Column

ملکہ برطانیہ پر بُرا وقت ….. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
کرونا حقیقت تھی یا فسانہ، اِس حوالے سے متعدد آرا پائی جاتی ہیں، اِس پر بہت کچھ لکھا جاچکا، لکھا جاتارہے گا تاوقتیکہ امریکہ کی طرف سے اقرار جرم سامنے آجائے، امریکیوں کی چند اچھی باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ پندرہ بیس برس بعد اپنا جرم تسلیم کرلیتے ہیں اور بھرپور ڈھٹائی سے مان لیتے ہیں کہ ہم نے اپنی ضرورت کے تحت دنیا بھر کے ساتھ دھوکہ کیا، سب کو بے وقوف بنایا، اِس حوالے سے ایک معاملے میں ایک ہی رائے پائی جاتی ہے کہ کرونا نے آدھی سے زیادہ دنیا کی معیشت کو تہہ وبالا کردیا، کرونا کی لات نے جہاں کچھ کُبڑوں کے ”کُب“ نکال دئیے وہاں اِس کی ضرب سے کئی ملکوں اور کاروباری گروپوں کی ریڑھ کی ہڈی بھی فریکچر ہوگئی، اِس ضرب کا اثر عام آدمی کے ساتھ ساتھ خاص شخصیات پر بھی پڑا ہے، بادی النظرمیں یوں لگتا ہے جیسے ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم بھی معاشی بدحالی کا شکار ہوگئی ہیں۔ اُنہوں نے اپنی غربت دور کرنے کے لیے اپنی خاص ریسپی کے تحت تیارکردہ ٹماٹو کیچپ اور براؤن ساس مارکیٹ میں متعارف کرائی ہے، لیکن اِس کی قیمت مارکیٹ میں موجود پہلے اورقدیم برانڈز کی نسبت خاصی زیادہ ہے، کیچپ اور براؤن ساس کی بوتل پر اپنی جانب متوجہ کرنے والی تحریر ہے، اِس پر لکھا ہے ”ایک شان دار گھرانے کا پسندیدہ ٹماٹر سے بھرا ہلکا مسالے دار کیچپ لذت بخش ہے جبکہ براؤن ساس کو کھجور، سیب کے رس اور مختلف مسالوں سے ذائقہ داربنایاگیا ہے۔“
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ملکہ برطانیہ کی یہ دونوں پراڈکٹس خاصا بزنس کررہی ہیں، ملکہ برطانیہ سو برس کی عمر سے کچھ ہی دوری پر ہیں، اِس عمر میں وہ جتنا بھی مزید کمالیں وہ عمران خان سے منسوب ”خان چپل“ کی سیل کا ریکارڈ نہیں توڑ سکتیں، اِس کی بڑی وجہ برطانیہ میں تعلیم کا عام ہونا اور پاکستان میں جذبات کی فراوانی ہے، ہمارے یہاں جذبات نے عقل کوملازم رکھا ہوا ہے، پس وہ جذبات کے سامنے پانی بھرتی نظر آتی ہے، عرصہ دراز تک پانی ہی بھرتی رہے گی، ملکہ برطانیہ کی غربت کا سرکاری طور پر یاخاندانی ذرائع سے نہیں بتایاگیا لیکن حقیقت حال یہی لگتی ہے، غربت دور کرنے کا ایک آسان طریقہ موجود تھا لیکن ملکہ نے اپنی کم عقلی کے سبب اِسے کھودیا، اِنہیں چاہئے تھا کہ وہ پاکستان کے احساس پروگرام میں درخواست دے کر معقول وظیفہ حاصل کرتیں اور ضعیف العمری میں خود کو اِس کھیچل سے محفوظ رکھتیں، وہ وزیراعظم کے پورٹل پر رابطہ کرکے بھی اپنی گذارش وزیراعظم پاکستان تک پہنچاسکتی تھیں مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آئی ٹی کی بنیادی باتیں نہیں سمجھتیں، اِس کا ایک اور مطلب بھی ہے کہ وہ آئی فون میں موجود سہولتوں کو استعمال کرنے سے بھی یقیناً قاصر ہیں وہ صرف کال سن سکتی ہیں، کال کرسکتی ہیں یا شاید زیادہ سے زیادہ واٹس ایپ پر کسی کو یہ پیغام بھیج سکتی ہیں ”کال می“ دو لفظوں کا یہ پیغام بھی بڑی بڑی مشکلیں حل کردیتا ہے، لیکن اِن کی جانب سے ابھی تک یہ پیغام نہیں آیا، ہوسکتا ہے وہ اب تک اِسی سوچ میں گم ہوں کہ دنیا کو اِس بات کا علم ہوگیا تو لوگ کیا کہیں گے، اِس بات کا قوی امکان ہے کہ اُنہوں نے شریکوں کے ڈر سے ابھی تک ایسا قدم نہیں اٹھایا، وہ دنیا کی طاقت ور خاتون ہونے کے باوجود اپنی ایک بہو سے بہت ڈرتی ہیں، ان کی یہ بہو خواب میں آکر انہیں ڈراتی رہتی ہے، اِس کی جانب سے ملنے والی متعدد دھمکیوں نے اِن کی راتوں کی نیند اور دن کا چین رخصت کردیا وہ ہر وقت کھوئی کھوئی سی رہتی ہیں، اِن کی آنکھوں میں بھلے وقتوں کو یاد کرکے آنسو آجاتے ہیں لیکن ذرا سا آہٹ پاکر وہ اِنہیں گرنے سے پہلے ہی پونچھ کر مسکرانے لگتی ہیں، لگتا ہے اِن کے شوہر نے بُرے وقتوں کے لیے کچھ نہیں بچایا، اللوں تللوں میں ضائع