Column

روزہ کی اصل روح … امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد
 
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی خصوصیات اور فضائل و برکات کی وجہ سے امتیازی شان رکھتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، سرکش شیاطین کو قیدوبند میں ڈال دیا جاتاہے‘‘۔اس ماہ مبارک کا ابتدائی عشرہ رحمت، درمیانی عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ دوزخ سے آزادی کا ہے، رمضان میں حساب، برکتوں اور رحمتوں والی ایک رات (شب قدر) آتی ہے جوقرآن کریم کے ارشاد کے مطابق ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس بابرکت مہینہ میں اہل ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے، قرآن پاک بھی اسی مبارک مہینہ میں نازل کیا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن‘‘ (بقرہ۔ ۵۸۱)۔ جس کی ہدایت کی بدولت انسانی زندگی میں ایمان و یقین کی روشنی آئی، امن وامان کی فضا پیدا ہوئی، اس مہینہ میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیا گیا جو تر اویح کی شکل میں ملت اسلامیہ میں رائج ہے۔دن کے روزوں کے ساتھ رات کی تراویح کی برکات مل جانے سے اس مہینہ کی نورانیت اور تاثیر میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کو اپنے ادراک شعور اور احساس کے مطابق ہر بندہ محسوس کرتا ہے جو ان باتوں سے کچھ بھی تعلق اور مناسبت رکھتا ہے اور جس کے دل میں ایمان و یقین کی ہلکی سی بھی روشنی موجود ہوتی ہے۔ 
حدیث شریف میں آیا ہے کہ رمضان کے دنوں میں روزے فرض کیے گئے ہیں، اور راتوں میں تراویح کوسنت قرار دیا گیا ہے۔ نیز اس ماہ میں اس کی طرف سے ایک منادی اعلان کرتا رہتا ہے، اے خیر کے طلب کرنے والو! بھلائی کے کام کی طرف آ گے بڑھو اور اے برائی کے چاہنے والو! اپنی برائیوں سے باز آجائو۔رسول اکرم ﷺ نے روزہ کی فضیلت اور اس کی قدر و اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’آدمی کے ہراچھے عمل کا ثواب روزہ کے نتیجہ میں سات سوگنا تک بڑھادیا جاتا ہے‘‘۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ عام قاعدہ اور اصول سے بالاتر ہے، دراصل بندہ کی طرف سے میرے لیے ایک تحفہ ہے، میں اعزاز و 
اکرام کے ساتھ اس کا اجر وثواب خود عطا کروں گا، میرا بندہ میری رضا کی خاطر اپنی خواہش نفس ترک کر دیتا ہے اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، لہٰذا میں خود اپنی مرضی کے مطابق اس کی نفس کشی اور پرخلوص قربانی کا صلہ دوں گا۔ روزہ دار کے لیے دو طرح کی مسرتیں ہیں، ایک افطار کے وقت کی مسرت، دوسری جب وہ اپنے مالک و مولیٰ کے حضور میں باریابی کا شرف حاصل کرے گا، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے، یعنی انسانوں کے لیے مشک کی خوشبو جس قدراہم ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی زیادہ پیاری ہے، روزہ دنیامیں نفس وشیطان کے شدید حملوں سے بچائوکے لیے اور آخرت میں جہنم کی ہولناکیوں سے تحفظ کے لیے ایک ڈھال ہے، ’’جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو اسے چاہیے کہ بیہودہ گوئی اور فحش باتوں سے دور رہے، شور شغب نہ کرے، اگر کوئی دوسرا آدمی اس سے گالی گلوچ یا جھگڑے کا برتائوکرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔(بخاری ومسلم)
رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کا تیسرا فرض ہے، جو اس کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں رہتا اور جو اس اہم فرض کو ادا نہ کرے وہ سخت گنہگار اور فاسق ہے۔اس کے باوجود اگر بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو یا مرض کے بڑھ 
جانے کا شدید خطرہ ہوتو روزہ نہ رکھنا جائز ہے، بعد میں اس کی قضا لازم ہے ۔ اگر عورت حمل سے ہے اور روزہ رکھنے میں بچے کو یا اپنی جان کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو روزہ نہ رکھے، بعد میں قضا کرے۔اسی طرح جو عورت اپنے یاکسی غیر کے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور روزے سے دودھ کم ہو جاتا ہے اور بچے کو تکلیف پہنچتی ہے تو روزہ نہ رکھے۔بعد میں قضا کرے۔ شرعی مسافر جو کم از کم۸۴میل (قریباً سواستر کلومیٹر) سفرکی نیت کر کے گھر سے نکلا ہو، اس کے لیے اجازت ہے کہ روزہ نہ ر کھے لیکن اگر سفر میں کوئی تکلیف یا وقت نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ روزہ رکھ لے۔ اور اگر خود کو یا ساتھیوں کو تکلیف ہوتو پھر روزہ نہ رکھنا افضل ہے۔افسوس کہ اتنی رحمتوں اور برکتوں والے مہینے میں بھی ہم اللہ رب العزت کی ان نعمتوں کو سمیٹنے کے بجائے ایسی ایسی خرافات میں پڑجاتے ہیں کہ محرومی ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔ایک طرف ہمارے کاروباری حضرات، تاجر اور سرمایہ دار اس بابرکت مہینے میں بھی ملاوٹ،منافع خوری اور کم تول سے باز نہیں آتے۔تو دوسری جانب انواع کے کھانے ہمارے دسترخوانوں کی رونق ہوتے ہیں جہاں فضول خرچی کا نظارہ بہت سے ضرورتمندوں کو تکلیف پہنچا رہا ہوتا ہے۔
اسلام نے ہمیں سادگی اور کفایت شعاری کا حکم دیا ہے،کفایت شعار شخص کبھی محتاج نہیں ہوتا،سادگی معاشرہ میں آسانیاں پیدا کر کے شہریوں کی زندگی کو آسان بناتی ہے،مگر ہم صاحب حیثیت لوگوں کی نقالی میں اپنی زندگی کو خود مشکل بنا کرمحتاجی اور قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں،جو چیز ہماری قوت خرید سے باہر ہے اگر ہم وقتی طور پر اس سے اجتناب برتیں تو زندگی آسان ہو سکتی ہے،سادگی اور کفایت شعاری کا اسلامی حکم رمضان میں بھی نافذالعمل ہے۔ ابھی پہلے عشرے کا نصف ہوا ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کی لائنیں لگی ہیں۔معلوم نہیں ہم کیوں کفایت شعاری ایسے خوبصورت پیغام کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں؟ ہم رمضان المبارک میں جانتے بوجھتے اس حکم سے سرتابی کرتے ہیں،طبیب کہتے ہیں افطاری میں یخ پانی،ٹھنڈے مشروبات،دودھ سوڈا،ڈیپ فرائی اشیاء اور زیادہ کھانا صحت کے لیے مضر ہے،جبکہ علماء کے نزدیک سحری افطاری کے دسترخوان پر غیر ضروری اشیاء سے روزے میں تقویٰ اور توکل کا عنصر ختم ہو جاتا ہے، اور روزہ نام ہی تقویٰ اور توکل کا ہے، اگر ہم پورا سال سادگی کا اہتمام کریں اور خاص طور پر ماہ رمضان میں بجائے اپنا پیٹ بھرنے کے غریب، مفلوک الحال، محروم، یتیموں ، مسکینوں،بیوائوں کے سر پر دست شفقت رکھیں اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی سعی کریں توروزے کا حقیقی مقصد حاصل ہو سکتا ہے اور ماہ مقدس کی رحمتوں برکتوں میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ روزہ پیٹ پوجا کا نام نہیں غریبوں کی خبر گیری کا نام ہے اور یہی روزہ کی اصل روح ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button