CM RizwanColumn

بھارت کی بے جا تعریفیں … سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنے دورِ حکومت میں متعدد بیانات میں، کئی مقامات جلسوں اور انٹرویوز میں بھارت کی خارجہ اورمتعدد پالیسیوں کی تعریف کر چکے ہیں۔ اپنے ازلی مخالف ملک کے لیے پاکستان کے ایک حکمران کی جانب سے اس تعریف کو نہ صرف بھارت میں حیرت و استعجاب کے ساتھ دیکھا گیا ہے بلکہ اب بھی اس کو سوشل میڈیا میں پروپیگنڈا کا موضوع بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں سابق پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے بھارت کی خارجہ پالیسی کی تعریف پر مختلف سطحوں پر دلچسپ ردعمل دیکھنے کو ملے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کسی رہنما کی بات کبھی بھی قابل اعتماد نہیں رہی تو کچھ کا خیال تھا کہ بالآخر ایک دیرینہ دشمن کو بھی بھارت کی عظمت کا احساس ہو گیا جبکہ کچھ بھارتی لوگ اس کا سہرا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سر باندھنے کی کوشش کرتے رہے، جس وقت عمران خان کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے مشکل صورتحال کا سامنا تھا اور اپوزیشن جماعتیں عمران خان پر ملکی معیشت کے ساتھ ہی ان پر خارجہ پالیسی کو بگاڑنے کے بھی الزامات عائد کر رہی تھیں۔ گو کہ عمران خان اس کی مسلسل تردید بھی کرتے رہے لیکن حقائق اپنی جگہ موجود ہی رہتے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز قبل عمران خان نے مالاکنڈ ڈویژن میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کی خارجہ پالیسی کی واضح الفاظ میں تعریف کی۔شاید یہ پہلا موقع تھا کہ بھارت کے دیرینہ حریف پاکستان کے کسی سربراہ نے بھارتی خارجہ پالیسی کی اس طرح بڑے عوامی جلسے میں کھل کر تعریف کی ہو۔ حالانکہ عمران خان نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت اور اس کی ہم خیال تنظیم آر ایس ایس کی ہمیشہ سے مخالفت کرتے رہے تھے۔ اسی طرح روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے پس منظر میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارا پڑوسی ملک ہے بھارت۔ میں آج بھارت کو داد دیتا ہوں، جس نے ہمیشہ آزاد فارن پالیسی رکھی۔ آج بھارت کواڈ کے ساتھ ہے۔ امریکہ کے ساتھ کواڈ میں اس کا الائنس ہے لیکن اپنے آپ کو وہ کہتا ہے میں نیوٹرل ہوں۔ بھارت روس سے تیل منگوا رہا ہے جب کہ پابندیاں لگی ہوئی ہیں کیونکہ بھارت کی پالیسی اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی ملک کے عوام کی بہتری کے لیے ہو لیکن اب تک کی حکومتوں نے اس پر کبھی توجہ نہیں دی۔ عمران خان کا کہنا تھاکہ ‘جب یہ لوگ (اپوزیشن) اقتدار میں تھے، تو ان کی پالیسی ہمارے لیے نہیں تھی۔ پاکستان پر چار سو ڈرون حملے ہوئے، عورتیں اور بچے مارے گئے، بے قصور لوگ مارے گئے لیکن ان لوگوں نے ایک دفعہ بھی مذمت نہیں کی۔ان لوگوں نے منافقت کی ہے۔
ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض رہنماؤں نے عمران خان کے ایسے
بیانات سے اتفاق کرتے ہوئے ان پر سخت طنز بھی کیاہے۔ بی جے پی کے ایک سنیئر رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلی کویندر گپتا نے کہاہے کہ ‘مسلم اکثریتی ممالک،پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی زیادہ حمایت کرتے ہیں اور پاکستان کو اس کا اعتراف کرنا چاہیے کہ بھارت ایک خودکفیل ملک ہے۔ بی جے پی سوشل میڈیا سیل کے سابق سربراہ ورون پوری نے اپنے ٹویٹ میں لکھا، گوکہ (عمران خان کی) یہ بات سیاسی اغراض پر مبنی ہے لیکن بہرحال عمران خان نے ایک سچائی کا اعتراف کیا ہے۔ نریندر مودی کی سفارت کاری معجزاتی ہے اور یہ ہر شخص کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بھارت مودی کی قیادت میں عالمی سیاسی منظر نامے پر ایک قائدانہ رول ادا کر رہا ہے۔ تاہم ایک اور بھارتی صارف نے اس طرح کے بیانات پر بھارتی لوگوں کو خوش فہمی سے بچنے کی اپیل کرتے ہوئے لکھا، ہمیں عمران خان جیسے لوگوں سے تصدیق نامے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ انہوں نے بھارت کی تعریف صرف اپنی آرمی کی مخالفت کی وجہ سے کی ہے۔ اس ٹویٹر صارف کی بات بالکل درست ہے کیونکہ کوئی بھی پاکستانی رہنما بھارت کی کسی بھی چیز کی حقیقتاً تعریف کبھی نہیں کر سکتا۔
