Ali HassanColumn

تحریک انصاف کا مستقبل ایک سوال ؟ … علی حسن

علی حسن

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) بظاہر اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے قیام کا مقصد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات کا انعقاد تھا ۔ مولانا فضل الرحمان نے نون لیگ اور پی پی سمیت کئی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو جوڑ کر پی ڈی ایم کھڑی کی تھی ۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز میں اس حد تک ٹھن گئی کہ ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کر نے لگے۔ بلاول ناراض ہو کر ایک طرف ہو گئے لیکن مولانا نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور انہیں جوڑنے کی بار آور کوششیں کیں۔

پی ڈی ایم کے ساتھ ایسا ہی ہوا جیسا 1977 میں مارشل لا نے بھٹو حکومت گرانے کے لیے بنائے جانے والے پی این اے یعنی پاکستان قومی اتحاد کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع دیا تھا کہ قومی اتحاد نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کر دیاہے۔ پی این اے اپنے منطقی انجام کی طرف اس وقت پہنچا جب پی این اے میں شامل جماعت اسلامی سمیت بعض جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں شمولیت حاصل کر لی یوں اس فیصلے نے پی این اے کا عملاً خاتمہ کر دیا۔
عمران حکومت کی موجودگی میں مولانا سمیت کوئی یہ باتیں نہیں کر رہا تھا کہ کس جماعت کو کیا ملے گا یا کس کی حیثیت کیا ہوگی۔ خود مولانا فضل الرحمان کی خواہش بعد میں سامنے آئی کہ وہ پاکستان کی صدارت کے متمنی ہیں، پی پی کے چیئرمین بلاول اپنی نا تجربہ کاری کے باوجود دل میں ملک کے وزیر خار جہ مقرر ہونے کی تمنا رکھتے ہیں، وغیرہ ۔ پی پی نے اسپیکر کے علاوہ اور وزارتیں بھی حاصل کر لیں۔ اے این پی نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ انہیں حکومت میں کوئی وزارت نہیں چاہیے ۔ مولانا نے بہر حال اپنے بیٹے کو وفاقی وزیر بنوا دیا ہے۔ اختر مینگل نے بھی اپنی پارٹی کا وزیر مقرر کرادیاہے۔ یہ دوسری بات ہو گی کہ ان کا لاپتا افراد کی بازیابی کا معاملہ پوری طرح حل نہیں ہو سکے گا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے نمائندے بھی وزیر مقرر ہو گئے ہیں اور وزارتوں میں وزیر اعظم کے عہدے سمیت سب سے بڑا حصہ نون لیگ نے حاصل کیا ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت بھی ان کے ہی حصے میں آ رہی ہے۔ نون لیگ نے تو اس سے بھی کہیں زیادہ اہم حیثیت حاصل کر لی کہ نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف اپنے بھائی وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کی کل وقتی رہنمائی کے نام پر ہدایات لندن سے جاری کر رہے ہیں حالانکہ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے تا حیات نا اہل قرار دیا ہے۔ پی پی چیئرمین بلاول کوبھی نواز شریف کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے لندن جانا پڑا تاکہ وہ وزیر خارجہ مقرر ہو سکیں۔ بہر حال پاکستان میں سیاست کرنے والی تمام جماعتیں ملک میں فوری انتخابات کے مطالبہ کے طرف بڑھ رہی ہیں ۔ بظاہر پی پی فوری انتخابات کے مطالبہ کی حامی نہیں ۔مریم نواز چاہتی ہیں کہ فوری انتخابات کی طرف جایا جائے کہ وہ یقین رکھتی ہیں کہ اس وقت لوہا گرم ہے اور انتخابات کا نتیجہ نون لیگ کے حق میں نکلے گا۔ پی پی کے بلاول اس کے برعکس سوچ رکھتے ہیںاور انہیں اچھی طرح علم ہے کہ سندھ میں ہر لحاظ سے با اختیار حکومت کے باوجود فوری انتخابات کی صورت میں انہیں عام انتخابات میں پنجاب سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیںہوگا اس لیے انتخابات تاخیر سے ہوں تاکہ پی پی مضبوط امیدوار تلاش کر سکے۔
