Columnمحمد مبشر انوار

تکیہ ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار
ستائیس مارچ کی شام کو تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں طاقت کا بڑا مظاہرہ کیا گیا،گو کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے سرپرائزکے نام پر کوئی خاص انکشاف نہ ہوسکا لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد نے وزیراعظم پر اپنے بھرپور اعتماد کااظہار ضرور کیا۔اس اعتماد کے پس منظر میں،تب تک کی صورتحال کو ذہن میں رکھیں تو یہ و اضح نظر آیا کہ عوام اپنے وزیراعظم سے کیا توقعات رکھ رہی ہے،وزیراعظم عمران خان کے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے لائحہ عمل کو بالعموم عوام نے بہت پذیرائی بخشی اور محلاتی سازشوں،گو کہ اپوزیشن کے پاس حکومت کو گرانے کا ایک آئینی حق ہے،اور سکہ رائج الوقت سیاست کے خلاف مؤقف اپنانے پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ جوڑتوڑ کی سیاست ،خرید و فروخت کی سیاست یا بلیک میلنگ سیاست کے خلاف کھڑے ہونے پر عمران خان کو عوام نے بھرپورساتھ دینے کااعلان ،اس جلسے میں شامل ہو کر د ے دیا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنی عوامی مقبولیت کا مظاہرہ کرکے اتحادیوں،منحرف اراکین اسمبلی و’’عوام‘‘کو، شش و پنج میں ڈال دیا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر لیں کہ عمران خان کی نظر میں اگلا سیاسی منظرنامہ عمران خان کے بغیر ادھورا و دھندلا ہے۔ علاوہ ازیں! قانونی داؤ پیچ بھی منحرف اراکین اسمبلی کو واپس آنے پر مجبور کر رہے ہیں تو اس عوامی دباؤ سے بھی منحرف اراکین اسمبلی نے اپنے لائحہ عمل کو ازسرنو ترتیب دینا شروع کر دیا ہے اورچند ایک ایسے ارکان،جنہیں ناراض اراکین اپنا اٹوٹ حصہ بتاتے ہیں، بہرطور تحریک انصاف کے ساتھ رابطے میں آ چکے ہیں۔ ندیم ملک صاحب کے شو میں ،باسط بخاری(منحرف رکن اسمبلی)کی طرف سے قریباً چودہ منحرف اراکین اسمبلی کے نام گنوانے پر،دوران شو ہی ندیم ملک کو محسن خان لغاری کی جانب سے جعفر خان لغاری کا تردیدی پیغام بھی موصول ہوگیا اور بعد ازاں جعفر خان لغاری نے شو کے دوران ہی اپنی وابستگی عمران خان کے ساتھ واضح کر کے منحرف اراکین میں دراڑ کو افشا کر دیا۔ اس دراڑ کے ساتھ ایک طرف تحریک عدم اعتماد کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے تو دوسری طرف ،اس وقت تک ،عمران کی صاف ستھری سیاست کا عزم بھی ظاہرہوتا تھا،باوقار طریقے سے حکومت سے علیحدگی کی توقع بھی تھی لیکن اس قانونی کارروائی کے بعد اتحادیوں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی اور اپوزیشن نے اپنی تمام تر توانائی اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنے پر صرف کرنا شروع کر دی۔ اعدادوشمار کے اس کھیل میں یہ تاثرسامنے آنا شروع ہوگیا کہ عمران حکومت چند دنوں کی مہمان ہے اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی،جی کا جانا ٹھہر گیا ،صبح گیا یا شام گیا والی کیفیت سامنے تھی البتہ اتحادی اس دلچسپ مرحلے میں کھل کر کسی کے ساتھ جانے کا اعلان کرنے سے گریز کر رہے تھے۔
اٹھائیس مارچ کی سہ پہر،قیاس کے بادل چھٹنے لگے ،جب عمران خان بھی مروجہ سیاسی حرکیات کا شکار ہو ئے،حکومت بچانے کے لیے عمران خان نے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا اور باضابطہ طورپر چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بننے کی پیشکش کردی۔ چودھری پرویز الٰہی نے اس دعوت کو قبول کرکے کسی حد تک سیاسی طوفان کی شدت کو کم کر دیا گو کہ چودھری پرویز الٰہی کے اس اقدام سے قاف لیگ کے مؤثر و طاقتور وزیر طارق بشیر چیمہ نے احتجاجاً کابینہ سے استعفیٰ دے دیا اور ببانگ دہل اعلان کر دیا کہ وہ عمران خان کو اعتمادکا ووٹ کسی صورت نہیں دیںگے۔ طارق بشیر چیمہ کا یہ اعلان بظاہر ان کی ذاتی ناراضگی کو ظاہر کرتا ہے لیکن پس پردہ قاف لیگ کے درون خانہ اختلافات کی نشاندہی کررہا ہے ۔ علاوہ ازیں! سیاست کے ثمرات میں اقتدار و اختیار کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے بالخصوص پاکستانی سیاست میں ظاہری حیثیت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے،قاف لیگ کے اس اقدام سے چودھری پرویز الٰہی اور ان کی فیملی کو سیاسی افق پر ثمرات حاصل ہو رہے ہیں جبکہ چودھری شجاعت اور ان کی فیملی سیاسی طور پر پس منظر میں دکھائی دے رہی ہے۔ مراد یہ ہے کہ اگلی نسل کی سیاسی حیثیت کے تعین میں دونوں خاندانوں کے درمیان بظاہر چپقلش کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اور بے رحم سیاست اپنا رنگ دکھا رہی ہے،ممکن ہے کہ دونوں خاندان مل بیٹھ کر اس کا حل نکال لیں لیکن اس وقت سیاسی منظر نامے پر ان کے اختلافات کو زیادہ ہوا دی جار ہی ہے۔ دیگر اتحادیوں میں سرفہرست ایم کیو ایم ہے،جس کے مذاکرات زرداری کے ساتھ ہو رہے ہیں،جنہیں لمحہ موجود میں جوڑتوڑ کا بے تاج بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے،جو اپنی فراخدلی کی وجہ سے سیاسی رہنماؤں میں بہت مقبول ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ زرداری صاحب کے ساتھ ہاتھ ملانا کسی بھی طور گھاٹے کا سودا نہیں لیکن چودھریوں کی سیاسی ساکھ بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے اور ان کی سیاسی بصیرت سے بھی انکار ممکن نہیں۔چودھریوں نے بھی کئی اہم مواقع پر عمران حکومت کو اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل سے نکالا ہے،اس لیے دیگر اتحادیوں کو موجودہ بدلتی ہوئی صورتحال میں
چودھریوں کی سیاست سے صرف نظر کرنا بھی ممکن نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ایم کیو ایم نے واضح طور پر اپنی حمایت کا اعلان فریقین میں سے کسی کے ساتھ نہیں کیا اور اطمینان کے ساتھ تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں جب چودھری پرویز الٰہی دس سیٹوں کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد ہو چکے ہیں تویقینی طور پر ایم کیو ایم کی نظریں ان کی طرف اٹھ رہی ہیں اور اس میں ممکنہ طور پر وفاق میں مزید ایک وزارت کے ساتھ ساتھ سندھ کی گورنری بھی ہو سکتی ہے کہ جس سے فوری طور پر ایم کیوایم کو ساتھ ملا کر تحریک عدم اعتماد کو ناکام کیا جا سکے۔ ایسی ہی صورتحال باپ پارٹی اور جی ڈی اے کی بھی نظر آ رہی ہے کہ لامحالہ چودھری پرویز الٰہی اپنی سیاسی ساکھ سے ان دونوں اتحادیوں کو بھی کسی نہ کسی طریقہ سے حکومتی حمایت پر آمادہ کر لیں گے جو چند دن میں واضح ہو جائے گا کہ ان امکانات پر واقعتا عملدرآمد ہو پاتا ہے یا نہیں اور چودھری پرویز الٰہی عمران خان کے اعتماد پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ یقینی طور پر چودھری پرویز الٰہی اپنی بھرپور کوشش کریں گے کہ ان اتحادیوں کو واپس حکومتی کیمپ میں لائیںکہ ان کی اپنی وزارت اعلیٰ،صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے اگر مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت قائم رہتی ہے۔ علاوہ ازیں!ایک ایسے فارمولے کی بازگشت بھی سیاسی حلقوں میں سنائی دے رہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں فریقین کو ایسا موقع فراہم کر دیا جائے کہ واضح طور پر نہ کسی کی جیت ہو اور نہ ہی کسی کی ہار ہو اور چند ماہ بعد عام انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے۔
اس پس منظر میں اپوزیشن کی طرف سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد جس جمع تفریق کے ساتھ قومی اسمبلی میں جمع کروائی گئی تھی،وہ سارے اندازے الٹ پلٹ ہوتے نظر آتے ہیں کہ حکومت کے اتحادی جو حکومت سے سخت نالاں تھے،حکومتی ناراض گروپ ؍ فارورڈ بلاک، حکومت ان سب کو مطمئن کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی جو قیمت عمران خان ادا کررہے ہیں،اس کا اندازہ ممکنہ طور پر اگلے عام انتخابات میں واضح ہو گا جو ففٹی ففٹی ہے کہ یا تو ووٹرعمران خان کو واضح برتری دلانے کی کوشش کریں گے یا بصورت دیگر عمران کی موجودہ سیاسی سمجھوتہ بازی کے خلاف جائیں گے،تاہم اسلام آباد کے آخری جلسہ کے بعد زیادہ قیاس یہی ہے کہ عوام عمران خان پر اعتماد کریں گے۔ رہی بات تحریک عدم کے حوالے سے زرداری فارمولا ؍ ایجنڈا کی،تو لمحہ موجود میں اتحادیوں کے اندرونی اختلافات کے باعث یہ دکھائی دے رہا ہے کہ اپوزیشن نے جن پر پتوں پر ’’تکیہ‘‘کیا تھا،وہ ہوا دینے لگے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button