Column

سادگی اپنی، اوروں کی عیاری بھی دیکھ …. قادر خان افغان

قادر خان افغان

پاکستان کو ایسا ہمسایہ ملا ہے کہ اس کی دوستی پر اعتبار نہیں اور دشمنی میں مزہ نہیں۔ اس میں نہ خلوص ہے کہ ایک شریف کا دل موہ لے اور نہ مردانگی کہ ایک ’’بہادر‘‘ سے بے ساختہ داد تحسین لے ۔ اس ہمسائے کے منہ تو رام رام ہے لیکن بغل میں چھری ہے ، آزادی سے پہلے اس چھری کا بے محابا استعمال ہوتا رہا تھا ، آزادی کے بعد یہ چھری ، ایسی بے دریغی سے چلتی رہی کہ اس کا بہایا دریائے خون دونوں آزاد ہمسائوں میں دائمی حد فاصل بن گیا ۔ برصغیر میں آزادی کی پوپھٹی تو غلامی کی شب تار سے دو آزاد ممالک نمودار ہوئے ۔ برصغیر کا وہ حصہ جو راجوں اور مہاراجوں کی ریاستوں پر مشتمل تھا ، ان میں شامل نہ تھا ، یہ چھوٹی بڑی ریاستیں جن کی تعداد چھ سو کے لگ بھگ تھی ، برطانوی حاکمیت کے تحت تھیں۔ جب ان کی حاکمیت ختم ہوگئی تو سوال پیدا ہوا کہ ان کا کیا ہو ، 25جولائی کو انہیں برصغیر کے انگریز وائسراے لارڈ مائونٹ بیٹن ، یہ مشورہ دے چکے تھے کہ ان کا مفاد اس میں ہے کہ وہ دونوں سے ایک ملک سے باقاعدہ الحاق کرلیں اور ایسا کرنے میں جغرافیائی ، معاشی اور معاشرتی ملحوظات پیش نظر رکھیں ۔

