Column

بی جے پی کی مسلم مخالف مہم کے نتائج …. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

بھارت کی پانچ ریاستوں میں اِن دنوں انتخابات کا سلسلہ جاری ہے اور بی جے پی اِن ریاستوں میں اپنا اقتدار بچانے کے لیے تمام تر ذرائع اور وسائل استعمال کر رہی ہے۔ الیکشن سے قبل آر ایس ایس اور بی جے پی نے بھگوا انتہاپسندوں کی سرپرستی کرتے ہوئے پورے ملک میں مسلم و عیسائی مخالف ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف عیسائیوں کے چرچوں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور عورتوں سے بداخلاقی کا مظاہرہ کیا گیا تو دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف خاص طور پر بہت زیادہ تعصب پیدا کرنے کی کوشش کی، کھلے مقامات پر نمازوں کی ادائیگی پر پابندیاں لگا ئی گئیں، گائے ذبیحہ کے بہانے مسلمانوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا، داڑھی والے نوجوانوں پر ہجومی تشدد کے واقعات پیش آئے، نوجوانوں کو

مساجدومدارس میں جانے سے ہراساں کیا جاتا رہا اور پھر طالبات کے تعلیمی اداروں میں برقع اور حجاب پر پابندی لگائی گئی۔یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ ہندوانتہاپسندوں کی ایک نئی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دکھایا گیا ہے کہ مسجد کے سامنے چوک میں انتہاپسندوں نے سپیکر لگارکھے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اگر مسجد میں لاؤڈ سپیکر پر اذان ہو گی تو ہم اونچی آواز میں یہاں میوزک بجائیں گے۔ اِس مختصر ویڈیو میں ہندوانتہا پسندوں نے پورے بھار ت کے ہندوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس ویڈیو کو پورے ملک میں پھیلایا جائے جس کا مقصد یہ ہے کہ جو کام وہ کر رہے ہیں اِس کا آغاز ہر جگہ کیا جائے۔ گویا کہ ہندوانتہاپسندوں نے منظم منصوبہ بندی کے تحت پورے بھارت میں بھگوا دہشت گردی کا ماحول پیدا کر رکھا ہے اور مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی چاہتے تھے کہ اترپردیش اور دوسری ریاستوں میں حالیہ الیکشن سے قبل مسلم مخالف ماحول کو زبردست طریقے سے پروان چڑھایا جائے تاکہ گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی وہ مسلم مخالف کارڈ کھیل کر زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کر سکیں لیکن اِس مرتبہ ہوا کا رخ تبدیل ہو چکا ہے اور بی جے پی کو اِن ریاستوں میں واضح اکثریت ملتی دکھائی نہیں دیتی۔
پہلے مرحلے میں دس فروری کو مغربی اترپردیش میں اٹھاون سیٹوں پر ووٹ ڈالے گئے۔ پچھلے انتخابات میں ہندوانتہاپسند تنظیم بی جے پی نے یہاں سے پچاس سے زائد سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن اِس مرتبہ بھارتی انٹیلی جنس کی مرتب کردہ رپورٹس میں بتایا جارہا ہے کہ بی جے پی مغربی اترپردیش سے سترہ یا اٹھارہ سیٹیں ہی حاصل کر پائے گی۔ دوسرے مرحلے میں مغربی اترپردیش اور روہیل کھنڈ کی پچپن سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی، یہاں سے بھی گزشتہ الیکشن میں بی جے پی نے چالیس کے قریب سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن اِس مرتبہ بی جے پی کی جانب سے نصف سیٹیں حاصل کرنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ بی جے پی کی طرف سے اِن ریاستوں میں گزشتہ برسوں میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کروائے گئے۔ بے روزگاری عروج پر رہی، کسانوں نے بھی سخت ناراضی کا اظہار کیا اور مسلم ہندو کارڈ پر بھی عام لوگوں نے اِس مرتبہ کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے اترپردیش میں سماج وادی پارٹی جیتتی نظر آرہی ہے۔ بی جے پی کی خراب پوزیشن کی باتیں اِن دنوں زبان زد عام تھیں لیکن آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے تنظیمی ذمہ داران کے اجلاس میں اعتراف کیا ہے کہ اُن کی پارٹی اِس مرتبہ بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکی اور پہلے مرحلے میں اِسے شدید نقصان پہنچا ہے۔ اِس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو چند دنوں بعد آنے والے نتائج کا بخوبی انداز ہ ہے اور وہ انتخابات کے باقی مراحل میں انتہاپسند کارکنوں کو متحرک کر کے ووٹ بینک بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ سوشل میڈیا پورٹل، غیر جانبدار مبصرین اور یوٹیوب چینل چلانے والے بڑے ہندوستانی صحافی سبھی کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی دو ریاستوں میں الیکشن ہارچکی ہے اور باقی جگہ پر بھی اِس کی پوزیشن اچھی نہیں ہے۔ اترپردیش کے مسلمان ووٹرز بی جے پی کے خلاف مکمل طور پر متحد ہیں اورمودی سرکار بھرپو رکوشش کے باوجود سکھوں کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی، اِس لیے ماحول سماج وادی پارٹی کے حق میں ہے اور اُن ریاستوں کے عوام بی جے پی کو مزہ چکھانے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔
