Column

نظامِ انصاف کی ٹیڑھی چال ….. روشن لعل

 روشن لعل
وطن عزیز میں نظام انصاف کا جو” چال چلن“ ہے اِسے اطمینان بخش سمجھنا تو دور کی بات، اگر اِس کو کوئی صرف تشویشناک بھی کہہ دے تو ایسا لگتا ہے کہ ِاس نے اپنی بات سے انصاف نہیں کیا۔ نظامِ انصاف کے ایسے چال چلن کے باوجود نہ تو شفاف اور تسلی بخش انصاف کی ضرورت اور نہ ہی اِس کی فراہمی کی امیدیں ختم ہوئی ہیں۔ نظامِ انصاف کا چال چلن بہتر ہونے کی امیدیں یہاں آئے روز پیدا ہوتی اور دم توڑتی رہتی ہیں۔ اِس طرح کی امیدوں کے وسیع پیمانے پر پیدا ہونے اور بے موت مر جانے کا گہرا تعلق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ امیدیں باندھتے وقت افتخار چوہدری کی بے مثال عزت افزائی اور امیدیں ٹوٹنے پرعزت افزائی کے برعکس شدید عوامی ردعمل تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ بن چکا ہے۔ اِس تاریخ میں منصفوں اور محتسبوں کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ تھا مگر افسوس کہ کسی نے کچھ نہیں سیکھا اور نظامِ انصاف یہاں حسب سابق ٹیڑھی چال چلتا رہا۔ ٹیڑھی چال چلتے ہوئے یہاں نظامِ انصاف عوام پر کیسا تاثر چھوڑ رہا ہے ، اس کے لیے موجودہ دور کی مثالیںپیش کرنے کی بجائے اگر صرف افتخار چودھری کے دور کے قصے بیان کر دیئے جائیں تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔
کون بھول سکتا ہے کہ اِس ریاست کو ماں جیسا بنانے کی امیدیں دلانے والے افتخار چوہدری کے بیٹے پر بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض نے کیسے کیسے الزام لگائے تھے ۔ الزامات سامنے آنے پر ایک از خود نوٹس لیا گیا تھا ۔ اِس از خود نوٹس پر آنے والے فیصلہ میں سب سے نمایاں بات اِس حدیث کا ذکر تھا جس کے مطابق رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ یہاں ایسا تو ہو سکتا ہے کہ موقعہ ملنے کے باوجودکسی نے رشوت لینے سے گریز کیا ہو، مگریہ بات ناممکن حد تک مشکل ہے کہ کسی نے کبھی رشوت نہ دی ہو۔ بدقسمتی سے یہاں رشوت کے بغیر تو جائز ترین کاموں کا ہونا بھی مشکل ترین بنا دیا جاتا ہے۔ اِس بات سے انکار کیسے ممکن ہے کہ انصاف کے جس مرکزنے اپنے فیصلے میںچودہ سو سال سے موجود حدیث کا ذکر کیا اِس کے اپنے ایوانوں میں رشوت دینے اور لینے کا چلن سب سے زیادہ ہے۔ کیا سوچا جاسکتا ہے کہ وکالت سے منصفی کی مسند تک پہنچنے والے جن لوگوں نے اپنے فیصلے مذکورہ میں حدیث کا ذکر کیا وہ ماتحت عدالتوں میں رشوت کے لین دین سے ناواقف تھے۔ اِن منصفوں نے رشوت لینے اور دینے سے متعلق حدیث سے باخبر ہونے کے باوجود اِسے بہت دیر بعد اپنے فیصلے کی زینت بنایا۔ ڈاکٹر ارسلان افتخار از خود نوٹس کیس سے قبل کئی ایسے مواقع آئے جب بحریہ ٹاﺅن کے سابق سی ای او ملک ریاض حسین کی طرح لوگوں نے سپریم کورٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ اِنہوں نے اپنے کاموں کی انجام دہی کے لیے رشوت دی لیکن عدالت نے رشوت لینے والوں کی طرح رشوت دینے والوں کو اِس پہلے کبھی جہنمی قرار نہیں دیاتھا۔
بدعنوانی کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے قید اور جرمانے کی سزا پانے والے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سابق جنرل منیجر مغفور شاہ نے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ پر اِس وقت رشوت لینے کا الزام لگایا تھا جب وہ اٹارنی جنرل آف پاکستان تھے۔ مغفور شاہ نے ایک خط کے ذریعے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو حلفیہ بیان دیا تھا کہ اِس نے عبدالحمید ڈوگر کی عدالت سے ریلیف لینے کے لیے لطیف کھوسہ کو تیس لاکھ روپے رشوت دی تھی مگر (مبینہ طور پر) رشوت لینے کے باوجود اس کو بری نہیں کرایا گیا۔ عدالت نے رشوت دینے کا اقرار کرنے والے اور بدعنوانی کے جرم میں سزا یافتہ مغفور شاہ کو حدیث نبوی کے مطابق جہنمی قرار دیئے بغیر اِس کے لگائے گئے الزام پر از خود نوٹس لیتے ہوئے لطیف کھوسہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جس کی وجہ سے اِنہیں اٹارنی جنرل کے عہدے سے ہٹا د یا گیا تھا۔ یہ ازخود نوٹس کیس کئی ماہ تک عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت رہا جہاں مغفور شاہ اپنا الزام ثابت نہ کر سکا ۔ بعد ازاں یہ کیس پاکستان بار کونسل کے سپرد کر دیا گیا جہاںمغفور شاہ نے کبھی اِس کیس کی پیروی نہیں کی کیونکہ اِس کیس کا مقصد صرف لطیف کھوسہ کو اٹارنی جنرل کے عہدے سے ہٹانا تھا۔ اِسی طرح پنجاب بنک کے 9 بلین روپے قرضہ سکینڈل کے مرکزی ملزم اور حارث سٹیل مل کے مالک شیخ افضل نے عدالت عظمیٰ کے سامنے سابق صدر آصف علی زرداری کے اِس وقت کے قابل اعتماد ساتھی بابر اعوان پر 5 ملین روپے وکالت فیس اور 35 ملین روپے اپنے حق میں فیصلہ کروانے کے لیے رشوت لینے کا الزام عائد کیاتھا۔ اِس کیس میں بھی عدالت عظمیٰ نے شیخ افضل کے سامنے یہ حدیث نہیں رکھی تھی کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ شیخ افضل نے بعدا زاں بابر اعوان پر رشوت لینے کا الزام واپس لیتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ اُنہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دباﺅ کی وجہ سے رشوت لینے کا الزام عائد کیا تھا۔ شیخ افضل نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ 6.15 بلین روپے کے قرض میں سے 5.51 بلین روپے واپس کر چکے ہیں اور بقایا رقم بھی واپس کرنا چاہتے ہیںلیکن پنجاب حکومت اِنہیں مسلسل حراساں کر رہی ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور دیگر کو رشوت دینے کے شیخ افضل کے الزام کو تو میڈیا اور عدالتوں میں بہت اچھالا گیا لیکن اِس وقت کی پنجاب حکومت اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے متعلق کہی گئی باتوں پر سب نے چپ سادھے رکھی تھی۔ اِس طرح کی کارروائیوں کے دوران پرویز حسین اور اِس کے بیٹے سمیر حسین نے عدالت کے روبرو یہ اقرار کیا تھا کہ انہوں نے ایل پی جی کوٹہ اور ناٹو فورسزکے لیے تیل کی سپلائی کا ٹھیکہ لینے کے لیے سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے سابق میڈیا ایڈوائزر خرم رسول کو رشوت دی تھی اِس موقعہ پر بھی یہ حدیث مبارکہ کسی کویاد نہ رہی کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ارسلان افتخار از خود نوٹس کیس میں جس حدیث کا حوالہ دے کر رشوت دینے اور لینے والے کو جہنمی کہا گیا تھا اگر اِس مقدس حدیث کو دیگر کیسوں میں بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہوتا تو عدالت کے وقار میں بہت اضافہ ہوتا ۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایسا کیوں نہ ہو سکا۔ یہاں کسی سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ آزاد عدلیہ کے نام پر بحال کرائے گئے ججوں کی بحالی سے قبل اور آج بھی عدالتوں کے متعلق یہ بات درست طور پر کہی جاتی ہے کہ اِن کی تو دیواریں بھی پیسے مانگتی ہیں۔ جن عدالتوں کے منصفوں نے لطیف کھوسہ ، بابر اعوان اور خرم رسول کو رشوت دینے کاالزام لگانے والوں کو تو سر آنکھوں پر بٹھایا ہو اور صرف ڈاکٹر ارسلان افتخار پر رشوت لینے کا الزام عائد کرنے والے کو حدیث مبارکہ یاد کروائی ہو ، کیا اِن منصفوں کے متعلق یہ سوچا جاسکتا ہے کہ ان کا مقصد شفاف ترین انصاف کی فراہمی تھا۔ جو پہلے نہیں تھا وہ اب بھی نہیں ہے کیونکہ نظام انصاف یہاں اَب بھی حسب سابق ٹیڑھی چال چل رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button