کیا، ملکہ برطانیہ اپنی بدحالی دور کرنے کے لیے ہمارے ”کامیاب جوان پروگرام“ سے بھی فائدہ اٹھاکر کروڑوں روپئے کا قرض لے سکتی تھیں لیکن اُنہوں نے اِدھر بھی توجہ نہیں دی شاید وہ سوچتی ہوں کہ یہ منصوبہ تو جوانوں کے لیے ہے جبکہ وہ اب بوڑھی ہوکرڈس کوالیفائی ہوچکی ہیں، کاش وہ جانتیں کہ ایسا بالکل نہیں ہے، ہمارے یہاں کئی بزرگوں نے اپنے بچوں کے نام پر قرض حاصل کرکے اپنا مستقبل سنوارا ہے، وہ بھی اپنے خاندان کے کسی تابعدار نوجوان کے نام پر یہ قرض حاصل کرکے اِسے کسی بڑے بینک میں فکسڈ ڈیپازٹ کردیتیں، اُنہوں نے یہ بھی نہ کیا، اگر وہ اِس حوالے سے کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتیں تو پاکستان انگریزوں کا ایک بڑا احسان اتارنے میں کامیاب ہوسکتا تھا، قیام پاکستان سے قبل جب ہم اُن کے غلام تھے تو انگریزوں نے ہمارے ملک کے کئی غریب نوابوں اور جاگیر داروں کی غربت دور کرنے کے لیے اُن پر عنایات کی بارش کی، اُن پر سرکاری خزانہ جو دراصل ہماری ہی دولت تھی خوب لٹائی، اِس کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ اپنے کسی وفادار سے کہا صبح سے گھوڑا دوڑانا شروع کرو، شام تک جہاں تک گھوڑا پہنچے گا وہ علاقہ تمہاری جاگیر ہوگا، سینکڑوں پاکستانی نوابوں اورجاگیر داروں پر کیے گئے احسانات کا بدلہ پل بھر میں اتر سکتا تھا، ہم بھی فخر سے انگریزوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آج کہتے، تمہارے بزرگوں نے ہمارے نوابوں کو نوابی کے گُر سکھائے تو کیا ہوا، ہم نے بھی تمہاری غریب ملکہ کی غربت دور کرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی، اُن کی پہلی درخواست پر سورج غروب ہونے سے قبل احساس پروگرام سے وظیفہ جاری کیا، اُن کی قرضے کی درخواست آتے ہی کروڑوں روپے کا قرض جاری کیا، ہم اُس حوالے سے انگریزوں کی نسبت ایک قدم آگے جاسکتے تھے، 2023ء میں ہونے والے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل ملک برطانیہ کو دیاگیا قرض معاف کرنے کا اعلان کرکے اہل برطانیہ کا دل جیت سکتے تھے، ہم دنیا کو بتاسکتے تھے کہ ہم غریب شریب کوئی نہیں، یہ سب کچھ ہم نے دل لگی کے لیے مشہور کررکھا ہے، غریب ملکوں میں تین کروڑ کی گاڑی اور تیس تیس کروڑ نہیں تین تین ارب روپئے کے گھروں میں صرف تین تین افراد تو نہیں رہتے نا!
کاش ملکہ برطانیہ کو اندازہ ہوتا کہ پاکستان اِس وقت دنیا کا سستا ترین ملک ہے،میرے خیال میں وہ پاکستانی اخبار بھی نہیں پڑھتیں وگرنہ اُن کی نظر سے ہمارے قومی روزناموں میں شائع ہونے والی ایک خبر ضرور گذرتی جس میں بتایاگیا ہے کہ قصور سے ایک بچے کو اغواکرکے صرف پانچ سو روپئے میں فروخت کیاگیا، پاکستان میں مہنگائی ہوتی تو یہ بچہ کم ازکم پانچ لاکھ میں فروخت کیا جاتا، گذشتہ حکومتوں کے ادوار میں اغوا ہونے والے بچوں کی قیمت فروخت لاکھوں میں تھی، دو سال کے اِس بچے کو نو گھنٹے بعد لاہور سے بازیاب کرالیاگیا، اغوا کرنے والی عورت نے گرفتاری کے بعد بتایاکہ اِسے پیسوں کی اشد ضرورت تھی یہ ضرورت پانچ سو روپئے میں پوری ہوسکتی تھی لہٰذا اُس نے خودساختہ مہنگائی کے جرم سے بچنے کے لیے بچے کو انتہائی کم قیمت پر فروخت کیا، میرے محبوب لیڈر جناب شہبازشریف سے عدالت میں پوچھا گیا کہ انہوں نے لندن میں اثاثے اور جائیدادیں کیوں بنائیں تو انہوں نے جواب دیا، میں نے لندن میں رہنے کے لیے ملکہ برطانیہ کے وسائل پر انحصار تو نہیں کرنا تھا، اِسی لیے اپنے اثاثے بنائے، شہبازشریف مسلم لیگ کے ”وژنری لیڈر“ ہیں، اُنہوں نے برس ہا برس قبل چشم تصور سے دیکھ لیا تھا کہ ملکہ برطانیہ پر بُرا وقت آنے والا ہے، اتنا بُرا وقت کہ انہیں دال روٹی کے لالے پڑ جائیں گے، بختاور بھٹو نے بھی شادی کی سالگرہ پر اپنے شوہر محمود چودھری کو جرابوں کا جوڑا تحفے میں دیا ہے، غربت کا عالم دیکھا نہ جائے ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button