Column

فوج کو سیاست میں ملوث نہ کریں …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
پاکستان اس وقت بدترین سیاسی صورتحال اور بے یقینی کا شکار ہے۔عمران خان کو حکومت سے نکالنے میں بیرونی ایجنڈا ہر گزرتے دن کے ساتھ ننگا ہوتا جا رہا ہے اور اپوزیشن کی جماعتیں اقتدار حاصل کر کے بھی اقتدار سے بہت دور جا چکی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اور لیڈر شپ اپنے دور اقتدار میں کی گئی تمام غلطیوں کے باوجود اس وقت عوامی پذیرائی کی معراج پر ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس ماضی میں اس ملک کو مشکل ترین دور میں دھکیلنے کی ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں جیسے بھی اقتدار میں آئے لیکن ان کی کرپشن نے ملک پاکستان کی چولیں تک ہلادیں اور اب عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اتوار کو جو ردعمل عمران خان کی کال نے شدید احتجاج کی صورت میں دیا ہے وہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے کا بہت واضح نقشہ دکھا رہا ہے۔ متعدد مرتبہ لکھ چکا کہ اپوزیشن کے رہنماؤں اور جماعتوں پر جو داغ بیرونی فنڈنگ اور مدد کا لگ چکا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت بھی مٹا نہیں سکتی اور ہر آنے والے دن میں اس میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بہرحال تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کی حکومت ختم کرنے میں اپوزیشن صرف174 ووٹ لے سکی جو اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف آج بھی ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے اور عمران خان اپنے سیاسی کیریئر کے مقبول ترین دور میں کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کے پارلیمانی نظام کی شدید ترین بد صورتی عوام کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ متحدہ اپوزیشن کی بنائی ہوئی مرکزی اور کوئی بھی صوبائی حکومت زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکے گی اور پاکستان کے موجودہ بدترین سیاسی صورتحال کا واحد حل فوری نئے انتخابات ہی ہیں۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال نہایت پیچیدہ ہو چکی ہے اور تحریک انصاف کی قیادت جس خط کو اپنی حکومت کے خاتمے کی وجہ بتا رہی ہے وہ وجہ عوام کے دلوں میں گھر کر چکی ہے اور چشم فلک نے پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں تاریخ کاسب سے بڑا احتجاج دیکھا۔ اس احتجاج کی نمایاں بات بیرونی فنڈنگ اور مدد کے ساتھ ملکی سیاستدانوں کی پاکستانی حکومت تبدیل کرنے والوں کے خلاف عوام کی شدید نفرت تھی۔ میری دانست میں یہ بیانیہ اب عوام کے دلوں سے کھرچنا نا ممکنات میں شامل ہو چکاہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام کی بدصورتی اور مفاداتی سیاست کا اس وقت شدید بھیانک چہرہ پاکستان کے عوام کے سامنے ہے اور ان کو اس وقت پاکستان کے اتحاد اور خودمختاری کا راستہ مل چکا ہے۔ متحدہ اپوزیشن اور اب کی حکومت کی بد قسمتی ہے کہ ان کی بیرونی مدد اور فنڈنگ کے ساتھ جڑے ہونے کی کارروائیاں عوام میں عام ہو چکی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عوام کا شدید ردعمل آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ شریف خاندان اور زرداری وغیرہ پر ملکی عدالتوں میں اربوں کی کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں اور اخلاقیات و عوامی ردعمل کا ادراک کیے بغیر متحدہ اپوزیشن نے شہباز شریف کو عین اس دن وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے نامزد کیا جس دن ان کے اور ان کے صاحبزادے ( امیدوار وزیر اعلیٰ پنجاب)کے خلاف
لاہور کی عدالت میں 16 ارب کی منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد ہونے جا رہی تھی۔
عوام کی اکثریت یہ سوال کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ کیا پاک فوج کے سپہ سالار اس شخص کو سیلوٹ کریں گے جو نہ صرف شدید کرپشن کے کیسز میں عدالتوں اور اداروں کو مطلوب ہے بلکہ جس کا خاندان جلسوں میں پاک فوج کے جرنیلوں کو نام لے لے کر برا بھلا کہتے رہے ہیں۔یہ صورتحال یقیناً پاک فوج (جو بے شک دنیا کی بہادر اور دلیر ترین فوج ہے) کے لیے بھی تشویشناک ہے اور مجھے یقین ہے کہ موجودہ ملکی بدترین صورتحال پاک آرمی کے لیے بھی اطمینان بخش ہرگز نہیں ہے۔
