Column

نئی نوٹنکی اوررِنگ ماسٹر …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

آج اِس سوچ میں مبتلا تھا کہ پاکستان میں سیاست کی بے اصولی اور مفادات کے تابع ہونے پر کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔سیاست دانوں کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہوئی اِس سیاست نے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچایا اس کا تصور وہی پاکستانی کر سکتا ہے جو، ان بازی گروں کی تمام حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھے ہوئے ہو۔ ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت ایک اتحاد بنایا گیا اور جب پاکستان کے تمام شہروں میں اِن روایتی کرپٹ سیاستدانوں کو عوام سے پذیرائی نہ ملی تو پھر دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کے درمیان”جوتوں میں دال بٹنے“کا منظر بھی سبھی کے سامنے ہے۔ جو زبان بلاول نے نواز شریف وغیرہ کے خلاف بولی وہ بھی ہم سب نے سنی تھی اور جو کچھ مریم صفدر نے بلاول زرداری اور پیپلز پارٹی کے بارے سرعام کہا وہ بھی زیادہ پرانا نہیں ہے۔ منافقت کا چلن ہماری سیاست میں پرانا ہو چکا۔میں اِس سیاسی منافقت کو ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی پھانسی دینے والے منافق حکمران ضیاالحق کی ایجاد قرار دیتا ہوں۔جس قسم کے سیاستدان اِس نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے سیاست میں گھسائے تھے، اِنہوں نے نہ صرف پاکستان کی سیاست کو داغ دار کیا بلکہ پاکستان کی ترقی کو زمین بوس کر کے عوام کو غلیظ زبان اور کرپشن سے روشناس کروایا۔جب میں لکھتا ہوں کہ یہ ڈگڈگی بجانے والے سیاسی بیوفاﺅں کی جماعتیں ہیں تو میرا مطلب یہی ہوتا ہے کہ پاکستان میں نوٹنکی تماشے لگانے والے ہی سیاست

