پائے رفتن نہ جائے ماندن …. محمد مبشر انوار
گذشتہ تحریر کااختتام اِس خیال پر کیاتھا کہ ’’اب الیکٹ ایبلز جو تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، وہ اڑان بھر جائیں گے‘‘دوسری طرف حقائق اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیںکہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد ان الیکٹ ایبلز پر مشتمل ہے اور ان کی اکثریت کی بہرطور اپنی پرانی جماعتوں سے وابستگی آج بھی قائم ہے کہ سیاست میں دروازے بند نہیں کئے جاتے، البتہ ایک نئی ابھرتی سیاسی جماعت کو ناکام کرنے اور سٹیٹس کو قائم رکھنے کے لیے اس نئی جماعت میں شمولیت کی جاتی ہے۔اس کا مظاہرہ پاکستانی تاریخ میں بارہا دیکھا گیا ہے اور پیپلز پارٹی بھی اس صورتحال سے گذر چکی ہے لیکن وہ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی تھی جبکہ آج کی پیپلز پارٹی ان تمام تجربات کو بھول کر پاور پالیٹکس کا حصہ بن چکی ہے۔بہر کیف اگر پی ٹی آئی من حیث الجماعت اسمبلیوں سے مستعفی ہوتی ہے تو یہ امر یقینی ہے کہ ان اراکین کی اکثریت(جو پی ٹی آئی میں شامل ہوئی تھی)کے لیے انتہائی آسان ہو جائے گا اوروہ با آسانی پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر اپنی پرانی جماعتوں میں لوٹ جائیں گے کہ اقتدار پرست پنچھیوں کی اڑان کا وقت ہوا چاہتا ہے۔‘‘بہرکیف اب صورتحال غیر متوقع طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور اپنی رائے سے رجوع کرنے میں عار محسوس نہیں کرتاکہ موجودہ صورتحال میں فوری طور پر ان الیکٹ ایبلز کی واپسی کا راستہ رُکتا ہوا نظر آتا ہے۔اس پر بحث بعد میں کرتا ہوں لیکن پی ڈی ایم کی موجودہ صورتحال بھی ایسی ہی نوعیت کا شکار ہے کہ حکومت میں آتے ہی اتحادی جماعتوں کا اعتماد بلکہ ہوس کس قدر بھیانک طریقے سے سامنے آیا ہے۔
شہباز شریف عرصہ دراز سے بڑے بھائی کی رضامندی سے وزارت اعظمیٰ کے خواب دیکھتے آئے ہیں کہ کسی طرح نواز شریف کو رام کر کے اس اہم ترین منصب تک پہنچ سکیں،جو وہ پہنچ تو گئے ہیں لیکن ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ اس سے نکلنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔حکومت سازی کے پہلے مرحلے میں ہی ایک طرف ایم کیو ایم ناراض ہو چکی ہے تودوسری طرف پیپلز پارٹی کے ایسے مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کے لیے حکومت سازی مشکل ہوتی نظر آرہی ہے۔دوسری طرف تحریک انصاف نے عدم اعتماد میں ناکامی کے فوری بعد ،155نشستیں ہونے کے باوجود،فقط حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کے خاطر غیر متوقع طور پر مستعفی ہونے کے اعلان کر دیاہے،یوں اسمبلی کے اندر صورتحال انتہائی دلچسپ ہو چکی ہے کہ پارلیمانی نظام میں اپوزیشن کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی مد نظر رہے کہ تحریک انصاف کے منحرف اراکین کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں، آیا وہ بھی مستعفی ہوتے ہیں یاوہ اپوزیشن کاکردار ادا کریں گے،بہرطور جی ڈی اے نے تاحال اور مسلم لیگ قاف(تین ارکان) ابھی مستعفی نہیں ہوئے اور ممکنہ طور پر قومی اسمبلی میں یہی اراکین اپوزیشن کا کردار نبھاتے نظر آئیں گے۔ مسلم لیگ قاف یقینی طور پر پنجاب اسمبلی کے معرکے تک مستعفی ہونے سے گریز کرے گی لیکن غالب امکان یہی ہے کہ آنے والے وقت میں مسلم لیگ قاف کے اراکین اسمبلی بھی مستعفی ہوجائیں گے ،اس صورت میں اگر جی ڈی اے اسمبلی میں موجود رہتی ہے،جو بظاہر جی ڈی اے کی مجبوری بھی ہے کہ وہ زرداری صاحب کے خلاف کھڑے ہیں بصورت دیگر ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے،اظہر من الشمس ہے۔ایم کیو ایم اعلان کرچکی ہے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گی لیکن اس کی حمایت حکومت کو حاصل رہے گی لیکن اس کے متعلق کامل یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا،آنے والے وقت میں ایم کیو ایم کسی بھی طرف جا سکتی ہے۔ بالخصوص موجودہ صورتحال میں کہ جب سروسز چیفس عمران خان کو کھانے کی دعوت دے رہے ہیں،جس کی نظیر بہرکیف ماضی میں نہیں ملتی اور دوسری طرف اگر نظرثانی کی پٹیشن میں فیصلہ برعکس آ جاتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟گو کہ یہ سب قیاس آرائیاںہی ہیں لیکن پاکستان کے نظام میں کب،کیا ہو جائے،کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا البتہ امکانات پر رائے دی جا سکتی ہے۔