Column

مُٹھی سے سرکتی ریت …. احمد نوید

احمد نوید
پٹرول ، بجلی کی قیمتوں اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں پر اگر پی ٹی آئی کی حکومت کنٹرول سنبھالے رکھتی تو شاید اُنہیں آج وہ سُبکی برداشت نہ کرنا پڑتی ، جس سے عمران خان آج دو چار ہیں۔ ماہر معاشیات کے تجزیوں کے مطابق 1965کے بعد دنیا بھر میں مہنگائی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کے معیار زندگی کو متاثر کیا ہے ۔ پاکستان کے عوام بھی مہنگائی کی اُسی شدید ترین لہر کا شکار ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت یا عمران خان کیا کرتے ؟کہتے ہیں جتنا بڑا بحران ہو لیڈر شپ کا لوہا منوانے کا اتنا بڑا موقع ہوتا ہے۔  وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بھی ایسا ہی موقع ملا تھا۔ 2018کے الیکشن کے بعد میدان خالی تھا۔ زرداری ، نواز شریف اور فضل الرحمن کے سائیڈ لائن ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پاس کھُل کر کھیلنے کا موقع تھا۔ مگر افسوس خالی میدان کے باوجود پی ٹی آئی حکومت اپنے لیے کسی سمت یا منزل کا تعین نہ کر سکی۔ پی ٹی آئی حکومت بہت بڑے بڑے خوابوںاور دعو ٰوں کے بعد اقتدار میں آئی تھی ۔ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل جو اور جس طرح کے دعوے عوام سے کئے تھے ، وہ اُن سے قبل کسی سیاسی پارٹی یا قومی سطح کے رہنما کی جانب سے نہیں کئے گئے تھے۔ جہاں وعدے بڑے ہوں ، توقعات بھی زیادہ
ہوتی ہیں ۔پی ٹی آئی حکومت کے وعدوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ وہ عوام اور اپنے ووٹرز کی توقعات پر پورا اُترنے کی بجائے اپنے ہی وعدوں تلے دبنے لگی۔ ایک کروڑ نوکریاں کا نعرہ یا وعدہ کوئی مذاق کی بات نہیں تھی۔پتہ نہیں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر اس نعرے کو منشور کا حصہ بنانے سے قبل سوچا اور زیر بحث کیوں نہیں لایا گیا۔ پی ٹی آئی حکومت کا دوسرا بڑا وعدہ پچاس لاکھ گھروں کا تھا، جو پی ٹی آئی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، حالانکہ اتنے بڑے منصوبے کی تکمیل بھی جان جوکھوں کا کام تھی ۔ مگر اس نعرے کو بھی فروخت کیا گیا جو آج بھی اپنی تکمیل کے دسویں حصے سے بھی کوسوں دور ہے ۔
عمران خان نے ہمیشہ فضل الرحمن ،زرداری اور نواز شریف کی کرپشن کے خلاف اپنی سیاست
کا محاذ کھولے رکھا مگر اُن کی اپنی حکومت میں کرپشن کا گراف نیچے جانے کی بجائے اوپر گیا۔معذرت کے ساتھ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ پی ٹی آئی حکومت، پکڑ دھکڑ ، الزام تراشیوں اور غیر ضروری لڑائیوں میں پڑ کر اپنا وقت ضائع کرتی رہی اور عوام بے روز گار ی اور مہنگائی کی نذر ہوتے رہے ۔ ہر نئے موسم کی آمد پر کابینہ میں وزارتیں تبدیل ہوتی رہیں ۔ اِن چار سالوں میں گڈ گورننس سب سے بڑا مسئلہ بنا رہا ۔ وزیراعظم عمران خان نے جتنی بار مہنگائی کا نوٹس لیا۔ اتنی ہی بار مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ دنیا بھر میں مہنگائی ہوئی مگر پاکستان میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کی وجہ بُری گورننس بھی تھی ۔عمران خان 2018میں پاکستان کی عوام کے لیے خوشی اور اُمید کی نئی کرن بن کر اُبھرے تھے ۔ وہ کرپشن کے خلاف حوصلہ شکنی کی مثال تھے مگر اُن کی غالباً سختی اور نرمی سے خالی شخصیت اُنہیں ناکام کرنے کی پہلی وجہ بنی۔اُن کی شخصیت کی خود پسندی اُن کے راستے کی رکاوٹ کی بہت بڑی وجہ بنی۔ اُن کی تقاریر میں ’’میں‘‘ ہمیشہ غالب رہا۔ فشار خیال انہیں ہمیشہ ایک منتشر شخصیت کے طو رپر پیش کر تا رہا۔وقعتاً فوقتعاً اپنی تقاریر میں ایسی باتیں جیسا کہ ایک بار انہوں نے کہا میں آلو