میں معتبر گردانے جاتے ہیں۔
دنیا کے کس معاشرے میں لوٹ مار کرنے والے پروٹوکول کے سہارے سرعام دندناتے پھرتے ہیں؟اخلاقیات کسی بھی معاشرے کے باشندوں کی ایسی صفت ہے جو اِنہیں سماج میں پرسکون زندگیاں گزارنے کی سند عطا کرتی ہے۔اعلیٰ اخلاقی قدر کسی بھی ایسے شخص کا وصف ہوتا ہے جو ملک و قوم کی قیادت کا دعویدار ہو۔ اخلاقیات میں ایمانداری، لوگوں کا درد اور احساس پنہاں ہوتا ہے۔کیا اعلیٰ اخلاق کا حامل شخص کبھی کسی سے جھوٹ بول سکتا ہے؟کیا وہ کسی سے دھوکا کر سکتا ہے؟ کیا وہ سرکاری امانتوں میں خیانت کر سکتا ہے؟کیا وہ اپنے خاندان کے افراد کو دوسروں پر ترجیح دے سکتا ہے؟کیا وہ کبھی سوچ سکتا ہے کہ وہ انصاف فراہم کرنے والے نظام سے ماورا ہے؟ دنیا کے کسی مذہب اور نظام میں حکمرانوں کا سب سے پہلا وصف اعلیٰ اخلاق ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔پاکستان کی بدقسمتی کہ گزرے تمام عرصے میں عوام کو جھوٹ، فراڈاور بدترین معاشی و معاشرتی ناانصافی کا شکار کیا گیا، اِن پرایسے ایسے بوجھ لاد دئیے گئے جنہوں نے قوم کی اکثریت کی کمریں ہی جھکا ڈالیں۔ کسی بھی قبیلے، قوم یا فرد کی کمر جب جھک جائے تو وہ چاروں جانب دیکھنے اور سمجھنے بوجھنے سے عاری ہو جاتا ہے۔جھکی ہوئی کمروالی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی اور پھر اِن کا مسقبل تاریک ہو جایا کرتا ہے۔میں یہاں وزیر اعظم عمران خان کی ماضی میں کہی ہوئی یہ بات کہ” میں جب ان کا احتساب کروں گا تو یہ سب اکٹھے مل جائیں گے“ کو کوڈ کیے بغیر یہ ضرور لکھوں گا کہ آخر عوام کیوں نہیں سوچتی کہ ماضی میں عوام کو بدحال کرنے والا شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، حمزہ شہباز شریف ،مریم صفدر اور 80 کی دہائی سے اب تک اپنے مالی مفادات کے لیے ہر حکمران کے ساتھ مل بیٹھنے والے مولانا فضل
الرحمان آج پھر کیوں اکٹھے ہو چکے ہیں؟
عمران خان کی اب تک کی حکومت پر جو تنقید ماضی کی کرپٹ سیاسی قیادت کر رہی ہے اس پر اگر بغور نظر دوڑائیں تو
مجھے تو صرف اِس بیان کہ پاکستان میں سب کچھ تباہ ہو گیا “کہ علاوہ کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔ پچھلے چار سال کی پارلیمانی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام حکومت بری طرح ناکام ہو چکا ہے کہ تمام اسمبلیوں میں نواز شریف فیملی اور زرداری فیملی کو بچانے کی کوششوں کے علاہ کوئی کام ہوا ہی نہیں۔شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، بلاول بھٹو، اختر مینگل، حمزہ شہباز شریف وغیرہ جب بھی اسمبلیوں میں نظر آئے وہ اپنے اپنے خاندانوں کے کرپشن کیسز اور اِن کے نتیجے میں پکڑے جانے والوں کا رونا روتے ہی نظر آئے۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ 2018 سے اب تک پاکستان کی قومی اسمبلی یا چاروں صوبائی اسمبلیوں میں عوام کو درپیش گھمبیر مسائل پر کسی نے بھی بات کی ہو اور عوامی مشکلات کے حل کی ضرورت پر زور دیا ہو۔اِس امر میں تو کوئی شک رہ ہی نہیں گیا کہ موجودہ پارلیمانی طرز حکمرانی مکمل فیل ہو چکاہے، اسمبلیوں میں جن نمائندوں کو عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بھیجتے رہے وہ اب مراعات یافتہ کرپٹ اشرافیہ کے زرخرید غلام بن چکے اور مالی مفادات کے حصول کے لیے اسمبلیوں میں بھی سیاسی نوٹنکی والوں کے ہی مفادات کی بات کرتے نظر آتے
ہیں۔
بطور صحافی میری شدید خواہش ہے کہ موجودہ اپوزیشن کبھی اعدادو شمار کے ساتھ موجودہ حکومت کی کسی ایسی کرپشن کی داستان سامنے لائے جس میں واقعی عوام کا پیسہ لوٹا گیا ہو۔رہی بات چینی وآٹاسکینڈل کی تو اِن سکینڈلز میں اگر جہانگیر ترین اور خسرو بختیار وغیرہ ملوث ہیں تو شریف فیملی، آصف علی زرداری، سید خورشید شاہ، سلمان شہباز وغیرہ اور تمام کرپٹ سیاسی شخصیات اِس کارٹل کاحصہ ہیں۔ملکی دولت لوٹنے والوں کی میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرکے شور مچانے شور کی ایسی مثال دنیا میں ڈھونڈے بھی نہیں ملے گی۔ بقول استاد دامن”وچوں وچوں کھائی جاو ¿ تے اتوں رولا پائی جاو ¿“۔ بات تو بار بار سستی روٹی سکیم، دانش سکولز، صاف پانی پراجیکٹ، آشیانہ سکیم، میٹرو، اورنج ٹرین ،سکیم اور لیپ ٹاپ سکیم وغیرہ کی کرنے کی ضرورت ہے جس میں ”عالم پناہ“ عرف شیر شاہ سوری دوئم نے عوام کا کھربوں ڈالر نہ صرف غرق کیا بلکہ اپنے خاندان کو ایسا نوازا کہ اب نہ تو اِنہیں کوئی پکڑ سکتا ہے نہ ہی اِنہیں کسی احتساب یا سزا کا کوئی ڈر ہے۔عوام کو حقیقی سیاست کی بجاے نوٹنکی میں ڈگڈگی بجا کر اپنی طرف مائل کرنے کا سلسلہ اور کوششیں گزشتہ ہفتے سے دوبارہ شروع ہو چکی ہیں۔اب سوچئے کہ جیسے جیسے شہباز شریف اور حمزہ شہباز وغیرہ کے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیسوں کے فیصلوں کا وقت قریب آ رہا ہے یہ سب دوبارہ سے تماشا لگانے اکٹھے ہو چکے ہیں ۔لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ جب ترکی کی کمپنی کو دیا گیا تھا تو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے کا اعزاز تھا کہ وہ روازنہ کی بنیاد پر اِن سے کمیشن وصول کرتے ۔اگر عمران خان یا اِن کے وزیر کرپٹ ہیں تو اپوزیشن کو اِن کی کرپشن کے ثبوت(جو کبھی سامنے نہیں آئے) سامنے لانے چاہئیں۔
عوام کو اب یہ سمجھ جانا چاہیے کہ ذوالفقار علی بھٹو وفات پا چکے اور اِن کی پیپلز پارٹی بھی کب کی ختم ہو چکی اور اِس
پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کا بھٹو شہید کی پارٹی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ سندھ کے کچھ حلقوں کے علاوہ پاکستان کے میدان سیاست سے اب کی پیپلز پارٹی مٹ چکی ہے۔اِسی طرح نواز شریف ملک سے بھاگ چکے۔ شہباز شریف اور مریم نواز کی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں مختلف بہانوں سے ملک سے فرار کی کوششیں عمران خان کی حکومت ناکام بنا چکی ہے ۔ویسے بھی یہ مسلم لیگ جو(ن)کہلاتی ہے کا کوئی تعلق پاکستان کی خالق مسلم لیگ سے نہیں اور محمد خان جونیجو کی وفات پر(اِن کی تدفین سے بھی قبل) اِس کی قیادت پر نواز شریف نے زبردستی قبضہ کیاتھا۔پاکستانی قوم کو اپنی آنکھیں اب کھولنا ہوں گی کہ ماضی میں پیٹ چاک کرنے،لاہور،کراچی اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے والے ”زرداری، عمران بھائی بھائی“ کہنے والے ۔ نوازشریف اور لوہار شریف کہنے والے تمام چالیس چور پکڑے جانے کے خوف سے پھر اکٹھے ہو چکے اوراِن کی نوٹنکی کا” رنگ ماسٹر“ لندن میں بیٹھا اِن کی ڈگڈگی کی طرز بنا رہا۔۔لوگو!دیکھو۔سوچواوربچو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button