سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 22خوارج جہنم واصل، 6جوان شہید
سانحہ نائن الیون کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی، افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوا، امریکا کی افغانستان میں شروع کی گئی جنگ کے بداثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے۔ یہاں دہشت گردی کے عفریت نے پوری شدّت کے ساتھ سر اُٹھایا۔ بم دھماکوں، خودکُش حملوں اور فائرنگ کے واقعات کی بھرمار تھی۔ عبادت گاہیں محفوظ تھیں نہ عوامی مقامات، تفریح گاہوں تک کو نشانہ بنایا جاتا تھا، اہم اداروں کے دفاتر پر حملے ہوتے تھے، روزانہ ہی ملک کے کسی نہ کسی گوشے میں دہشت گردی کا سانحہ رونما ہوتا تھا، جس میں درجنوں بے گناہ شہری زندگی سے محروم ہوجاتے تھے، ہر شہری شدید خوف و ہراس میں مبتلا تھا۔ صبح کو گھر سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ شام زندہ سلامت گھر لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔ دہشت اور وحشت کی فضا کا راج تھا۔ لوگ کِھلکھلانا، مسکرانا، خوشیاں بانٹنا تک بھول گئے تھے۔ سانحات در سانحات کے سلسلے تھے۔ سیاسی جلسوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا تھا۔ بے نظیر بھٹو سمیت کئی سیاست دان دہشت گرد حملوں میں شہید کیے گئے۔ 80ہزار بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے، جن میں سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران و جوان بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔ دشمنوں نے دس سال قبل دسمبر میں وہ کر ڈالا، جس کا تصور بھی کسی نے نہیں کیا تھا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ آور ہوکر معصوم طلبہ اور اساتذہ سمیت 150لوگوں کو شہید کرکے اپنی بھرپور سفّاکیت ظاہر کی۔ اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت دشمنوں کے خلاف فیصلہ کُن آپریشنز ضرب عضب اور پھر ردُالفساد کیے گئے، ہماری بہادر سیکیورٹی فورسز نے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو اُن کی کمین گاہوں میں گُھس کر جہنم واصل کیا، گرفتار کیا، تابڑ توڑ کارروائیوں نے دہشت گردی کی کمر توڑ کے رکھ دی، ایسے میں جو کچھ دہشت گرد بچے تھے، اُنہوں نے یہاں سے فرار کی راہ لی۔ ملک میں امن و امان کی فضا بحال ہوئی۔ یہ تمام تر کامیابی سیکیورٹی فورسز کی مرہونِ منت تھی، جنہوں نے ملک کو اس ناسور سے نجات دلائی تھی۔ قبل ازیں ملک میں پھیلی دہشت گردی کی آگ معیشت پر کاری ضرب لگا چکی تھی۔ 15 سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی دہشت گردی کے نتیجے میں معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔ سیکیورٹی فورسز کی بدولت امن و امان کی فضا بحال ہوئی تو شہریوں نے سُکھ کا سانس لیا اور سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ 7سال تک امن برقرار رہا، جب سے امریکا کا افغانستان سے انخلا ہوا ہے، اُس وقت سے پھر سے دہشت گردی کا عفریت سر اُٹھانے کے لیے مچل رہا ہے۔ تین سال سے ملک میں دہشت گردوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بنایا
جارہا ہے۔ ہمارے کئی جوان اور افسران کو شہید کیا جاچکا ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز بھی دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے پُرعزم اور اس سے نبردآزما ہیں ،فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر ڈھیروں آپریشنز ہورہے ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ متعدد دہشت گردوں کو مارا اور گرفتار کیا جاچکا ہے۔ بہت سے علاقوں کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جاچکا ہے۔ گزشتہ روز بھی تین مختلف کارروائیوں میں 22خوارج ہلاک کیے گئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع میں 3علیحدہ کارروائیوں میں 22خوارجیوں کو ہلاک کردیا جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں 6جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق 6اور 7 دسمبر کو خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں تین علیحدہ کارروائیوں کے دوران 22 خوارج کو جہنم واصل کیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے ضلع ٹانک کے علاقے گل امام میں خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا اور کارروائی کے دوران فورسز نے دشمن کے ٹھکانے کو موثر طریقے سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 9خوارج ہلاک اور 6زخمی ہوگئے جنہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ فورسز نے دوسری کارروائی شمالی وزیرستان میں کی، جس کے دوران 10خوارج ہلاک ہوئے اور تیسری جھڑپ ضلع تھل میں اُس وقت ہوئی جب خوارج نے سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر حملے کی کوشش کی۔ اعلامیے کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں 3خوارج ہلاک ہوئے جب کہ 6جوان شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے، تاکہ کسی بھی باقی ماندہ دہشت گرد کو ختم کیا جاسکے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ کے پی کے کے مختلف اضلاع میں آپریشنز میں 22خوارج کی ہلاکت بڑی کامیابی ہے۔ اس پر سیکیورٹی فورسز کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ 6جوانوں کی شہادت پر پوری قوم اُن کے اہل خانہ کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ شہید ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ان کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو ایسے بہادر سپوت انتہائی وافر تعداد میں میسر ہیں، جو ارض پاک پر مر مٹنے کے جذبے سے ہروقت سرشار رہتے ہیں۔ پاکستان پہلے بھی تنِ تنہا دہشت گردی کا خاتمہ کرچکا، اس بار بھی ایسا کرنا اس کے لیے چنداں مشکل نہ ہوگا۔ فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں کا جڑ سے خاتمہ ہوگا، کوئی نہیں بچے گا، سب اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے۔ اس دھرتی اور اس کے بسنے والوں کے خلاف سازشوں کے جال بُننے والوں کے ہاتھ نامُرادی ہی آئے گی۔ وہ چاہے اپنے آلہ کاروں کے ذریعے بدامنی پھیلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں، ناکام رہیں گے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز پُرعزم ہیں اور دہشت گردوں کا خاتمہ نزدیک ہے، قوم کو اس حوالے سے جلد خوش خبری ملے گی۔
بدعنوانی کیخلاف راست اقدامات ناگزیر
بدعنوانی کا ناسور نہ جانے ہمیں اور کتنے مصائب سے دوچار کرے گا۔ ہمارے ملک کو کرپشن نے جتنے نقصانات سے دوچار کیا ہے اور کسی سے اتنے نہیں پہنچے ہوں گے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ملک ترقی کے میدان میں دُنیا سے خاصا پیچھے رہ گیا ہے، دُنیا ترقی کرتی چلی گئی جب کہ ہمارے ہاں کرپشن پروان چڑھتی رہی اور ہمیں ترقی معکوس جیسی صورت حال کا سامنا رہا۔ یہ حقیقت نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے قریباً تمام ہی سرکاری اداروں کو بدعنوانی کی دیمک چاٹ کر کھوکھلا کر چکی ہے، یہ سنگین بُرائی تمام محکموں میں بُری طرح سرایت کرچکی، تبھی تو کئی سرکاری ادارے تباہی کے دہانے پر نظر آتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ سرکاری اداروں سے وابستہ عوام کا کوئی کام بغیر رشوت دئیے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ افسران سے لے کر نچلا عملہ تک رشوت وصولی میں پیش پیش رہتا ہے۔ عوامی منصوبوں کو بدعنوانی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ رشوت، سفارش، اقربا پروری اور دیگر معاشرتی بُرائیوں کو پروان چڑھانے میں اوپری طبقے کے افراد نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیے بغیر کوئی بھی ملک و قوم ترقی کی معراج کو نہیں پہنچ سکتے۔ آج پاکستان سمیت دُنیا بھر میں انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، خصوصی تقریبات، کانفرنسز، سیمینارز، مذاکرے، مباحثے منعقد کیے جائیں گے جب کہ واکس کا بھی اہتمام کیا جائے گا، اس کا مقصد عوام میں رشوت ستانی کے خلاف شعور بیدار کرنا ہے۔بدعنوانی کے خلاف بیان بازیاں خوب کی جاتی ہیں، لیکن اس کے قلع قمع کے لیے سنجیدہ کوششیں دِکھائی نہیں دیتیں، البتہ اس کے فروغ کے مظاہر جابجا نظر آتے ہیں۔ آج انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر تقریبات میں بھی کرپشن کے خلاف بڑھ چڑھ کر دعوے کیے جائیں گے، لیکن محض ایک دن اس کے خلاف بول کر باقی پورے سال اس کو پروان چڑھانے سے تو یہ دیرینہ مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک بدعنوان لوگوں (وہ خواہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں) کا کڑا احتساب نہیں کیا جائے گا، اُنہیں سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی تب تک کرپشن کی وبا پر قابو پانا ناممکن ہے۔ انسداد بدعنوانی کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ کرپٹ عناصر اور کرپشن کے مکمل قلع قمع کے لیے ہر سطح پر حکومت راست اقدامات یقینی بنائے، انہیں خاصی چھوٹ دی جاچکی اب ان کے گرد شکنجہ کسنا ناگزیر ہے۔ تمام ہی سرکاری اداروں سے بدعنوان لوگوں کا صفایا کیا جائے، مالی و انتظامی بے ضابطگیوں میں ملوث عناصر کے خلاف کڑی قانونی چارہ ممکن بنائی جائے۔ رشوت ستانی کے خلاف عوام میں شعور بیدار کیا جائے۔ سرکاری اداروں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے انقلابی اقدامات بروئے کار لائے جائیں، اُن میں اچھی شہرت کے حامل ایمان دار افراد کو کلیدی عہدے تفویض کیے جائیں۔ درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم ضرور مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