Column

ذرا گریبان میں دیکھ! …… امتیاز عاصی

سیاسی حکومتوں میں جلسوں کے انعقاد پر سرکاری وسائل کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔جہاں تک ہمیں یاد ہے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے دور میں جلسوں پر اٹھانے والے اخراجات سرکاری خزانے سے نہ سہی تحصیل دار اور پٹواری برداشت کرتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ہرحکومت کا طریقہ واردات ذرا مختلف ہوتا ہے لیکن یہ روایت عام ہے کہ جب کسی بڑے کی خوشنودی کا حصول ہو تو بعض سرکاری افسران نجی اخراجات کو کسی نہ کسی کھاتے میں ڈال کر اسے سرکاری اخراجات ظاہر کرکے فائلوں کا پیٹ بھر دیتے ہیں۔مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز کا شکوہ ہے وزیراعظم عمران خان نے اپنے جلسوں کے اخراجات کے لیے سرکاری وسائل استعمال کئے ہیں۔ دراصل یہاں معاملہ ذمہ داری اور اخلاقیات کا ہے، آیا کسی حکمران کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے جلسوں یا اپنے نجی کاموں کے اخراجات قومی خزانے سے پورے کرے؟اگرچہ ہمیں اس بات کاعلم نہیں کہ وزیراعظم نے اپنے جلسوں کے انتظامات کے لیے سرکاری وسائل کو استعمال کیا ہے یا نہیں البتہ اس کاعلم آنے والے وقت میں ضرور ہوجائے گا۔مریم نواز شاید بھول گئی ہیں یا وہ اس وقت کم عمر تھیں جب ایک قومی اخبار کے سنیئر کالم نگار ارشاد احمدحقانی نے جاتی امراء کی تعمیرات میں سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال بارے کئی ایک کالم لکھے تھے جس کی انکوائری شاید اب بھی نیب میں زیر التواء ہے۔درحقیقت جب کوئی اقتدار میں ہوتا ہے تو اسے قانون اور قاعدے کی کوئی پروا نہیں ہوتی بلکہ اس کی کیفیت اس کبوتر جیسی ہو تی ہے جو بلی کو دیکھ کر یہ سمجھتا ہے اس بلی نے نہیں دیکھا ہوگا حالانکہ بلی تو اسے دیکھ چکی ہوتی ہے لہٰذا دیکھنے والے بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔جس طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان وزیراعظم اور وفاقی وزراء کو سیاسی جلسوں میں تقاریر پر نوٹس جاری کر رہا ہے تو کیا یہ بات الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں کہ کون سیاسی جلسوں کے انعقاد میں سرکاری وسائل استعمال کر رہا ہے۔اگر یہ بات الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتی تو اور بات ہے، اگر آتی ہے تو الیکشن کمیشن کو اس کا ضرورنوٹس لینا چاہیے ۔اگر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں تو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو اپنے دور میں سیاسی جلسوںمیںحکومتی وسائل کے استعمال بارے قانون سازی کرنی چاہیے تھی۔ دراصل اس حمام میں سب ننگے ہیں۔

