Column

تمہارے خط میں نیا اِک سلام کس کا تھا ….. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
خط کبھی آدھی ملاقات سمجھا جاتا تھا مگر اب نہیں۔ عقیدت و محبت و یگانگت کے رشتوں میں بندھے ایک دوسرے کے خط کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ صدی سے زائد عرصہ بیت گیا۔ خط لانے اور لے جانے کا کام کبوتر سے لیا جاتا تھا، یوں اُسے پہلے قاصد کا اعزاز حاصل ہے پھر یہ کام ہرکارے سرانجام دینے لگے جنہیں تاکید کی جاتی تھی کہ واپس آتے ہوئے خط کا جواب لے کر آنا، خط پہنچتے ہی خط کا جواب تحریر کردیا جاتا تھا، خط کے آخر میں خط کا جلد جواب دینے کی تلقین بھی کی جاتی تھی۔ اہم امور کے معاملے میں رائے لیے جانے کے لیے تحریر کردہ خط میں لکھا جاتا تھا ’’جواب کا بے چینی سے منتظر‘‘ پریمی جوڑے ایسا خط پہنچنے کے بعد فریق ثانی کو تڑپانے اور اس کے تڑپنے سے لطف اٹھانے کے لیے دیدہ دانستہ خط کا جواب تاخیر سے دیا کرتے تھے، کبھی کبھار خط وصول کرنے کے باوجود کہا جاتا تھا کہ تمہارا خط نہیں ملا۔ کبھی خط میںیہ تاکید کی جاتی کہ خط کو ٹیلی گرام سمجھنااور ملتے ہی روانہ ہوجانا۔ ذرائع مواصلات تیز نہ تھے تو خط پوسٹ کرنے کے بعد اندازہ لگایا جاتا آج خط پوسٹ کیاگیا ہے، ایک روز چھوڑ کر اگلے روز ملے گا پھر خط وصول کرنے والا اُسی روز جواب لکھ کر پوسٹ کرے گا تو ایک روز چھوڑ کر اِس سے اگلے روز جوابی خط ملنا چاہیے۔ ڈاکیہ خط تقسیم کرنے کے لیے عموماً صبح گیارہ بجے یاسہ پہر چار بجے گھروں کا چکر لگایا کرتا تھا، خط کی راہ دیکھنے والے دروازے سے چپکے نظر آتے، شام کے سائے گہرے ہوجاتے تو ناامیدی اور وسوسے گھیر لیتے، اسی کیفیت میں اگلی صبح یا شام کا انتظار شروع ہوجاتا۔ اُس زمانے میں گائوں میں رہنے والے ٹین ایجرز محبوب کے نام خط لکھ کر پتھر کے ساتھ باندھ کر محبوب کے گھر پھینک دیتے، اس کے لیے دوپہرکا وقت آئیڈیل سمجھا جاتا جب گھرکے مکین آرام کے لیے کچھ دیر آنکھیں بند کرلیا کرتے تھے۔
شہروں میں رہنے والے خط لکھ کر ماچس کی ڈبیا میں ڈال کر محبوب تک پہنچاتے، اس کے لیے محبوب کے چھوٹے معصوم بہن بھائی بھی آلہ کار کا کام دیتے، انہیں ہرگز معلوم نہ ہوتا کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں، انہیں یہی سمجھایا جاتا کہ اس نیک کام کے لیے ان کا انتخاب اس لیے کیاگیا ہے کہ وہ بہت سمجھ دار ہیں۔ پیغام رسانی اس وقت قدرے آسان ہوئی جب گھرگھر پی ٹی سی ایل فون لگ گیا، فون کی گھنٹی بجتی، کوئی مرد فون اٹھالیتا تو دوسری جانب سے خاموشی اختیارکی جاتی، من پسند آواز سنائی دیتی تو گفتگو شروع ہوجاتی، پھر نیا
طریقہ ایجاد ہوا، فون کرنے کے بعد غیر مطلوب شخصیت گھر کے بزرگوں میں سے کوئی فون اٹھالیتا تو ایک فرضی نام لیکر پوچھا جاتا یہ فلاں صاحب کا نمبر ہے، جواب ملتا جی نہیں، رانگ نمبر۔ اس پر فون بند کردیا جاتا۔
پھر وہ فون سیٹ آگئے جن پر کال کرنے والے کا نمبر دیکھا جاسکتا تھا لہٰذا اس دور میں پریمی کالز میں خاصی حد تک کمی آگئی، جبکہ براہ راست ملنے کے مواقعے بڑھتے گئے، سنیما گھروں میں صبح گیارہ بجے سے دو بجے تک چلنے والاشو نوجوان جوڑوں کا پسندیدہ فلم شو سمجھا جاتا تھا، اسی طرح مختلف ہوٹلز میں پردے لگے کیبن بہت مقبول ہوئے جن کے دروازے پر ہوٹل کا ویٹر پہرہ دار کے فرائض بھی انجام دیتا تھا، کمپیوٹر، ای میلز اور بعد ازاں سیل فونز اور واٹس ایپ نے تو تباہی مچادی، ان انقلابات اور سائنسی ایجادات کا منفی ترین استعمال ہم جیسے غیر ترقی یافتہ ملک اور جاہل مطلق معاشرے میں خوب شروع ہوا، آج اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، رہی سہی کسر انٹرنیٹ اور یوٹیوب نے پوری کردی ہے، اب کسی کا کوئی راز، راز نہیں، جو کچھ ہزاروں کلو میٹر دور کسی کیفے، کسی بار، کسی ہوٹل، کسی ساحل کنارے ہورہا ہے، آپ سب کچھ اپنی ہتھیلی پر رکھے سیل فون کی سکرین پر دیکھ سکتے ہیں اور دوسروں کو دکھاسکتے ہیں۔
