بنیادی اور ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوروکریٹ اور سیاسی ٹیم کیسے منتخب کرتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں میں یہ فیکٹر کھل کر سامنے آتا ہے کہ اس کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار اس کی ٹیم پر ہی ہوتا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ کی بات کرلیں تو امریکی صدر کے انتخاب کے بعد ان کے لیے سب سے بڑا امتحان اپنی ٹیم کی سلیکشن ہی ہوتا ہے۔ایوب خان،زیڈ اے بھٹو، ضیاء الحق،میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور اب عمران خان سب کی کامیابی اور ناکامی کا مختصراً جائزہ لیا جائے تو جگہ جگہ سلیکشن آف پیپلز کی غلطی ہی نظر آئیگی ۔ جن لوگوں کو ان تمام حکمرانوں سے کئی کئی میل دور ہونا چاہیے تھا وہ سب کے سب ان کے دفاتر، گھروں اور بیڈ رومزکے اندر پائے گئے اور جن کو قریب ہونا چاہیے تھا ان کو بہت دور رکھا گیابلکہ ذلیل کیا جاتا رہا۔
عمران خان کی میڈیا ٹیم کی فرعونیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معروف صحافی طلعت حسین کی شکل جس چینل NEO پر نظر آئی اس کے سرکاری اشتہارات بند کر دیئے گئے۔اسی طرح پرنٹ میڈیا انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی اور سینکڑوں اخبارات بند ہوگئے۔
کرنے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام رہی۔اسی طرح عمران خان کی بادشاہت کو طوالت اور استحکام دینے کے لیے میڈیا کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔بادشاہ سلامت کے امپورٹڈ اور میڈ ان پاکستانی میڈیا منیجر یہ بات بھول گئے کہ بادشاہ سلامت کی حکومت تو دو تین ممبران کی ہاں یا ناں پر کھڑی ہے۔ عمرانی حکومت نے میڈیا ہاؤسز کے اشتہار بند کرکے اور بعد ازاں کھول کر میڈیا مینجمنٹ کے نئے نئے اصول وضع کیے۔ ان معاملات میں پاکستان کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ دار افسران انکو سمجھاتے رہے مگر انہوں نے سننے اور سمجھنے بجائے اپنے ایجنڈے پر کام جاری رکھا اس کے بعد پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی۔PMDA کے نام سے ایک نیا ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے ذریعے پیمرا، پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان،پاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور APP جیسے سرکاری اداروں کا قبلہ درست کرنے کے ساتھ ساتھ تمام پرائیویٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مربوط میکنزم تجویز کیا گیا۔اے پی این ایس، سی پی این ای اور پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن۔ ,غیرہ نے حکومتی سٹیک ہولڈرز کو بہت مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی مگر حکمران کب سنتے ہیں۔اس کے بعد سوشل میڈیا کی آزادی کی سب سے بڑی حامی جماعت تحریک انصاف نے اظہار رائے کی آزادی کا مکمل گلا گھٹنے کے لیے peeka نامی ایک آرڈیننس جاری کردیا۔تحریک انصاف کی حکومت کے آزادی اظہار رائے پر قدغن کے لیے بنائے گئے دونوں قوانین تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہاتھوں دوسرا مریم اورنگزیب کے ہاتھوں۔یہ الگ بات ہے کہ کچھ اہل نظر دوستوں کی رائے یہ ہے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ peeka آرڈیننس کو ختم نہ کرتی تو آج پاکستان تحریک انصاف کی آدھی قیادت اسی آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے جیل میں ہوتی۔ آج میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ نواز شریف کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد پرویز رشید کی گائیڈ لائن اور مریم اورنگزیب کی میڈیا مینجمنٹ نہ ہوتی تو مسلم لیگ نواز آج اقتدار میں نہ ہوتی ۔اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ شہباز شریف حمزہ شہباز یا نواز شریف کی باقی ٹیم کا کردار نہیں ہے۔میرا مقصد یہ ہے کہ جب کپتان ٹیم بناتا ہے ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے۔تو پھر ٹیم کے ممبران کی کارکردگی کھل کر سامنے آتی ہے۔عمران خان کی ناکامی اگر تجزیہ کیا جائے تو سب سے بڑی وجہ سامنے آئے گی کہ وہ بیوروکریٹ اور سیاسی ٹیم بنانے میں ناکام رہے۔