نون لیگ اور پی پی کے علاوہ پنجاب میں ایک اوربظاہر مقبول پارٹی تحریک انصاف ہے۔ تحریک سے وابستہ و ہ لوگ عمران خان کی طرح سوچتے ہیں کہ فوری انتخابات میں تحریک انصاف اپنی کھوئی ہوئی حیثیت بحال کرا سکے گی۔ ایسا کیوں کر ممکن ہوگا اگر الیکشن کمیشن کا غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمہ کا فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کی کمیشن کو ہدایت کہ فیصلہ تیس دن میں دیا جائے، معطل کر دیا، فیصلہ اگر انتخابات سے قبل آتا ہے تو عمران خان نا اہل قرار دیئے جا سکتے ہیں اور پارٹی پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ عمران خان کو غلط بیانی کرنے کے الزام میں قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ پارٹی کا کوئی ایسا ڈھانچہ موجود نہیں کہ فوری طور پر متبادل سامنے آسکے۔ تحریک انصاف میدان میں موجود نہ ہو، عمران خان جیل میں ہوں تو ان کے امیدوار وں کی نامزدگی کون کرے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے عمران خان کے جیل میں ہونے کے باوجود ان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہو چکا ہوگا۔
پاکستان لوگ بڑے جزباتی قسم کے لوگ ہیں، اس ملک میں ایسا ایک سے زائد بار نظر آیا ہے۔ عمران خان کے خلاف مختلف قسم کے الزامات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ان الزامات کے ذریعے ان کی مقبولیت کو داغ دار کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ عمران خان کے مخالف انہیں غیر دیانت دار شخص ثبت کرنے پر مصر ہیں لیکن ان کے حامی تو انہیں ایسا رہنما قرار دینے کی جستجو کر رہے ہیں جو لوٹی گئی قومی دولت واپس لانا چاہتے ہیں۔ بیک وقت کئی مفروضے پائے جاتے ہیں۔ لوگ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو انتقامی کارروائی قرار دیں گے۔ پارٹی میں یہ سوچ بھی کار فرما ہے کہ کسی غیر مقبول پارٹی سے مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے پلیٹ فارم سے تحریک انصاف کے امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔ انتخابات میں امیدواروں کی کامیابی کی صورت میں وہ پارٹی کیوں کر تحریک انصاف اور عمران خان کے ماتحت کام کر نے پر رضا مند ہو گی۔ عارف نقوی کے خلاف امریکہ میں کیس کی سماعت عمران خان کی پوزیشن پر کیا فرق ڈال سکتی ہے۔ کیا الیکشن کمیشن کے خلاف مظاہرہ کوئی نتیجہ دے سکے گا؟ عمران خان بھی اب محسوس کرتے ہوں گے کہ اکبر ایس بابر سے بگاڑ کر اچھا نہیں ہوا۔ وجیہ الدین احمد کو پارٹی سے نکال کر اچھا نہیں کیا، حامد خان کو علیحدہ کر کے اچھا نہیں کیا۔ معراج محمد خان کو جنرل سیکریٹری کے عہدے سے ہٹا کر پارٹی سے ہی نکا ل دیا گیا ۔ زبیر خان کو کراچی سے صدارت سے علیحدہ کر کے اچھا نہیں کیاگیا ۔ کیا اس دور ابتلاء میں وجیہ الدین احمد، حامد خان، اعتزاز احسن ، افتخار گیلانی، سابق جسٹس ناصرہ اقبال وغیرہ وغیرہ عمران خان کی کوئی قابل ذکر مدد کر سکیں گے؟ سیاسی مبصرین زور دے کر کہتے ہیں کہ عمران خان ابھی مقبولیت کے اس پیمانے پر ہیں جہاں نون لیگ، پی پی یا مولانا فضل الرحمان نہیں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button