ایک سنجیدہ اور محب وطن پاکستانی کی نظر میں عمران خان نے پاکستان کے ازلی مخالف بھارت کی خارجہ پالیسی کی متعدد بار مثالی تعریف کرکے نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں کشمیریوں کے خون اور ان کے حق خود ارادیت کی توہین کی بلکہ پاکستان کے ان تمام موجودہ اور ریٹائرڈ محب وطن سفارت کاروں کی خدمات پر بھی پانی پھیر دیا ہے جواپنے ملک کی بقا، مفاد اور پالیسی کے مطابق دنیا بھر کے سامنے بھارت کی خارجہ پالیسی اور مکارانہ چالوں کو بے نقاب کرتے رہے ہیں، آج کل عمران خان موجودہ حکومت کے سب سے طاقتور حریف اور ایک طرح سے مضبوط اپوزیشن لیڈر ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنی تقاریر میں بھارت کے حکمرانوں،ان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی تعریف میں کہے گئے الفاظ واپس لیں یا پھر کہ جس طرح وہ آسانی سے یوٹرن لے لیتے ہیں اور ان یوٹرنز کو ایک سیاسی لیڈر کی شان و شوکت قرار دیتے ہیں اس یوٹرن کا بھی وہ کوئی سا سہانا جواز پیش کرکے کم ازکم اس دکھ کا ازالہ کر سکتے ہیں جو ایک عام محب وطن پاکستانی کو ایک پاکستانی حکمران کی جانب سے بھارت کی تعریف پر ہوا ہے۔
عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے ایسے بیانات سے جہاں عام پاکستانی کی دل آزاری ہوئی ہے وہاں پروپیگنڈا کرنے والے بھارتی میڈیا کو ایک آسان بہانہ مل گیا ہے، پاکستان اور پاکستانی افواج پر بے جا تنقید اور شرمناک ہوٹنگ کا۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو ماضی کی اپنی تمام بھارت مخالف تقاریر اور پاکستانی وزارت خارجہ کا وہ تمام ریکارڈ بھی جلادینے کی سفارش کردیں جن میں بھارت کی مکارانہ ’’غیر جانبدارانہ‘‘ خارجہ پالیسی کو اقوا م متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں بے نقاب کرنے کی پاکستانی کوششیں محفوظ ہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں فوجی جوانوں کی شہادت اور شجاعت کو قوم کی خدمت اور دفاع وطن قرار دینے کی بجائے بھارت کی اس غیر جانبدارانہ پالیسی کو ’’کریڈٹ‘‘ دیں جس کی بدولت بھارت نے پاکستان کے خلاف نہ صرف سوویت یونین کی حمایت حاصل کی بلکہ امریکہ سے بھی پاکستان پر پابندیاں عائد کرواکر پاکستان کو نقصان پہنچایااور پھر 1971 میں متحدہ پاکستان کودو ٹکڑے کرکے بنگلہ دیش قائم کرکے تاریخ عالم میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا اور اب بھی بھارتی خارجہ پالیسی کا محور ہی پاکستان کو دنیا میں تنہا کرکے اس کو ختم کرنا ہے۔
عمر ان خان کو کم از کم اپنے چھوٹے چھوٹے منفی اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے اپنے اس بیان سے قبل پارٹی میں اپنے جانشین اور وزیر خا رجہ شاہ محمود قریشی سے مشورہ کرلینا چاہیے تھا۔ اب بھی افسوس کے ساتھ عمران خان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ زمینی حقائق اور اپنے ایسے بیانات کے آئندہ اثرات کا جائزہ لئے بغیر انہوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی کی حمایت اور تعریف کے جو سرٹیفکیٹ جاری کیے تھے انہیں بھارتی سفارت کار عالمی اداروں اور دنیا بھر میں پیش کرکے پاکستان کے خلاف اپنے مقاصد بھی حاصل کریں گے بلکہ پاکستان کی داخلی سیاست میں مزید انتشار پھیلانے کے لیے بھی استعمال کریں گے، عمران خان کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ زمینی حقائق کچھ یوں ہیں کہ بھارت اور روس کے گہرے تعلقات کئی عشرے پرانے ہیں اور اب بھارت امریکہ اتحاد و تعلقات کے بعد بھارت ابھی تک اپنی خا رجہ پالیسی میں شفٹ لانے کے لیے اقدامات کررہا ہے اور امریکہ بھی بدستور اس عرصہ میں ایران پر پابندیوں کے باوجود بھارت کو ایران سے اور روس پر سخت پابندیوں کے باوجود کم قیمتوں پر تیل خریدنے کی اجازت بھی دے رہا ہے اور بھارت کی جانب سے روس کی مذمت نہ کرنے پر بھی برہم نہیں بلکہ بھارت کو امریکہ کا پارٹنر قرار دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف ایک سابق پاکستانی وزیراعظم، صدر بائیڈن کے محض فون نہ کرنے کو ہی بڑا اہم مسئلہ سمجھ کر اپنی ذاتی انا پر ملکی مفاد قربان کرنے تک پہنچ گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button