Editorial

مہنگائی کے خاتمے کیلئے حکومتی اقدامات

 وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ قومی مفادات کے تمام امور میں مشاورت سے آگے بڑھیں گے۔ کوشش ہوگی حلقوں میں عوام کے مسائل حل کئے جائیں، ہم سب مل کر چیلنجز سے نمٹیں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ مفاد عامہ کے لیے کیا ہے۔ عوام کی فلاح کے لیے تمام اقدامات اٹھائیں گے۔ پہلے سے مسائل کا شکار عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ ہماری تمام تر توانائیاں پاکستان کی تعمیر پر خرچ ہوں گی۔ وزیراعظم نے رمضان المبارک کے دوران بازار میں دستیاب آٹے کی قیمت کے حوالے سے کہا کہ ہر سال رمضان پیکیج میں آٹا سستا ملتا تھا اس مرتبہ کسی کو پروا نہیں۔ گزشتہ حکومت نے رمضان میں غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرکے یہ بوجھ خود برداشت کرے گی اور عوام پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ یہی نہیں وزیراعظم شہباز شریف نے رواں سال چینی کی برآمد پر بھی پابندی کا اعلان کیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے بیک وقت عوام کو دو سے تین خوشخبریاں دی ہیں، ایک تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کی اور دوسری رمضان المبارک میں سستا آٹا فراہم کرنے کی تیسری خوشخبری ہم رواں سال چینی کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کو سمجھتے ہیں جس کے یقیناً عامۃ الناس اور معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے پر بات کی جائے تو یقیناً قیمتوں میں اضافہ نہ کرکے عوام کا سارا بوجھ حکومت نے خود اُٹھالیا ہے،لیکن ایسا کتنی دیر کیا جاتا رہے گا کیوں کہ بین الاقوامی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کہیں زیادہ اوپر جارہی ہیں خصوصاً روس اور یوکرین جنگ کے بعد تو صورت حال اور زیادہ خراب ہوگئی ہے، عالمی مالیاتی اداروں کا دبائو اپنی جگہ الگ موجود ہے کہ پٹرولیم پر سبسڈی دینے کی بجائے اِس کا مکمل بوجھ عام صارف پر منتقل کیا جائے ۔ یہ تمام صورتحال جانتے بوجھتے ہوئے بھی وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے نہ صرف قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ وزارت اعظمیٰ سنبھالنے کے بعد کئی بار عندیہ دیا ہے کہ وہ مالیاتی اداروں سے مذاکرات کریں گے تاکہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔ ہم قطعی نہیں کہتے کہ حکومتیں اپنے عوام کو سبسڈی نہیں دیتیں لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ عام پاکستانی کی معاشی حالت مہنگائ اور کم آمدن کی وجہ سے اتنی پتلی ہوئی ہے کہ وہ سبسڈی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ ہم پہلے بھی یہی گذارش کرتے آئے ہیں کہ عام پاکستانی کے معاشی حالات بہتر ہوں تو ہم کبھی سبسڈی کے نام پر ریلیف دینے کی بات نہ کریں یا صرف ان شہریوں کو ہی ریلیف دیاجائے جو واقعی ریلیف کے مستحق ہیں۔ وطن عزیز معاشی بحرانوں سے دوچار ہے، پچھلی حکومت کو کرونا وائرس کی تباہ کاریوں نے نہیں سنبھلنے دیا پھر نئی حکومت اور نئی ٹیم کے پاس ریاستی امور چلانے کا تجربہ بھی نہیں تھا اِس لیے کرونا وائرس کے پھیلائو کے دوران معاشی میدان میں جو تباہی مچی وہ واقعی ہر پاکستانی کے لیے حیران کن اور تکلیف دہ ہے۔ اگرچہ ایسا صرف ہم پاکستانیوں کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ عالمی سطح پر گرانی کا طوفان بپا ہوا اور بڑی بڑی معیشتیں اِس دوران لرز گئیں جبکہ کمزور معیشتیں یا تو زمین بوس ہوگئیں یا پھر اِس کے قریب قریب پہنچ گئیں، ہماری جو معاشی
