Editorial

 وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب

پنجاب اسمبلی کے 197اراکین نے میاں حمزہ شہبازشریف کو نیا قائد ایوان منتخب کرلیا ہے، پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی پاکستان مسلم لیگ نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا اور ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی صدارت میں ہونے والے اِس انتخابی عمل اور اِس کے نتیجے کو ماننے سے انکار کیا ہے اور اب اِس انتخاب کی آئینی حیثیت پر ماہرین کی رائے لی جارہی ہے اور اسمبلی کی عمارت کے اندر تشدد کا معاملہ بھی پولیس تک پہنچ چکا ہے۔
مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہوئی لیکن تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے لیکر نئے وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کے انتخاب تک درمیان عرصے میں جو کچھ ہوا بہت کچھ حیران کن بھی تھا اور نا قابل یقیں و بیاں بھی ۔ ایک طرف وزیراعظم کی تبدیلی کے لیے کاوشیں ہورہی تھیں اور نئی نئی چیزیں سامنے آرہی تھیں تو دوسری طرف پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لیے بھی سیاسی ماحول زیادہ مختلف نہیں تھااور ساری دنیا نے سولہ اپریل کے روز پنجاب اسمبلی کے ایوان کے وہ مناظر بھی کیمرے کی آنکھوں کے ذریعے دیکھ لیے جو عام طور پر جمہوری ممالک کے ایوانوں سے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کو اراکین اسمبلی کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو جواباً سنیئر سیاست دان اور سپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویز الٰہی پر غصہ نکالاگیااور اُنہیں بھی زخمی کیاگیا اِس واقعے کے بعد انہوں نے تھانے میں کارروائی کے لیے درخواست جمع کرادی ہے۔
دن بھر پنجاب اسمبلی کی عمارت کے اندر اور خصوصاً ایوان میں جو کچھ ہوا وہ پوری قوم بلکہ دنیا بھر کے سامنے آچکا ہے، لیکن گذارش کرنے کا مقصد ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ایوان کا تقدس جس طرح پامال ہوا اِس کی نظیر نہیں ملتی۔ اینٹی رائٹس پولیس نے منتخب اراکین اسمبلی کے ساتھ وہی سلوک کیا جو عام طور پر چوک چوراہوں پر مظاہرین کی گرفتاری کے وقت کیا جاتا ہے۔ ایوان میں لوٹے اُچھالے جارہے تھے اور نعرے بازی کے بغیر تو یہ منظر ہی شاید ادھورا رہ جاتا۔ گزشتہ روز میاں حمزہ شہبازشریف کے حلف اٹھانے کے معاملے پر بھی صورت حال غیر واضح تھی کیوں کہ گورنر پنجاب اُن سے حلف نہیں لینا چاہ رہے تھے، اسی دوران خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ اُنہیں گورنر کے منصب سے ہٹادیاگیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہبازشریف کے انتخاب کے معاملے پر آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پچھلے چند ماہ میں ملکی سیاست میں جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ عام پاکستانی کے لیے قطعی قابل قبول نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی نہیں ہوسکتا۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لیے اتحادیوں کی مدد لینا پڑی، اتحادیوں نے پونے چار سال بعد جو تقاضے اور فیصلے کیے نتیجہ آج پوری قوم کے سامنے ہے۔ تحریک انصاف کی ٹکٹوں اور خصوصی نشستوں پر منتخب ہونے والوں نے جس طرح ’’کایا پلٹی‘‘ وہ بھی حیران کن ہے۔ پہلے سندھ ہائوس ایک نئی شکل میں سامنے آیا، پھر پنجاب میں منحرف اراکین کی ایک سے دوسری جگہ ’’ہجرت‘‘ کے مناظر سبھی نے دیکھے۔ فلور کراسنگ کا معاملہ کہاں تک پہنچا سبھی کے سامنے ہے۔ قائد ایوان پنجاب کے انتخاب کے لیے جو جوڑ توڑ ہوا اور سولہ اپریل کو شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں جو نتائج برآمد ہوئے، کیا یہ سب کچھ جمہوری روایات کے لیے حوصلہ افزا ہے؟ اراکین اسمبلی کا وفاداری تبدیل کرنا کس حد تک درست ہے اور کہاں تک قابل گرفت ہے اِس کی وضاحت تو عدالتیں کریں گی لیکن کیا آئندہ یہ تاریخ نہیں دھرائی جائے گی اس کا بندوبست بھی کہیں بیٹھ کر کیاجارہا ہے یا نہیں؟ ایک طرف وزیراعظم پاکستان کو تسلیم نہیںکیا جارہا تو دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر بھی ایسے ہی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں،
سیاست میں عدم برداشت اور رواداری کا اتنا قحط میثاق جمہوریت سے پہلے دیکھاگیا یا حالیہ مہینوں میں دیکھا جارہا ہے۔ کیا ہم دنیا کا کوئی انوکھا نظام جمہوریت چلارہے ہیں یا یہ وہی نظام ہے جن کے ذریعے حکمرانوں نے اپنی قوموں کی تقدیریں بدلی ہیں؟ اِس وقت اتحادی جماعتیں برسراقتدار ہیں اور اگر وہ سیاسی نظام میں نئی اور اعلیٰ روایات متعارف کراتے ہوئے وہ تمام چور دروازے بند کردیں اور ایوانوں کی دیواروں کو اتنا مضبوط کردیں کہ کوئی نقب نہ لگاسکے تو یہ موجودہ سیاسی اتحاد کے لیے قطعی مشکل یا ناممکن نہیں۔ آج ہر طرف سے ایوانوں میں ہونے والی کارروائیوں کا زیر بحث ہونا یقیناً سیاسی قیادت کے لیے غورطلب ہونا چاہیے کہ ہم اپنی عوام یعنی ووٹرز کو کس طرح مطمئن کریں گے جنہوں نے یہ سارے مناظر گزشتہ مہینوں میں دیکھے اور ماضی کے واقعات بھی اُنہیں یاد ہیں۔
جب ہم ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں تو ایوان کو اِس سے کہیں زیادہ عزت دینی چاہیے، جب پولیس اہلکار عوام کے منتخب نمائندوں کو نوچ کر گھسیٹ رہے تھے اِس وقت نہ صرف ایوان بلکہ ووٹ اور منتخب عوامی نمائندے کا بھی وقار مجروح ہوا، کاش ہماری سیاسی قیادت ایسی روایات سے بچنے کی کوشش کرتی تو مستقبل کے لیے بھی اِس سوچ کی راہ بند ہوجاتی۔ پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ سیاست دانوں کے درمیان ہوا جنہیں ہم اپنا نمائندہ کہتے ہیں۔ کیا آئندہ سیاسی پارٹیاں امیدوار کو ٹکٹ دیتے وقت یہ بھی دیکھیں گی کہ منتخب نمائندہ کتنی بلند آواز میں اور کتنی دیر تک نعرے بازی کرسکتا ہے۔ اِس کے ہاتھ سے پھینکا گیا لوٹا کتنے دور جاکر نشانے پر لگتا ہے اور کیا وہ بیک وقت دو سے تین لوگوں کو چت کرنے کی طاقت رکھتا ہے یا نہیں؟
بہرحال ہم نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف سے یہی کہنا چاہیں گے کہ سیاسی معاملات کی بہتری کے لیے تو انہیں بہت کام کرنا ہی ہوگا لیکن سب سے زیادہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے آج صوبے کے عوام بے شمار مسائل میں مبتلا ہیں۔ آپ کو مہنگائی کا جن قابو کرنا ہوگا اور اِس کے لیے میاں محمد شہبازشریف آپ کی بہترین رہنمائی کرسکتے ہیں، صاف اور شفاف بلدیاتی انتخابات کا جلد ازجلد انعقاد بھی بہت ضروری ہے اِسی طرح صوبے کے کئی امور فوری توجہ طلب ہیں لہٰذا توقع کی جاسکتی ہے کہ آپ فی الفور عامۃ الناس کی بھلائی اور ریلیف کے کاموں کے لیے اُسی طرح مصروف ہوں گے جس طرح میاں محمد شہبازشریف بطور وزیراعلیٰ مصروف عمل نظر آتے رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button