ہمیں افسوس ہے کہ وزیراعظم کوچیف الیکشن کمشنر سے بھی شکوے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی انہوںنے خود کی ہے ۔کیا انہیں اس بات کا علم نہیں تھا ۔ سول سرونٹس کی وابستگی قاعدے اور قانون سے ہوتی ہے نہ کسی فرد واحد سے۔ چیف الیکشن کمشنر کے برادر نسبتی نواز شریف دور میں وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے نہ صرف سربراہ تھے بلکہ اسلام آباد کے چیف کمشنر بھی تھے اور اب بھی دونوں عہدے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس سول سرونٹ کے والد نوازشریف کے بہت قریبی دوست اور پرنسپل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔وہ وزیراعظم عمران خان سے بھی دوستی کا دم بھرتے ہیں شاید اسی بنا وہ سول سرونٹ اس حکومت میں بھی دونوںعہدوںپر براجمان ہے۔ وزیراعظم کس بات کا شکوہ کر رہے ہیں۔اگر وہ میرٹ پر تقرریاں کرتے تو شاید انہیں چیف الیکشن کمشنر سے شکوے نہ ہوتے، یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض موقع پرست افسران سیاست دانوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ہمارے ایک قریبی دوست سابق بیوروکریٹ، ہمیں ایک روز وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کے حوالے سے بتا رہے تھے کہ میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف سے کہا تھا کہ چودھری نثار علی خان، خواجہ آصف اور سعید مہدی پر کبھی بھروسہ مت کرنا۔سیاست بڑے سیانے ہوتے ہیں جہاں انہیں اپنے مفادات کا حصول ہو تو وہ اس طرح کے معاملات میں قانونی سازی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔بشمول عمران خان، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اس بات سے لاعلم تھے سیاسی جلسوں کے انعقاد کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال غیر قانونی ہوتا ہے۔
ہمارے مشاہدات کے مطابق جب کبھی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ جلسوں کا انعقاد کرتے ہیں توعلاقے کے تحصیل داروں اور پٹواریوں کے جلسوں پراٹھانے والے اخراجات کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔جس کے بعد وہی تحصیل دار اور پٹواری عوام سے سرکاری کاموں کے عوض بھاری رشوت لے کر اپنے اخراجات سے زیادہ کما لیتے ہیں۔ ہمارے ایک قریبی دوست جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں جب پٹواری تھے تو ایک روز مجھے بتانے لگے جب ان کا تبادلہ ہو گیا تو انہوں نے اپنے دوست شیح رشیدسے بات کی جو مشرف دور میں وفاقی وزیر تھے۔جب انہوں نے پٹواری کے تبادلے کی بات جنرل مشرف سے کی تووہ حیران رہ گئے۔ بہرکیف جنرل مشرف نے چودھری پرویزالٰہی سے کہہ کا پٹواری تبادلہ کینسل کر ایا ۔جس ملک میں ایک نچلے درجے کے ملازم کا تبادلہ کرانے کے لیے ملک کا سربراہ سفارش کرے گا تو اس ملک کے گورننس کی کیاصورت حال ہوگی۔جب تک معاشرے کا ہر فرد اپنا محاسبہ نہیں کرے گا اس وقت ہمارے ملک کے حالات درست نہیں ہوسکتے۔ تادم تحریر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ کا مرحلہ نہیں آیا ۔ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
وزیراعظم نے ایک بڑ ا جلسہ کر لیا۔ایک اردو معاصر کی خبر نے ہمیں چونکا دیاکہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان اسمبلی کو اسلام آباد کے ایک پنج ستار ہ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ہے جس کے یومیہ اخراجات کروڑوں ہیں۔آخر اتنی بڑی رقم کہیں سے تو آئی ہوگی وگرنہ کوئی سیاست دان ایسے کاموں پر اپنے پلے سے اخراجات کا متحمل نہیںہو سکتا خواہ اس نے کتنی ہی لوٹ مار کیوں نہ کی ہو۔ بہت سے سیاست دانوں کو جب وہ اقتدار میں ہوں تو انہیں اپنے غیرقانونی اقدامات کی پروا نہیں ہوتی لیکن جب وہ اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہیں تو نیب میں مقدمات بن جائیں تو اسے انتقام کا نام دے دیتے ہیں۔ مریم نواز نے ایک اچھی بات کی طرف متوجہ کرایا ہے تاہم انہیں وزیراعظم کے جلسہ میں سرکاری وسائل کے استعمال کا خیال تو آیا ہے انہیں اپنے والد محترم اور چچا شہباز شریف دور کے جلسوں میں سرکاری وسائل کے استعمال کا خیال کیوں نہیں آیا۔ کوئی حکومت میں ہو یا عام شہری ہو کسی کے خلاف الزام عائد کرنے سے پہلے اگر انسان اپنے ماضی میں جھانک لے تو شاید دوسروں پر الزام لگانے سے باز رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button