Column

ساڑھے تین سو برس میں کچھ تبدیل نہیں ہوا …… علی حسن

 علی حسن
پاکستانیوں کو 73 سالہ پاکستانی تاریخ کو رونے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ ہم پچھلے 350 سو سالوں سے ایسے ہی رہ رہے ہیں۔
فرانسس کا سفر نامہ پڑھیں اور آج کے حالات سے موازنہ کریں۔ فرانسس برنیئر پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر اور فرانس کا رہنے والا تھا۔ یہ 1658ءمیں ہندوستان آیا اور 1670ءتک 12 سال ہندوستان میں رہا۔ یہ شاہجہاں کے دور کے آخری دن تھے۔ برنیئر طبی ماہر تھا۔ چناں چہ یہ مختلف امرا سے ہوتا ہوا شاہی خاندان تک پہنچ گیا۔ اِسے مغل دربار، شاہی خاندان، حرم سرا اور مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ برنیئر نے شاہجہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے، اور اپنے صاحبزادے اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا۔ اِس نے اورنگ زیب عالمگیر کی اپنے تینوں بھائیوں داراشکوہ، سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں، اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔ اِس نے دارالشکوہ کوگرفتار ہو کر آگرہ آتے اور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا اور اِسے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور، بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔فرانسیس برنیئر نے واپس جاکر ہندوستان کے بارے میں سفر نامہ تحریر کیا جو 1671ءمیں پیرس میں شائع ہوا۔ بعد ازاں یہ انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا۔ برطانیہ میں چھپا اور اس کے بعد آو ¿ٹ آف پرنٹ ہو گیا۔
فیضان عارف کا آبائی تعلق بہاولپور سے لیکن وہ برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ لندن میں پندرہ سال سے زائد عرصہ سے صحافت کے میدان میں کام کرتے رہے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ” مجھے چند دن قبل فرانسس برنیئر کا یہ سفر نامہ پڑھنے کا موقع ملا۔ مَیں یہ کتاب پڑھ کر ورطہ ¿ حیرت میں پڑگیا۔۔! کیوں کہ فرانسس برنیئر نے 1660ءمیں جو ہندوستان (موجودہ پاکستان) دیکھا تھا، وہ آج تک اِسی ”سپرٹ“ اور اِسی ”کلچر“ کے ساتھ قائم ہے۔ ہم نے ساڑھے تین سو برسوں میں کچھ نہیں سیکھا۔ فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں جگہ جگہ حیرت کا اظہار کیا۔ اِس کا کہنا تھاکہ ”ہندوستان میں درمیانہ طبقہ (مڈل کلاس) سرے سے موجود نہیں۔ ملک میں امرا ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ۔ امرا، محلوں میں رہتے ہیں۔ اِن کے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی، جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور اِن کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا۔“ سفر نامہ لکھنے والے کا کمال ہے کہ آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ اِس دور میں ہی موجود ہیں جس دور میں سفر نامہ لکھا گیا تھا۔
وہ کہتا ہے، ہندوستان میں خوشامد کا دوردورہ ہے۔ بادشاہ سلامت، وزرا، گورنرز اور سرکاری اہلکار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں۔ دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا ہے۔ لوگوں کو خوشامد کی اِس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں، تو مجھے سقراطِ دوراں، بقراط اور ارسطو زماں اور آج کا بوعلی سینا قرار دیتے ہیں اور اِس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔اِس کے بقول، بادشاہ سلامت دربار میں جب بھی منہ کھولتے ہیں، تو درباری کرامت کرامت کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔ لوگ جیبوں میں عرضیاں لے کر گھومتے ہیں اور انہیں جہاں کوئی صاحبِ حیثیت شخص دکھائی دیتا ہے، یہ اپنی عرضی اِس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ جب تک اِس عرضی پر حکم جاری نہیں کرتا، سائل وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لیتا۔ بازار بے ترتیب اور گندے ہیں۔ آپ کو ایک دکان سے پشمینہ، کمخواب، ریشم اور زری کا کپڑا ملے گا اور ساتھ کی دکان پر تیل، گھی، آٹا اور شکر بک رہی ہوگی۔ آپ کو کتابوں اور جوتوں کی دکانیں بھی ساتھ ساتھ ملیں گی۔ ہر دکان کا اپنا نرخ ہوتا ہے اور بھاو ¿ تاو ¿ کے دوران میں اکثر اوقات گاہک اور دکان دار ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں۔
شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے، مگر آپ کو دکانوں پر گندگی، مکھیاں، مچھر، بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کو ہندوستان بھر میں اچھا گوشت نہیں ملتا۔ قصائی بیمار اور قریب المرگ جانور ذبح کر دیتے ہیں۔ یہ لوگوں کو گدھے اور کتے کا گوشت بھی کھلا دیتے ہیں۔ ہوٹلوں کا کھانا انتہائی ناقص اور مضرِ صحت ہوتا ہے۔ لہٰذا لوگ ریستورانوں کی بجائے گھر پر کھانا کھانا پسند کرتے ہیں۔پھل بہت مہنگے ہیں، ہندوستان میں خربوزہ بہت پیدا ہوتا ہے، لیکن دس خربوزوں میں سے ایک میٹھا نکلتا ہے۔ سردہ بہت مہنگا ہے۔ مَیں پونے چار روپے کا سردہ خریدتا ہوں۔ ملک میں شراب پر پابندی ہے، لیکن چھپ کر سب پیتے ہیں۔ شراب شیراز سے سمگل ہو کر آتی ہے اور شہروں میں عام ملتی ہے، تاہم حکومت نے عیسائیوں کو شراب پینے کی اجازت دے رکھی ہے۔ مگر یہ اکثر اوقات اپنی شراب مسلمانوں کو بیچ دیتے ہیں۔ملک بھر میں جوتشیوں کی بھرمار ہے۔ یہ دریاں بچھا کر راستوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ اِن کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں۔ ملک میں پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔ چناں چہ امرا اونٹ پر پانی لاد کر سفر کے لیے نکلتے ہیں۔ہندوستان کی مٹی زرخیز ہے، لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں۔ چناں چہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے۔ ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں۔ لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے۔ چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں کہ اِس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا، اور جاگیردار سوچتے ہیں، بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے، مگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گے۔ لہٰذا یوں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔لاہور کے مضافات میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور سیکڑوں لوگوں کی ہزاروں ایکڑ املاک بہا لے جاتا ہے، لیکن لوگ سیلابوں کی روک تھام کا کوئی بندوبست نہیں کرتے۔ چناں چہ اگلے سال دوبارہ تباہی دیکھتے ہیں۔
فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا، یہ کاریگر ہیں لیکن کاریگری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے۔ لہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں۔ یہ فن کاری کو کارخانے کی شکل دے لیں، تو خوشحال ہو جائیں، اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں۔ ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے۔ یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں۔ عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں۔ لوگ بھوکے مر جائیں گے، لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے۔ملک کا نصابِ تعلیم انتہائی ناقص ہے۔ یہ بچوں کو صرف زبان سکھاتا ہے۔ ان کی اہلیت میں اضافہ نہیں کرتا۔ خود اورنگزیب نے میرے سامنے اعتراف کیاکہ ”مَیں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت عربی زبان سیکھنے میں ضائع کر دیا۔“یہ لوگ فاقوں کو بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں۔ چناں چہ بخار میں فاقے شروع کر دیتے ہیں۔
ملک میں رشوت عام ہے۔ آپ کو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کے لیے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔ یہ بیک وقت صوبے دار بھی ہوتے ہیں، خزانچی بھی، وکیل بھی، جج بھی، پارلیمنٹ بھی اور جیلر بھی۔ سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے دولت لٹاتے ہیں۔
بادشاہ نے اپنے لیے 3کروڑ 184 روپے کا (1660ءمیں) تخت بنوایا۔سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں۔ یہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں۔ اِن کے آگے سپاہی چلتے ہیں۔ اِن سے آگے ماشکی راستے میں چھڑکاو ¿ کرتے ہیں۔ ملازموں کا پورا دستہ مور جھل اٹھا کر رئیسِ اعظم کو ہوا دیتا ہے اور ایک دو ملازم اُگل دان اٹھا کر صاحب کے ساتھ چلتے ہیں۔یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔ ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار۔بادشاہ اور امرا سیر کے لیے نکلتے ہیں، تو چھے چھے ہزار مزدور اِن کا سامان اٹھاتے ہیں۔ہندوستان کی اشرافیہ طوائفوں کی بہت دل دادہ ہے۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں اور امرا اپنی دولت کا بڑا حصہ اِن پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ طوائفیں شاہی خاندان کی تقریبات میں بھی بلوائی جاتی ہیں اور دربار سے وابستہ تمام لوگ اِن کا رقص دیکھتے ہیں۔وزرا صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں۔ بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزرا عہدے سے فارغ کر دئیے جاتے ہیں۔ہندوستان میں گرد، غبار، گندگی، بو اور بے ترتیبی انتہا کو چھو رہی ہے اور جرائم عام ہیں۔ مجرم اول تو پکڑے نہیں جاتے اور اگر پکڑ لیے جائیں، تو یہ سفارش یا رشوت کے ذریعے چھوٹ جاتے ہیں۔یہ فرانسس برنیئر کے سفرنامے کے چند حقائق تھے۔ آپ انہیں دیکھئے اور آج کے پاکستان پر نظر دوڑائیے، آپ کو یہ جان کر اطمینان ہو گا ہم نے الحمدللہ ساڑھے تین سو سال میں کچھ نہیں سیکھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button