ہفتہ کی شب تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ سے پہلے کے آخری دو گھنٹوں کے بارے جس طرح بی بی سی اردو نے ایک غلط سٹوری شائع کی وہ نہایت خطرناک و افسوسناک ہے۔ پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں جو ففتھ جنریشن وار چلائی جا رہی تھی اس کا مقصد پاک فوج اور عوام کو آمنے سامنے کھڑا کرنا تھا۔ میں بطور اینکر پرسن اور کالم نویس اس ففتھ جنریشن وار کے خلاف پروگراموں اور تحریروں میں سینہ سپر رہا ہوں لیکن موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے جو نہایت خطرناک رحجان ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران اور ان کے وزراء کے پاک آرمی اور اس کے سپہ سالاروں کے خلاف کسی بھی منفی پراپیگنڈہ اور بیانات سے سختی سے روکنے کے باوجود چند شرپسند عناصر پاک فوج کو اس تمام سیاسی تصادم میں کھینچ رہے ہیں جو ایک خطرناک فعل ہے۔پاک فوج نے ماضی میں بھارت سے دو بڑی جنگوں کے علاوہ سیاچین، کارگل اور مختلف محاذوں پر پاکستان کے عوام اور ریاست کا شاندار دفاع کیا اور اس وقت پاکستان دنیا کی صف اول کی ایٹمی طاقت کی حامل فوج ہے۔پچھلے چالیس سالوں سے عالمی دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی شہادتیں اور جنگ کی قربانیاں انمٹ ہیں۔افغانستان میں جو کچھ ہوا اور جس دلیری سے پاکستان فوج نے وہاں اپنا کردار ادا کیا وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ بلوچستان اور فاٹا میں جس طرح پاک فوج نے عالمی سازشوں کو ناکام بنایا وہ پاک فوج کی قربانیوں اور شہادتوں کے باعث ہی ممکن ہوا۔ پاکستان میں جب بھی کوئی قدرتی آفت یا غیر معمولی صورتحال ہوتی ہے تو اس میں پاک فوج ہی عوام کی مدد کو پہنچتی ہے۔ چند ماہ قبل مری میں ہونے والے سانحہ میں جو کام پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے کیا وہ پاکستانی عوام کے سر فخر سے بلند کر گیا۔پاکستان اپنے اہم جغرافیائی حدود کی وجہ سے قریباً چاروں جانب سے حالت جنگ میں ہے اور اس نازک صورتحال میں پاک فوج کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش یا کردار کشی پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے کے مترادف ہو گی۔متحدہ اپوزیشن اس وقت عوام کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ مقتدر حلقے ان کے ساتھ ہیں۔یہ کوشش پاک فوج کو نہ صرف سیاست میں گھسیٹنے کی بدترین کوشش ہے بلکہ پاک فوج کے وقار کے بھی منافی ہے۔میں ہمیشہ لکھتا اور کہتا آیا ہوں کہ پاک فوج آئین پاکستان کے تحت سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی ۔ پاک فوج ہمارے ماتھے کا جھومر ہے اور اس کو بدنام کرنے کی کسی بھی کوشش کی کبھی بھی نہ تو حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔
موجودہ ملکی سیاسی صورتحال نہایت ہی خطرناک ہوچکی ہے کہ عوام کی اکثریت آج تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں آنے والی حکومت کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور ماضی میں ملک سے کھلواڑ کرنے والوں کو مسند اقتدار پر بیٹھنے کو غیر ملکی اور ملکی سازش کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کوبالکل 1993 کے ملکی سیاسی صورتحال سے مشابہ قرار دیتا ہوں لیکن آج عدم اعتماد کے بعد حکومت سنبھالنے والے سیاسی رہنمائوں پر بیرونی روابط اور امداد کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں۔1993 میں بھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے تینوں فریقوں(صدر غلام اسحاق،بینظیر بھٹو اور نواز شریف)کو بٹھا کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کی تھی۔آج معاملات نہایت گھمبیر ہیں اورپاک فوج کو اس سے جوڑنا نہایت خطرناک ہو سکتا ہے۔
میری عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو ایسے کسی بھی بیانیے سے دور رہنے کی سختی سے ہدایات جاری کریں کہ جس سے پاک فوج پر کسی بھی قسم کا حرف آئے۔میری مقتدر حلقوں بالخصوص پاک فوج سے بھی گزارش ہے کہ موجودہ صورتحال نہایت ہی سنگین ہے اور تحریک انصاف اور متحدہ اپوزیشن ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک انارکی کی جانب تیزی سے بڑھتا نظر آ رہا ہے اس لیے وہ پہلے تو اپوزیشن کے اس دعوے کو کہ( متحدہ اپوزیشن کے حکومت میں آنے میں مقتدر حلقوں کی مدد شامل ہے)کو آئی ایس پی آر کے ذریعے فوری زائل کریں اور دوسرا جو تاثر بی بی سی اور دوسرے شرپسند نشریاتی ادارے تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں پاک فوج کے کردار کے بارے میں پھیلا رہے ہیں وہ سختی سے ختم کیا جائے۔بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ بیرونی طاقتوں کے ایماء پر پاکستان میں حکومت تبدیل ہونے کے بیانیے میں پاک فوج کو ملوث کرنا پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔یقین جانیے کہ 1971میں جو جھوٹے الزامات پاک فوج پر بھارت اور مغربی میڈیا نے لگائے تھے ان کو غلط ثابت کرتے کرتے آج پچاس سال ہو چکے ہیں۔آج ضرورت ہے کہ آرمی چیف 1993کی طرح سب فریقوں کو بٹھا کر نئے انتخابات کو انعقاد ممکن بنائیں۔ یقین کریں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں اور دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button