Column

بھارتی سیاستدانوں کی سنگاپور پارلیمنٹ میں بازگشت  علی حسن

 علی حسن
سنگا پور کے وزیر اعظم لی سین لونگ نے اپنے ملک کی پارلیمنٹ میں تقریر کی ، ان کی تقریر شہرت حاصل کر گئی اور اس تقریر نے بھارت میں ہلچل مچا دی ہے۔ ان کی تقریر میں کہا گیا تھا کہ بھارت کے لوک سبھا (ایوان زیریں ) کے آدھے اراکین کے خلاف جرائم سے متعلق مقدمات ہیں اور نہرو کا بھارت ایسا ملک ہو گیا ہے جہاں لوک سبھا کے آدھے سے زیادہ اراکین کے خلاف عصمت دری اور قتل کے مقدمات درج ہیں۔ جمہوری نظام اراکین کے بلند اخلاق اور قدر کا تقاضہ کرتا ہے تاکہ عوام کے اعتماد کے معیار، توقعات اور تقاضوں پر پورے اتر سکیں۔ سنگا پور کے وزیر اعظم کی اِس تقریر نے بھارتی حکومت کو اس قدر مشتعل کر دیا کہ اس نے سنگا پور کے سفارتی نمائندے کو طلب کرکے کہا کہ دنیا میں بہت سارے ملک نہایت قابل قدر مخلصانہ مقصد کے تحت وجود میں آئے، ان ممالک کو قائم کرنے والے رہنماﺅں کے خیالات اور توقعات کے برعکس وہ ممالک آہستہ آہستہ تبدیلی کی طرف چلے گئے۔ بھارت کے ساتھ انہوں نے اسرائیل کی مثال بھی دی ،جسے اس کے بانیوں نے کتنی محنت سے قائم کیا تھا لیکن بعد میں سیاسی رہنماﺅں نے کیا کچھ نہیں کیا کہ ان میں سے کئی تو جیل بھی گئے۔
پارلیمانی کمیٹی کی ایک رپورٹ جو پارلیمنٹ میں غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے تھی۔ کمیٹی نے ایک رکن رئیسہ خان پر جرمانہ بھی عائد کیا جب کہ پریتم سنگھ اور فیصل مناپ کے معاملات مقدمات کے لیے بھیجنے کی منظوری دی۔ سنگا پور کے اراکین پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعظم لی سین لونگ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین کی عزت کی جائے، ان پر اعتماد کیا جائے۔ اس کے سوا سنگا پور میں جمہوریت کا کام کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر کچھ غلط ہو جائے یا غلط راستہ اختیار کر لے، اسے تسلیم کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے، اسے چھپانا نہیں چاہئے، اس پر پردہ نہیں ڈالنا چاہئے اور سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو اپنے ضمیر کے مطابق دونوں تحاریک پر ووٹ دینا چاہئے۔ ایک تحریک پارلیمنٹ میں غیر مصدقہ اطلاع پر بات کرنے پر ۵۳ ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور دوسری تحریک میں حزب اختلاف کے رہنماءاور دوسرے صاحب کے خلاف مقدمات چلانا تجویز کیا گیا تھا۔ سنگا پور کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں راست بازی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اس کی مثال اس کیل جیسی ہے جو جوتے کو کھلنے نہیں دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ حقیقی مقصد اور قدر کیا ہے اور ہم ان کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ بات حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کے لیے بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
