Column

  خطرناک سیاسی پولرائزیشن …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

جو کچھ کل پنجاب اسمبلی میں ہوا اس کی نظیر دنیا کی کسی اسمبلی میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ تحریک انصاف کے منحرف ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری جو مبینہ طور پر ایاز صادق کے ذریعے اپوزیشن تک پہنچے۔ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر اجلاس کی صدارت شروع کی تو اراکین اسمبلی نے ان کی جانب لوٹے پھینکے۔اس پر دوست مزاری نے پولیس کو ایوان کے اندر بلا لیا۔پولیس کے ملازمین نے چند ایم پی ایز کے ساتھ دست درازی اور بدتمیزی کی جس کے بعد اجلاس میں ہلڑ بازی اور مارکٹائی شروع ہو گئی۔ پنجاب اسمبلی کا نظارہ پوری دنیا نے دیکھا اور جمہوریت اور پاکستان کے نظام کی بدنمائی دنیا بھر میں دیکھی گئی ۔

معاملہ وہاں سے ہی شروع ہوا جسے میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کہتا اور لکھتا چلا آرہاہوں۔اس کوشش میں اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت کی تاریخ بھی بدقسمتی سے پاکستان سے ہی جڑی ہوئی ہے اور آئین کے آرٹیکل 63اے کے باوجود منحرف اراکین کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونا ہی صوبائی اسمبلی پنجاب میں اس افسوسناک دن کا موجب بنا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب اسمبلی میں پولیس کو بلوانا اور بالخصوص آئی جی پنجاب کا خود وہاں موجود ہونا نہایت ہی افسوسناک ہے۔
پنجاب اسمبلی میں دن بھر پرتشدد واقعات کے بعد رانا مشہود کے اشارے پر ملک وحید تیلی اور سہیل شوکت بٹ نے سپیکرپنجاب اسمبلی اور امیدوار برائے وزارت اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی پر بری طرح تشدد کیا اور مبینہ طور پر بازی توڑ دیا ۔ چودھری پرویز الٰہی کے مطابق رانا مشہود اور دوسرے اراکین نے مجھ پر بدترین تشدد شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ایماء پر کروایا گیا۔
زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے اراکین اسمبلی کی جانب سے دوسرے اراکین اسمبلی پر بدترین تشدد دیکھا اور یقین کریں کہ میرا سر شرم سے جھک گیا کہ  وہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنے۔ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری سابق نگران وزیر اعظم میر بلخ کے پوتے ہیں۔میر بلخ شیر مزاری کے بھائی سردار شیر باز خان مزاری بھی ماضی کے بڑے سیاستدان تھے اور ان کے نظریات کی لوگ دل سے قدر کرتے تھے لیکن دوست محمد مزاری نے اپنے دادا اور ان کے بھائی کی سیاست کو بھی اپوزیشن کے ساتھ مل کر بدنام کیا ہے۔
جمہوریت میں عدم اعتماد لانے میں کوئی برائی نہیں اور اراکین اسمبلی اگر مناسب چاہیں تو اپنا پارلیمانی لیڈر تبدیل کر سکتے ہیں لیکن دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ حکومتی جماعت کے اراکین اسمبلی کو خرید کر پارلیمانی لیڈر کو تبدیل کیا جائے، لیکن پاکستان میں جو اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا بازار پچھلے دو ماہ سے لگا ہوا تھا اس نے آج پاکستان میں عوام اور اداروں کے درمیان نفرت کی ایک وسیع دیوار کھڑی کردی ہے جو مستقبل کا ایک بھیانک نقشہ ہے۔