صورت حال ہے ہم دعوے سے نہیں کہہ سکتے کہ ہم کرونا وائرس کی تباہ کاریوں اور عالمی بحران کی وجہ سے زمین بوس ہوئے یا ہوتے ہوتے رہ گئے۔ بہرحال آفٹر شاکس تو ابھی بھی جاری ہیں۔ اگرچہ وائرس کی تباہ کاریاں اب قابو میں ہیں لیکن جو معاشی تباہ کاریاں ہوچکی ہیں اُن کی بھرپائی ابھی تک نہیں ہوسکی۔ ابھی تک وہ تمام لوگ روزگار پر واپس نہیں آسکے جو اُس دوران بے روزگار ہوئے تھے، صنعتیں ابھی تک وہ نقصانات پورے نہیں کرسکیں جو اُس دوران ہوئے تھے، یہی نہیں اُس دوران مہنگائی کا جو مصنوعی اور حقیقی طوفان بپا ہوا ابھی تک وہ اپنی شدت کے ساتھ تباہیاں پھیلارہا ہے، جن اشیا کی قیمتیں کرونا وائرس کے اِن دوسالوں میں بڑھیں آج جب وبا خاتمے کے قریب ہے، پھر بھی وہی قیمتیں برقرار ہیں اور بعض اشیا خورونوش کی قیمتیں تو ابھی بھی بتدریج بڑھ رہی ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں درآمدہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا جواز تو تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن مقامی مصنوعات کی قیمتوں بالخصوص اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہولناک اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے، درحقیقت جب گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی عروج پر تھی اِس دوران ریاستی مشینری ایک طرح سے بے بس نظر آئی اور اِس حقیقت کا اعتراف خود عمران خان بطور وزیراعظم بھی کرتے رہے، عوام کی بے چینی کی صورت حال یہ تھی کہ منتخب نمائندے اپنے حلقوں میں جانے سے گریزاں تھے کیوں کہ اِس مہنگائی میں وہ اپنے ووٹرز کا سامنا نہیں کرسکتے تھے۔ اِس دوران بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بھی بتدریج مہنگائی بڑھتی رہی، عوام سمجھ نہیں پارہے تھے کہ چہار اطراف سے ہونے والی مہنگائی کا اصل ذمہ دار کون ہے، کیا کرونا وائرس کی وجہ سے طلب و رسد مہنگائی کی وجہ بن رہی ہے، یا مقامی تاجر مصنوعی مہنگائی کے ذریعے عوام کو پریشان کررہے ہیں۔ جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتیں تو جہاں ٹرانسپورٹرز کرائے بڑھاتے، وہیں تمام اشیائے خورونوش سمیت ہر چیز اِسی اضافے کے جواز پر مہنگی کردی جاتی اور ٹھیک ایک ماہ بعد اِسی اضافے کی بنیاد پر بجلی مہنگی کرکے اِسے فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام دیدیا جاتا، جب بجلی مہنگی ہوتی تو مقامی مصنوعات کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھ جاتیں۔ یوں یہ ایک ایسا چکر گھومتا رہا ہے جس میں صرف اور صرف عام پاکستانی پِس رہے تھے۔ جہاں تک چینی کی درآمد پر پابندی کا فیصلہ ہے تو ہم اِس فیصلے کو انتہائی خوش آئند اورخوشخبری سے تعبیر اِس لیے کررہے ہیں کہ چینی کی حالیہ قیمت پہلے ہی عام صارف کے لیے پریشان کن ہے۔ ہر سال کرشنگ سیزن پر شوگر ملز مالکان چینی برآمد کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں، اجازت ملتے ہی ایک طرف بیرون ملک چینی بھیجی جاتی تو دوسری طرف مقامی زخیرہ اندوز سرگرم ہوکر چینی ضرورت سے زیادہ سٹاک کرلیتے اِس دوران چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے پہلے تو زخیرہ کی گئی چینی منہ مانگے داموں بیچتی جاتی اور پھر حکومت کو مجبوراً چینی مہنگے داموں برآمد کرنا پڑتی۔ یہ معاملہ صرف چینی کا ہی نہیں بلکہ گندم اور دیگر اجناس سمیت کھادوں کا بھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرکاری محکمے آنکھیں کھول کر رکھیں اور پہلے پہلے اپنی ضرورت کے مطابق اجناس ذخیرہ کریں اِس کے بعد برآمد کرنے کی اجازت دیں لیکن صدافسوس اِس معاملے میں نااہلی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرے دیکھنے کو ملتے رہے جبھی سابقہ حکومت کے دور میں ملک میںاِن اشیا کے مصنوعی بحران پیدا ہوئے اور اب بھی اِن کی قیمتیں عام صارف کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کے تجربے کا فائدہ اب صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کو پہنچے گا اور اب کوئی بحران نہیں آئے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button