ایک طرف وہ بھارت جس کا ذکر سنگا پور کے وزیر اعظم نے کیا لیکن ” پرانے کپڑے، پرانے شوز، پر دل کا امیر آدمی “ کے عنوان سے سوشل میڈیا پر ایک تحریر گشت کر رہی ہے۔ وہ تحریر بھارت کے دارالحکومت نیو دہلی کے مسلسل دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے والے اروند کیجروال (جو عام آدمی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں) کے حوالے سے ہے ۔اروند کیجروال سرکاری ملازم تھے۔سرکاری محکموں میں کرپشن دیکھی تو سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیکر سرکاری محکموں میں کرپشن کے خلاف آواز بلند کی پھر سیاست میں داخل ہوئے اپنی پارٹی عام آدمی پارٹی بنائی جس کا انتخابی نشان” جھاڑو “ رکھا پہلے 2013 پھر 2015ءکے انتخابات میں ان کی پارٹی نے نیو دہلی صوبہ میں کامیابی حاصل کی پھر2020 کے انتخابات میں نئی دہلی کی 70میں سے 62نشستیں جیت کر عام آدمی پارٹی نے کلین سویپ کیا اور کیجروال پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کیجروال اب بھی اسی تین کمروں کے فلیٹ میں رہتے ہیں جہاں الیکشن اور سیاست اور وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے رہتے تھے ان پر کرپشن کے چارجز ان کے سیاسی مخالفین تک نہ لگاسکے ۔ بی جے پی اور کانگریس کی موجودگی میں کیجروال نے اپنا لوہا منوایا اور صرف اپنی سیٹ نہیں پورے دہلی کے صوبے پر حکومت بنا لی۔ کیجروال اب بھی بغیر استری کیے کپڑے پہنے ہوئے عام آدمی کی طرح وزیر اعلیٰ آفس جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے انتخابات میں اپنے تمام ٹکٹ رکشے والے ،ڈھابے والے اور عام آدمیوں کو دیئے ۔میں خود جب 2013ءمیں انڈیا میں تھا میں نے ان کو سٹیج پر دیکھا تھا اور ان سے سلام کیا تھا۔ کیا کمال آدمی ہے سادہ دھیمہ مگر مدلل لہجہ۔ کیجروال کی آواز اب دہلی سے نکل کر پورے ہندوستان میں پھیل رہی ہے۔ کیجروال نے اپنے پہلے دور حکومت میں انقلابی اقدامات کیے جن میں بجلی کے 180 یونٹس استعمال کرنے والوں کی بجلی فری کی۔ غریب لوگوں کے لیے پانی کا بل معاف کیا۔ امیروں پر ٹیکسز لگائے غریبوں کو سہولیات دیں۔ دہلی کے ہسپتالوں میں بیرون ملک سے آنے والے مریضوں پر ٹیکس لگا کر وہ پیسہ دہلی کے غریب مریضوں پر لگایا کہ انکا علاج بھی جدید ہسپتالوں میں فری کیا۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور علاج کو فری کیا۔بسوں میں خواتین کے لیے مفت سواری کی سہولت فراہم کی۔دہلی صوبے میں ایک لاکھ سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے لگائے پولیس میں کرپشن کو واضح کم کیا اور دیگر درجنوں اقدامات کیے جن کی بدولت کیجروال نے 2020 میں نیو دہلی کی 70 میں سے 62 سیٹس لیکر بھاری اکثریت سے وزیر اعلیٰ بن کر پولیس کی سلامی لی تو انکے جوتے اور انکے کپڑے سب کچھ بتانے کو کافی تھے اور یہ کچھ پاکستانی سیاست دانوں کی طرح سستی شہرت نہیں حقیقی سادگی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ پاکستانی سیاست دان ماسوائے چند توسستی شہرت کے لیے بھی ایسا نہیں کرتے۔ پاکستان میں بھی ہم کبھی ایسا منظر دیکھ سکیں گے۔؟ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ ان کی اپنی کابینہ میں ہی ایسے لوگ نہیں جنہیں مثال میں پیش کیا جا سکے۔ سیاست کرنے والوں کی بھاری اکثریت کی رائے ہے کہ پاکستان میں ذہن سازی (مائنڈ سیٹ) ہو چکی ہے، مزاج بن گیا ہے، دکھاوا، مزاج اور رویہ پر غالب آگیا ہے۔ ہر دولت مند شخص دوسرے شخص کو اپنے سے کمتر تصور کرتا ہے۔ پوشاک ہو، خوراک ہو، ذاتی خرچے ہوں، گھریلو خرچے ہوں، وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بحث ایسی بحث ہے کہ سیاست دانوں کی بجائے سکولوں میں نصاب تیار کرنے والوں اور اساتذہ کو غور کرنا چاہئے اور تحریک چلانا چاہئے کہ دکھاوے کی روش اور رویہ کو ختم کیا جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button