بھارت کے پاس انگریز وائسرے تھا اور انگریز کا ریاستوں میں بہت اثر دخل تھا ، اس وائسراے کی مدد سے بیشتر ریاستوں کو الحاق پر مجبور کرلیا گیا ، البتہ تین ریاستیں ایسی رہ گئیں جن کا الحاق سنگین نزاع کا باعث بن گیا یہ ریاستیں تھیں ، جوناگڑھ ، حیدرآباد اور کشمیر ۔ بھارت کا رویہ معقول ہوتا تو کسی قسم کا تنازع برپا نہ ہوتا ، ہر چند بھارت سے صفائی معاملہ کی توقع عبث تھی ، پاکستان اس خوش فہمی میں رہا کہ معاملہ صلح و صفائی سے طے ہوجائے گا ۔ تاآنکہ بھارت اپنا سارا لائو لشکر لےکر اور بغیر اعلان جنگ کئے اس سرحدوں میں گھس آیا، بہر کیف جونا گڑھ کے مسلمان نواب نے یہ صورت قبول نہ کی کہ بھارت سے پہلے دن سے ہی الحاق کرلیا جائے، اس نے 15اگست کو پاکستان سے استقرار کا معاہدہ کیا اور ایک مہینے بعد یعنی 15 ستمبر کو پاکستان سے الحاق کرلیا۔ بھارت کی نیت صاف ہوتی تو شاید یہ صورت پیدا نہ ہوتی۔ 23ستمبر کو گورنر جنرل نے پاکستان کے گورنر جنرل کے نام احتجاجی تار میںجونا گڑھ کو بھارت کا علاقہ قرار دیا ، اس میں تجویز دہرائی گئی کہ بھارت ، ریاست کی حکومت سے مل کر استصواب کرانے کے لیے تیار ہے ، گویا بھارت کا موقف یہ تھا کہ جونا گڑھ اس سے الحاق کرے اور بھارت اپنی نگرانی میں استصوب کراکے دنیا کو دھوکا دینے کے لیے اس پرعوامی پسند کی مہر لگوالے ۔
تجویز دینے کے باوجود بھارت نے انتظار نہیں کیا بلکہ جونا گڑھ پر حملہ کرکے ریاست پر کشمیر کی طرح غاصبانہ قبضہ کرلیا ۔ یہ سوال واضح طور پر سامنے آگیا تھا کہ جونا گڑھ ، حیدر آباد اور کشمیر کی ریاستوں کے الحاق کا فیصلہ عوام کو کرنا چاہیے یا حکمرانوں کو ۔ یہ مسئلہ آپس میں طے کیا جاسکتا تھا ، بھارت نے نہ محض اس سے گریز کیا بلکہ تینوں ریاستوں میں اس نے فوج کے زور پر ہی فیصلہ کیا ۔بھارت تو ہر حال میں ریاستوں کا الحاق اپنے ساتھ چاہتا تھا ، جہاں ایسا نہیں ہوا ، وہاں اس نے زبردستی الحاق کرالیا ، اسے عوا م کی منشا کا کوئی لحاظ نہ تھا ، عوام کو تو وہ دنیا کو فریب دینے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ اس کا اصرار تھا کہ ریاستیں پہلے سے ہی اس سے الحاق کرلیں اور پھر وہ اپنی مرضی سے استصواب کرائے، بھارت سے الحاق کے بعد بھارت ہی کی نگرانی میں کرایا ہوا استصواب بھارت کے خلاف کیسے جاسکتا تھا۔ وہ ایسا ہی اصول پرست ہوتا تو جونا گڑھ کے معاملہ میں پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے مفاہمت کرتا اور فوج کے ساتھ یلغار نہ کردیتا اور پھر یہ محض اتفاق نہیں کہ اس نے جونا گڑھ میں فوج استعمال کی ، حیدرآباد میں اور کشمیر میں بھی اس نے یہی کچھ کیا اور فوجی کارروائی کرکے دونوں ریاستوں پر قبضہ جمالیا ۔بھارت نے تینوں جگہ مکاری سے کام لیا اور پاکستان، اپنی عادت سے مجبور امن پسندی کا مظاہرہ کرتا رہا  اس لیے برصغیر میں جنگ کے شعلے بھڑکانے سے احتراز کیا اور دفاع کو چنا، کشمیر پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اور ہے ۔ کسی قسم کے لیے جان کی بازی لگا دینے کے لیے اس سے بڑی وجہ جواز نہیں ہوسکتی تھی، کوئی اور قوم ہوتی تو کشمیر جیسے تنازع کے لیے برسوں پہلے ہر قسم کی طرح ڈال چکی ہوتی ۔
پاکستان نے امن کا راستہ اختیار کرکے دوہرا دھوکا کھایا ، ایک طرف اس نے یہ فرض کرلیا کہ آزاد بھارت تہذیب ، شائستگی اور امن کی راہ اختیار کرے گا اور دوسری طرف یہ اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ حق و انصاف اٹھے گا اور کشمیر کے منصفانہ حل میں مخلصانہ حل میں مدد دے گا ، دونوں مفروضے غلط تھے ، بھارت اور اقوام متحدہ دونوں نے پاکستان کو دھوکے میں رکھا اور بڑی دیدہ دلیری سے ، پاکستان دھوکہ کھاتا رہا ، بھارت نے ستمبر65میں حملہ کردیا ، اس کھلی جارحیت کی مذمت نہ تو اقوام متحدہ نے کی اور نہ اس کی رکن بڑی طاقتوں نے ۔ الٹا ان کی کوشش یہ ہوگئی کہ محاذ جنگ پر بھارت نے جو شکست کھائی ہے اسے سیاسی محاذ پر فتح میں تبدیل کیا جائے۔71میں بھارت نے وطن فروشوں کے ساتھ مل کر پاکستان کا ایک بازو الگ کردیا ۔ پاکستان کو دھوکا دیا جاتا رہا اور یہ دھوکا آج بھی دیا جارہا ہے۔ پاکستان کی غیور عوام نے مودی سرکار اور آر ایس ایس کی منظم و مذموم سازشوں کو اپنی کھلی آنکھ سے دیکھ لیا ہے کہ اب نہ تو کشمیر کے نام پر کوئی بھی انہیں دھوکا دے سکتا ہے اور کسی بھی ملک کے نام پر ۔ اب نہ بھارت کی نیت پر کسی بھی پاکستانی کو اعتماد ہے اور نہ اقوام متحدہ کی ضمانت پر یقین کرسکتا ہے ، کشمیر اور پاکستان دونوں نے دیکھ لیا ہے کہ اس تنازع کا حل ان کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ غنیمت یہ ہے کہ ریاست نے اپنی عسکری قوت میں اضافہ اور اتنی تیاری کرلی ہے کہ اس وقت انہیں کسی سپر پاور کے جنگی بیڑے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا ، جس وقت بھارت پوشیدہ مکاری سے کھلی جارحیت پر اترنے کی کوشش بھی کرے گا تو اسے دنداں شکن جواب دیا جاسکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button