میں حیران ہوں ترقی کے اِس دور میں پاکستان کے کسی دشمن کو وزیراعظم پاکستان کو دھمکی آمیز خط لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، یاتو وہ بہت بے وقوف ہے یا پھر اس کا تعلق کسی غیر ترقی یافتہ ملک سے ہے جہاں آج بھی ہر اہم بات خط لکھ کر کی جاتی ہے۔یہ ملک امریکہ، اسرائیل، بھارت یا برطانیہ نہیں ہوسکتا، جرمنی، جاپان، فرانس ، اٹلی، چین، روس سے ہماری ایسی دشمنی نہیں کہ وہ ہمیں خط لکھ کردھمکائیں۔ خلیجی ممالک خود کسی کو دھمکیاں دینے کی پوزیشن میں نہیں پھر وہ کون ہے جس نے خط لکھ کر نیو کلیئر پاکستان کے مردآہن اور آقائوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں ایبسلوٹلی ناٹ (absolutely not)کہنے والے وزیراعظم کو حد درجہ تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان بہت بھولے ہیں وہ خط ایک اعلیٰ شخصیت کو دکھانے پر تیار ہیں، کیا وہ اِن سے اِس دشمن کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
اگر دشمن نے دھمکی آمیز خط لکھنے کی غلطی کرڈالی ہے تو یہ خط لیکر کون آیا؟ وہ ہرکارہ جس ملک سے تعلق رکھتا ہے اس کے سفیر کو فوراً ملک بدر کریں، اِس سے کاروباری تعلقات ختم کریں، اس پرواضح کریں کہ ہم دھمکیوں میں آنے والی قوم نہیں اور نہ ہی میں دھمکیوں سے ڈرنے والا لیڈر ہوں، میںلڑنا جانتا ہوں اور میدان سے بھاگنا میری فطرت میں نہیں۔
اگر یہ خط اتنا ہی خطرناک ہے تو اسے عدالت لے جانے کی بجائے قومی سلامتی کمیٹی میں لے جائیں تاکہ دھمکی کا موثر جواب دیا جاسکے لیکن سب کچھ کرنے سے پہلے یہ یقین کرلیں یہ خط کہیں تھرمامیٹر تو نہیں، مقصد صرف بخار چیک کرنا ہو، بھیجنے والا گھر کا ڈاکٹر ہو، ایک خط کے معاملے میں داغ دہلوی نے کئی سوالات اٹھائے تھے، کسی ایک کا جواب نہیں ملا۔ وزیراعظم پاکستان اپنے عزیز ترین وزیراعلیٰ پنجاب سے استعفیٰ لے چکے ہیں، وہ ہر اس شخص سے رابطے میں ہیں جس کے ترکش میں دو چار تیر موجود ہیں، انہوں نے بڑے صوبے کی سرداری اپنے اس حلیف کے سپرد کردی ہے جو ان سے قریباً چار برس بہت خوش نہ تھا، ان کے اپنے ساتھیوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ باغی ہوچکے ہیں انہوں نے ان باغیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے حالانکہ معافی کا لفظ ان کی لغت میں موجود نہیں۔ ان کے مخالفین وزیراعظم کے خاندان اور ان کی نجی زندگی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، وزیراعظم کو اپنے قریبی ساتھیوں کی طرف سے بھی کئی سوالات کا سامنا ہے مگر وہ خاموش ہیں، وہ کچھ سوالات کا جواب دینا نہیں چاہتے، کچھ سوالات کا جواب شاید ان کے پاس موجود نہیں، داغ دہلوی کے سوالوں پر ایک نظر ڈالیے بہت کچھ حسب ِ حال ہے۔
تمہارے خط میں نیا اِک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بے درد، اور درد رہا
مکین کون ہوا ہے، مکان کس کا تھا
وفا کریں گے، نبھائیں گے، بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے یہ کلام کس کا تھا
گذر گیا وہ زمانہ کہیں تو کس سے کہیں
خیال دل کو میرے صبح و شام کس کا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button