آج پاکستانیوں کی اکثریت حکومتوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے دھونس کے خلاف سراپا احتجاج نظر آتی ہے اور اس تناظر میں ریاستی اداروں کی ساکھ بھی خراب ہو رہی ہے جو نہایت افسوسناک اور خطرناک رحجان ہے۔ اسمبلی کے اندر سے تین اراکین اسمبلی کو گرفتار کرنا بھی اسمبلی کی خودمختاری کے صریحاً خلاف اور غیر قانونی و غیر آئینی ہے جو عوام اور اداروں کے درمیان نفرت کی دیواریں بلند کرے گا۔میرے لیے حیرانگی کا باعث شام کے وقت دوبارہ پولیس کا پنجاب اسمبلی کے ایوان میں داخلے کے ساتھ ہی مسلم لیگ نواز کے اراکین کا تحریک انصاف کے اراکین پر بہیمانہ تشدد کر کے ایوان سے باہر نکالنا تھا۔اس کے بعد دوست مزاری نے گیلری میں کھڑے ہو کر ووٹنگ کروائی اور تحریک انصاف کے منحرف اراکین اسمبلی کے ووٹوں کے ساتھ حمزہ شہباز شریف کو یکطرفہ مقابلے کے بعد 197 ووٹوں سے وزیر اعلیٰ منتخب قرار دے دیا۔ایک جانب سپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کا تشدد کر کے بازو توڑ دیا گیا دوسری جانب گیلری میں کھڑے ہو کر حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ منتخب قرار دے دیا گیا۔پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین (جن کی تعدادقریباً دو درجن کے قریب ہے )نے بھی حمزہ شہباز کو سرعام ووٹ ڈال کر ڈیفیکشن لاز کا کھلم کھلا مذاق اڑایا۔کاش کہ منحرف اراکین اسمبلی کے بارے میں کوئی فیصلہ وقت پر ا ٓجاتا تو ہمیں اس پارلیمانی تاریخ کا یہ بدترین دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ پنجاب اسمبلی میں 165 اراکین رکھنے والی نون لیگ کو 197 ووٹ کیسے پڑ گئے؟ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین کی خریدوفروخت کی گئی اور تحریک انصاف کا مختلف آئینی در کھٹکھٹانے کے باوجود منحرفین یا بکے ہوئے اراکین کے بارے کوئی فیصلہ نہ آیا۔انتخاب کی قانونی و آئینی حیثیت بارے تو ماہرین آئین اور قانون ہی بتا سکتے ہیں لیکن میں تو سمجھتا ہوں کہ حریفوں کو پولیس اور بدمعاشی سے ایوان سے نکالنے کے بعد اس انتخاب وزیر اعلی پر شدید تحفظات سامنے آئیں گے اور تحریک انصاف اور چودھری پرویز الٰہی یقیناً اس کے خلاف عدالتوں کے در کھٹکھٹائیں گے۔
پنجاب میں اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنے کے بعد پنجاب اسمبلی کے اراکین اسمبلی کی اکثریت کے استعفے متوقع ہیں اور گورنر پنجاب عمرسرفراز چیمہ،  حمزہ شہباز سے حلف لینے کی بجائے مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے۔ادھر قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کے چودھری پرویز الٰہی کے بارے نازیبا کلمات ادا کرنے کے بعد طارق بشیر چیمہ اور چوہدری شافع کے واک آؤٹ نے بھی مرکز میں پریشانی پیدا کر دی ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود دو ووٹوں کی برتری بھی چودھری پرویز الٰہی پر تشدد کے بعد اب ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حمزہ شہباز،شہباز شریف اورراجہ پرویز اشرف کے معاملے پر  عوام شدید غم و غصے کی حالت میں ہیں اور آنے والے دنوں میں سیاسی لڑائی سڑکوں پر لڑی جاتی دکھائی دے رہی ہے جو ملکی سالمیت کے تناظر میں نہایت ہی خطرناک ہے۔پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت بری طرح ناکام ہو چکا اور اس نظام کے تحت نہ تو ملک و قوم کو لوٹنے والوں کا احتساب ہو سکتا ہے اور نہ ہی عوام کے پہاڑ جیسے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں اس وقت شدید ترین’’پولرائزیشن‘‘ کی آگ تیزی سے پھیلتی نظر آ رہی ہے۔لڑائی اب ایوانوں سے نکل کر سڑکوں اور گلیوں تک پھیلتی نظر آ رہی ہے۔ اگر اس تقسیم کو فوری انتخابات کے ذریعے ختم کرنے کی حقیقی کوشش نہ کی گئی تو اکثریت کو اقلیت میں بزور بازو تبدیل کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔سب کو سوچنا ہو گا کہ اس عوام میں موجود پولرائزیشن کی آگ سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انصاف کرنے والے اور دوسرے ادارے بھی بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button