Editorial

وزیراعظم شہبازشریف کا مسلم سفرا سے خطاب

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے مسلم ممالک کے سفیروں کے اعزاز میں افطار ڈنر سے عربی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ برادر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مسلم امہ میں اخوت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اجتماعی دانش کو بروئے کار لا کر مسلم ممالک میں غربت اور بیروزگاری ختم کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت اتحادی حکومت قائم ہے۔ مسلم ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور برادرانہ تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔ ہمیں یورپی یونین طرز پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ترقی اور عالمی امن کے لیے مسلمان ملکوں کو عالمی برادری کے ساتھ ملکر کام کرنا ہو گا۔ قدرتی وسائل سے مالا مال برادر اسلامی ملک ترقی پذیر ملکوں کی مدد کریں۔ مسلم امہ کے حقوق کے لیے او آئی سی کو مزید مؤثر اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں۔ قراردادوں میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ افغانستان میں امن خطے کے امن و استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے اپنے خطاب میں اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور اُن کے حل پر مفصل روشنی ڈالی اور ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح حالیہ برسوں میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کے رکن ممالک کے درمیان تعاون بڑھا اور بین الاقوامی سطح کے اہم معاملات پر اُمت مسلمہ کا متفقہ موقف سامنے آیا اگر اسی تسلسل کو برقرار رکھا جائے تو کوئی شبہ نہیں کہ کشمیر اور فلسطین سمیت تمام دیرینہ تصفیہ طلب مسائل حل کے قریب پہنچ جائیں۔ اُمت مسلمہ کے مشترکہ پلیٹ فارم اسلامی تعاون تنظیم کی کوشش سے اقوام متحدہ نے اسلاموفوبیا کے مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے قرارداد منظور کی جو پاکستان اور اسلامی تعاون تنظیم کی بڑی کوشش اور کامیابی ہے۔ ہم وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کی اِس بات کی تائید کرتے ہیں کہ قدرتی وسائل سے مالا مال برادر اسلامی ملک کو کمزور اور ترقی پذیر اسلامی ملکوں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ بھی ترقی اور خوشحالی کے راستے پر سفر کا آغاز کرسکیں۔ اُمت مسلمہ متحد ہوگی اور باہمی مسائل کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرے گی تو کسی غیر کو ہمارے معاملات میں مداخلت کی جرأت نہیں ہوگی اِس کے برعکس اگر ہم چھوٹے چھوٹے مسائل کو صلح جوئی کے ساتھ حل کرنے کی بجائے جنگ و جدل کے راستے پر چلتے رہے تو ہم پہلے سے زیادہ کمزور ہوکر اسلام دشمنوں کا چارہ بن جائیں گے جیسا کہ حالیہ دہائیوں میں عراق، لیبیا، شام، فلسطین اور افغانستان سمیت کئی ایک مسلمان ریاستوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیںاور جنہیں دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرات میں تبدیل کردیاگیا لیکن ہم مذمت سے زیادہ کچھ نہ کرسکے اور بسا اوقات تو مذمت سے بھی قاصر رہے۔ یقیناً مسلمان ریاستوں کو اپنے وسائل اور مسائل مسلمان ممالک تک محدود رکھنے کا فائدہ اور صرف فائدہ ہی ہوگا اِس طرح اسلام دشمن مسلمانوں کے وسائل کو
مسلمانوں کے ہی خلاف استعمال نہیں کرسکیں گے اور پھر یہ وسائل غریب مسلم ریاستوں کے مسائل دور کرنے کے کام آئیںگے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپی یونین نے بڑی بڑی جنگوں اور لاکھوں ہلاکتوں کے بعد اِس تصور کو سمجھ لیا ہے کہ امن میں ہی زندگی ہے، جبھی آج یورپی ممالک نے ایک دوسرے کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں اور ایک دوسرے کے وسائل اور ترقی سے فائدہ اٹھارہے ہیں اِس کے برعکس اُمت مسلمہ کوباہمی تنازعات میں اُلجھاکر کمزور سے کمزور تر کیاجارہا ہے۔ عراق ہو یا افغانستان، ہم دیکھتے ہیں کہ عالم ِ کفر مل کر ٹوٹ پڑتا ہے چونکہ ہم چھوٹے چھوٹے مسائل کی وجہ سے تقسیم ہیں اِس لیے ہم خاموش تماشائی بننے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے اور یہی وجہ ہے کہ آج کتنی ہی مسلمان ریاستوں کو ایسے حملوں کے نتیجے میں کمزور تر کیا جاچکا ہے جہاں زندگی بھی اب مشکل تر ہوچکی ہے۔ پاکستان کی ہی مثال لے لی جائے تو اُمت مسلمہ کی طاقت ور ترین فوج اور ایٹمی قوت ہونے کے باوجود آج ہم معاشی مسائل کی وجہ سے غیروں کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں اور اغیار کی حکمت عملی کے تابع رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں جبکہ مسلمان ممالک مل کر ایک دوسرے کو ایسی مشکلات سے باہر نکال سکتے ہیں۔ اسی لیے ہم زور دیتے ہیں کہ مسلم امہ کو غربت، بے روزگاری کے خاتمے، باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے اتحاد و یگانگت سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اِس کے ساتھ ساتھ اسلامی تعاون تنظیم کو مزید فعال اور مضبوط بنانے سمیت اِس کے فیصلوں پر اعتماد اور اتفاق کی بھی ضرورت ہے، جب مسلمان ممالک اپنے وسائل اپنے مسلمان بھائیوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے خرچ کریں گے تو کیوں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نہیں برسیں گی اور مسلمان ایک بار پھر طاقت میں نہیں آئیں گے؟ قدرتی وسائل سے مالا مال مسلمان ریاستیں بہترین حکمت عملی کے ساتھ پوری دنیا کو اپنے تابع کرسکتی ہیں اور بلاشبہ ہمارے پاس وژنری قیادت بھی موجود ہے جو اُمت مسلمہ کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ہر حد تک جانے کی سوچ اور عزم رکھتی ہے، اِس لیے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کے ذریعے ہم مسلمان پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرسکتے ہیںمگر ضروری ہے کہ تمام مسلمان ریاستیں سب سے پہلے اپنے باہمی اختلافات کو افہام و تفہیم کے ساتھ اپنے مشترکہ پلیٹ فارم پر حل کریں، اپنی ترقی اور خوشحالی میں صرف مسلمانوں اور مسلمان ریاستوں کو ہی حصہ دار بنائیں ۔ وزیراعظم نے سفرا سے خطاب میں کہا کہ یہ قرآن کریم کا پیغام ہے اور نبی کریمﷺکا اسوۂ حسنہ بھی یہی پیغام دیتا ہے کہ ہم سب کو مسلم امہ کے اتحادکے لیے مل کر کام کرنا چاہیے، میرا اس پیغام پر ایمان ہے اور اسی پر عمل پیرا ہو کر غربت اور بے روزگار کے خاتمہ کے لیے ہمیں پرعزم ہونا ہو گا، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ہو گا، تب ہی دنیا ہم پر اعتماد اور ہماری قدر کرے گی۔ہم وزیراعظم کی یہ بات ایک بار پھر دہرانا چاہتے ہیں کہ یہاں ایک ایسے بلاک کی ضرورت ہے جو نہ صرف یورپی یونین کی طرز پر مسلم ممالک کے مسائل کا ادراک کرے بلکہ اقدامات اٹھائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا راتوں رات ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے طویل انتھک محنت کی ضرورت ہے اور یہی مسلم امہ کے دنیا کے احترام کا مختصر راستہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button