بھارت میں مودی حکومت کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کی عالمی سطح پر بھی مخالفت ہو رہی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے انڈیا میں مسلم مخالف رویوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جہاں بھگوا دہشت گردی کی روک تھام پر زور دیا وہیں اقوام متحدہ سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ اِس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ امریکی سفیر برائے مذہبی آزادی نے بھی بھارت میں حجاب اور برقع پر لگائی گئی پابندیوں کی مذمت کی اور کہا ہے کہ خواتین پر ایسی پابندیاں لگانا رسوائی اور پسماندگی کی علامت ہے۔ اِسی طرح دوسرے کئی غیر ملکی اداروں اور تنظیموں نے بھی مودی حکومت کے حالیہ اقدامات پر سخت تنقید کی لیکن بھارت سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ اِس بھگوا دہشت گردی کو اپنے ملک کا اندرونی معاملہ قرار دے کر مسلم مخالف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ مختلف ریاستوں میں بی جے پی اہلکاروں نے تعلیمی اداروں میں جس طرح انتخابات سے قبل لاکھوں کی تعداد میں بھگوا شالیں اور رومال تقسیم کرکے فتنہ وفساد کا ماحول برپا کیا، اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اِس کی منصوبہ بندی پہلے سے کی جا چکی تھی۔ بھارت میں ایک طرف مسلمانوں کے خلاف یہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم نہیں دلاتے اور اُنھیں گھروں سے نہیں نکلنے دیا جاتا۔خود بھارتی وزیراعظم پورے ملک میں بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کے نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن مسلم بچیوں کی پڑھائی میں سرکاری سرپرستی میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ لباس کا اطلاق سکول اور کالج کی بلڈنگ میں ہوتا ہے لیکن یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ تعلیمی اداروں کے گیٹ سے باہر ہی طالبات کے زبردستی برقعے اتروائے جارہے ہیں؟ اگر کوئی بچی برقع پہن کر آتی ہے اور کلاس روم میں بیٹھتے وقت دوپٹہ اوڑھ لیتی ہے تو اِس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ جس ملک میں روزانہ بڑی تعداد میں گینگ ریپ کے واقعات ہوتے ہوں اور بسوں و گاڑیوں میں بھی خواتین کی عزتیں و عصمتیں محفوظ نہ ہوں وہاں عورتوں کو زبردستی حجاب اِتارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔اب تو پوری دنیا میں یہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ یہ کیسا دوغلا پن ہے کہ ایک طرف ہندوانتہاپسند ویلنٹائن ڈے کے موقعہ پر کسی جگہ مردوخواتین کو اکٹھے نہیں ہونے دیتے، لوجہاد (LOVE) کے نام پر دنگا فساد پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی با حجاب بیٹیوں کو بے حجاب کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔
اِس وقت بھارت کے مختلف شہروں وعلاقوں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ تعلیمی اداروں میں داخل ہونے سے قبل طالبات کو برقع اتارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اِسی طرح ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں جن میں بھارتی پولیس اہلکاروں کی طرف سے عوامی مقامات پر حجاب پہنے خواتین سے دست درازی کی جارہی ہے اور اِنہیں برقع پہننے پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کئی علاقوں میں حجاب اور برقع پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کرنے پر خواتین پر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار مسلمانوں کے خلاف کس طرح حکومتی وسائل اور طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اِس پر پسے ہوئے مسلمانوں میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا پاکستان بنانے کا فیصلہ درست تھا اور اِنہیں بھی دو قومی نظریہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے دفاع اور حقوق کے لیے متحد و بیدار ہونا ہوگا۔ بھارت میں مسلم نوجوانوں میں خاص طور پر بیداری کی لہر پیدا ہور ہی ہے اور یہ باتیں سنی جارہی ہیں کہ اگر سکھ اپنی پگڑی اور داڑھی پر سختی سے کاربند ہیں اور اُن کے لیے سکولوں، کالجوں، دفاتریا کسی اور جگہ پر لباس وغیرہ کے حوالے سے کسی قسم کی پابندیا ں نہیں ہیں تو مسلمانوں کو بھی اِسی طرح اتفاق اور اتحاد کا ماحول کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قوت و طاقت کو منوانا ہوگا ورنہ ہندوانتہاپسندوں کے حوصلے اِسی طرح بڑھتے جائیں گے اور آنے والے دنوں میں مسلمانوں کے لیے اور زیادہ مشکلات پیدا ہوں گی۔ حقیقت ہے کہ مسکان جیسی بیٹیوں کی طرف سے سینکڑوں انتہاپسندوں کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنا مسلمانوں میں پیداہونے والی جرأت و حمیت کا نتیجہ ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی انتہاپسندی کی پالیسیاں جلد ان شاء اللہ انہیں لے ڈوبیں گی اور مودی سرکار کوملک گیر سطح پر ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں ایسے ہی شکست کا سامنا کرنا پڑے گاجیسے اترپردیش اور دوسری ریاستوں میں کرنا پڑ رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button