Column

ہوم ورک ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کو چند روز باقی ہیں۔پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو ابھی ایک ماہ کا وقت ہے۔اس دوران بجائے لانگ مارچ کی تیاریوں کے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے بڑے حکومت کے خلاف عدم اعتمادلانے کے لیے سرگرم ہیں۔درحقیقت عدم اعتماد لانے کے لیے اپوزیشن ہوم ورک مکمل کرنے کی بجائے حکومت پر دباﺅ بڑھانے کی طرف گامزن ہے۔ آصف علی زرداری کے خلاف جب مقدمات میں تیزی آتی ہے وہ عام طو ر پر علیل ہو جاتے ہیں، جب مقدمہ التوا میں ہو تو وہ سیاست میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین ، مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف سے ملاقاتوں کے باوجود اپوزیشن عدم اعتماد لانے کے لیے کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی بلکہ ادھر ادھر ہاتھ پاﺅںمار رہی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے تادم تحریر آصف زرداری نے ابھی ملاقات کرنا ہے ۔جماعت اسلامی کے پاس اسمبلی میں ایک ووٹ ضرور ہے تاہم اِس بات کا بہت کم امکان ہے وہ اپوزیشن کا عدم اعتماد میں ساتھ دے گی۔آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی نے کسی جماعت سے اتحاد کئے بغیر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر رکھا ہے چنانچہ ایسی صورت میں جماعت اسلامی کا عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینا غیر یقینی ہوگا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب کا بیان ہے کہ عدم اعتماد کی تیاری مکمل ہے موزوں وقت پر لائیں گے۔تعجب تو اس بات پر ہے جب عدم اعتماد کی تیاریاں مکمل ہیں تو دیر کس بات کی ہے۔اپوزیشن رہنماﺅں نے جہانگیر ترین سے بھی مل لیا ہے۔اب تک جن جن حلیف جماعتوں کے رہنماﺅں سے اپوزیشن رہنماﺅں نے ملاقات کی کسی ایک نے بھی عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا وعدہ نہیںکیا۔

ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے برسراقتدار جماعت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف مسلم لیگ(ن) کی عدم اعتمادمقتدر حلقوں کی حمایت کے باوجود ناکام ہوئی تھی ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حکومت کے بعض اراکین اسمبلی ناراضگی کے باوجود کسی صورت میں اپوزیشن کاساتھ نہیں دیں گے۔بلاول بھٹو کا بیان عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وہ حکومت پر دوبارہ حملہ کریں گے اس امر کا غماز ہے کہ اپوزیشن کو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کا پورا یقین نہیں ہے۔ حیرت تو اس بات کی ہے ملک چاروں سمت خطرات میں گھرا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کو حکومت ہٹانے کی فکر لاحق ہے۔اپوزیشن کی سرگرمیوں سے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا انہیں ملکی سا لمیت کی فکر نہیں بلکہ اقتدار کی ہوس نے بے چین کر رکھا ہے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر سکتے ہیں تو موجودہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے میں کون سی قانونی رکاوٹ ہے؟آج وزیراعظم عمران خان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کے خلاف مقدمات سے دستبرار ہو جائیں نہ تو لانگ مارچ ہو گا اور نہ ہی عدم اعتماد کی نوبت آئے گی۔دراصل بہت سے سیاست دانوں نے سیاست کو کاروبار سمجھ رکھا ہے جب بعض سیاست دانوں کو کسی طرف سے مالی فوائد کے حصول میں ناکامی کا سامنا ہوتا ہے وہ حکومت کے خلاف سرگرم ہو جاتے ہیں۔حال ہی میں حکومت نے پریونیشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا)کا جو آرڈیننس جاری کیا ہے ۔صاف ستھری صحافت کرنے والوں کو اس آرڈیننس سے کوئی خوف وخطر نہیں البتہ وہ جنہوں نے بعض سیاست دانوں کی کاسہ لیسی کا فریضہ سرانجام دینا ہوتا ہے ان کا خوف میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔جہاں تک حکومت کے خلاف عدم اعتماد اور لانگ مارچ کے غلغلے والی بات ہے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں۔اس وقت حکومت کے پاس 179 اراکین ہیں جب کہ اپوزیشن کے پاس 162 اراکین ہیں اس طرح اپوزیشن کو عدم اعتماد لانے کے لئے 17 ووٹ درکار ہیں۔مسلم لیگ (ق) ، متحدہ قومی مومنٹ اور جہانگیر ترین سے ملاقاتیں کرکے اپوزیشن نے دیکھ لیا۔
چودھری برادران نے تو واضح طور پر اپوزیشن کی حمایت سے معذوری ظاہر کردی ہے ۔متحدہ نے یہ معاملہ اپنی پارلیمانی پارٹی پر چھوڑ دیا تھا ۔جہانگیر ترین خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ کبھی عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔اگرچہ جہانگیر ترین کے خلاف بھی مقدمات ہیں جن میں وہ ضمانت پر ہیں۔عمران خان کے دور میں انہیں سزا یاب ہونے کا سوچا نہیں جا سکتا ۔گو اپوزیشن اپنی جگہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لیے پرعزم ہے حالات اورواقعات کے تناظرمیںدیکھا جائے تو اس بات کی کم امید ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک لانے میں کامیاب ہو سکے گی۔اپوزیشن کے جلسوں ،لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک کو انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ایک دوسرے کو چور کہنے والے وقتی طور پر حکومت کے خلاف متحد نظرآتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ماضی کے تجربات کی روشنی میں شریف برادران پرکوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔اگرچہ انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے سنیئر رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو ساتھ دینے کی صورت میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیش کش کی ہے مگر چودھری برادران اپنی خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسے نازک موڑپر وزیراعظم عمران خان سے کئے گئے عہدسے کبھی انحراف نہیں کریں گے۔پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی دونوں ایک عرصہ سے حکومت کے خلاف تحریک چلائے ہوئے ہیں مگر عوام کی تائید کے بغیر ان کی تحریک حکومت گرانے میں کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ویسے بھی اپوزیشن جماعتوں میں باہمی اعتماد کے فقدان کے ہوتے ہوئے حکومت کے جانے کا کم ہی امکان ہے۔ اپوزیشن کا لانگ مارچ اور عدم اعتماد بغیرکسی ہوم ورک کے کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے؟دونوں بڑی جماعتوںکے قائدین کو اپنے خلاف مقدمات کی فکر ہے وگرنہ غریب عوام کے مسائل کے لیے لانگ مارچ اور عدم اعتماد کوئی کیوں کرے گا؟آنے والے چند روز میں پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ سے حقیقت آشکار ہوجائے گی ۔ عوام ان کے لانگ مارچ میں کس قدر شرکت کرتے ہیں۔ملکی سیاست میں آنے والے دن بہت اہم ہوں گے جس میں سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button