یا ٹماٹر کی قیمتیں جاننے کے لیے وزیراعظم نہیں بنا۔ پی ٹی آئی حکومت کے یہ چار سال ہاتھ کی مُٹھی میں سے سرکتی ہوئی ریت کی طرح تھے ۔ عوام اپنی زندگیوں میں بہتری کے منتظر رہے ۔ بے روزگار نوکریوں کے متلاشی رہے ۔ بے گھر اپنے گھروں کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ مگر پی ٹی آئی کی حکومت انوکھا طرز حکومت اپنائے ہوئے تھی ۔ کبھی میڈیا پر سنز پر پابندیاں ، کبھی مخالفین پر مقدمے ، کوئی بحران آتا تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے، غیر منتخب لوگوں کی اچھی خاصی فوج تھی جو وزارتوں کے ششکے اور مزے اڑاتی رہی ، اِن صاحبان نے وزیراعظم کو بھی غلط مشورے دئیے ۔ یہ گالی گلوچ برگیڈ اپنی زبان سے جو بھی کلمات پیش کرتے رہے ، بوجھ عمران خان کے کندھوں پر ڈلتا رہا۔ ایک لمحے کے لیے بھی توقف ، تحمل ، صبر یا متانت نظر نہ آئی، اِ ن کی باتوں یا لہجوں سے ہم بہترین ہیں ، صادق امین ہیں ، ایسے دعوے اور اتنی بڑی باتیں تو اولیا ء اکرام اور انبیا کے منہ سے کبھی نہ سُنی تھیں۔ منصب جتنا بڑا ہوتا ہے ۔ ذمہ داری اتنی ہی بڑھ جاتی ہے ۔ اپوزیشن رہنمائوں کو بھی وقعتاً فوقعتا بُرے لفظوں یا ناموں سے مخاطب کرنے کی وزیراعظم کی روش قابل ستائش یا کبھی بھی سراہنے جانے کے لائق نہیں تھی ۔ اس طرح کے الفاظ آپ کے منصب میں ہی کمی نہیں کرتے بلکہ آپ کو ایک غیر ذمہ دار اور غیر سنجیدہ شخصیت بھی قرار دیتے ہیں ۔
سیاست کا منظر نامہ مستقبل میں کیا رُخ اختیار کرتا ہے ۔ کسی حد تک سا منے ہے ۔ مگر عمران خان یا پی ٹی آئی آخری وقت تک کسی معجزے کے منتظر ہیں ۔ کچھ ماہ قبل ایک سرکاری تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ وہ انقلابی تبدیلیاں لانا چاہتے تھے مگر بیوروکریسی کی خرابیوں کی وجہ سے وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ بہر کیف اگر مستقبل میں پی ٹی آئی ایک بری اور نا خوشگوار یادداشتوں کے ساتھ لوٹے گی ۔ ایسی صورتحال میں عمران خان کو بہت سختی سے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ اُن کیلئے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ اُن کی اس شکست کے محرکات اور عناصر کیا تھے کوئی ٹیم جب میچ ہار کر ڈریسنگ روم میں واپس لوٹتی ہے تو اُسے اپنی شکست کے حوالے سے بہت سختی اور غیرجانبداری سے تجزیہ کرنا ہوتا ہے ۔ ایسے میں اپنی تمام کمزوریوں ، خامیوں اور کوتاہیوں کو سامنے رکھنا ہوتا ہے ۔ ڈریسنگ روم میں کھیل کے پہلے منٹ سے آخری منٹ اور میچ ہارنے کے لمحے تک کے تمام واقعات اور لمحات کو فلیش بیک میں دیکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ ایسا کرنے پر اگر کپتان اُس لمحے کو جان لے جب اُس کی بند مُٹھی سے ریت سرکنے لگی تھی تو یقینا وہ اگلے میچ کی جیت کے لیے بہتر طور پر پلاننگ کر سکے گا۔
عمران خان کو ایک بریک چاہیے ۔
نئے میچ کے لیے !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button