ColumnRoshan Lal

ہمارے اینٹی اسٹیبلشمنٹ یو ٹیوبرز

تحریر : روشن لعل
بعض لوگ یہ تاثر دینے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ آج اگر پاکستان میں کوئی حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہ گیا ہے تو وہ چند یو ٹیوبر ہیں۔ جن یوٹیوبرز کا نام لے کر انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر ان کے وی لاگز دیکھے جائیں تو وہ ایسے دعوئوں اور نقطہ نظر کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر بے رحم تنقید کرتی نظر آتے ہیں جنہیں سچ اور جواز کی کسوٹی پر پرکھنا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ وطن عزیز میں جس وجود کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہی اس کا کردار یہاں نہ ماضی میں قابل جواز رہا اور نہ ہی حال میں قابل تحسین تصور کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ناقابل تحسین کردار کی وجہ سے اسے تسلسل کے ساتھ تنقید کی زد میں لانے والے لوگ نامساعد حالات کے باوجود یہاں ہر دورمیں متحرک نظر آئے ۔ان لوگوں کی یہ خاصیت رہی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی معاملات میں غیر واجب عمل دخل کو تو کسی لگی لپٹی کے بغیر ہر دور میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے لیکن انہوں نے اس وجود کی ضرورت پر کبھی سوالیہ نشان نہیں اٹھایا جس کے لیے ’’ اسٹیبلشمنٹ ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ جو لوگ عرصہ دراز سے اسٹیبلشمنٹ کے غیر واجب سیاسی کردار پر تنقید کرتے آرہے ہیں ان کے ایسے یو ٹیوبرز کے نقطہ نظر، رویوں اور دعووں پر بھی تحفظات ہیں جو ماضی قریب تک تو اسٹیبلشمنٹ کے متنازعہ ترین ثابت ہو چکے لوگوں کی گود میں بیٹھ کر پرورش پاتے رہے لیکن اب ان کی خواہش ہی کہ موجودہ دور میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اچانک ظاہر ہونے والے ان کے سنسنی خیز کردار کی وجہ سے انہیں اچانک اس دور کا سب بڑا اینٹی اسٹیبلشمنٹ تسلیم کر لیا جائے۔ مذکورہ یو ٹیوبرز کو موجودہ دور کا سب سے بڑا اینٹی اسٹیبلشمنٹ تو تسلیم نہیں کیا جاسکتا لیکن اس بات سی انکار بھی ممکن نہیں کہ گھر کے بھیدی ان یو ٹیوبرز کی تنقید کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اپنا روایتی غیر سیاسی کردار آسانی سے ادا نہیں کر پارہی ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو یو ٹیوبر اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں ان کے ساتھ مزید ایسا کردار ادا جاری رکھنے کی توقعات کیوں وابستہ نہیں کی جا سکتیں ۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو یو ٹیوبر کسی واضح نظریاتی تبدیلی کے بغیر اچانک اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنے ہیں ، کچھ بعید نہیں کہ وہ پلٹ کر پھر سے اچانک اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے حامی بن جائیں۔ جن یوٹیوبرز کے متعلق اس قسم کے شکوک و شبہات موجود ہوں انہیں کیسے یکایک مرحومہ عاصمہ جہانگیر جیسا اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھاجاسکتا ہے۔
عاصمہ جہانگیرکو 1970ء کی دہائی سے ان کے انتقال تک ملک کا غیر متنازعہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ تسلیم کیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر کے متعلق یہ خیال عام ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی مخالفت ، آئین کی سر بلندی ، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور مجموعی انسانی حقوق سے متعلق قوانین کے نفاذ کے لیے جدوجہد ہی ان کی زندگی کا کل تھا۔ قانون کی بالادستی کے لیے عاصمہ کی جدوجہد کا سفر ان کے زمانہ طالب علمی سے شروع ہوا تھا۔ اس بات کی گواہی PLD1972میں درج پاکستان کی عدالتی تاریخ کا مشہور زمانہ کیس، عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب ہے ۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں قانون کی بالادستی کی جدوجہد کے دوران گرفتار کی گئی عاصمہ نے بعد ازاں اس سفر میں کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا مارشل لاء کا زمانہ ہو یا جمہوری دور، عاصمہ نے اپنی جدوجہد اتنی بے باکی سے کی کہ انہیں بسا اوقات جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اپنی زندگی میں ابھرنے والی انسانی حقوق کی ہر تحریک میں بھر پور حصہ لینے والی عاصمہ نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ہوا کا رخ دیکھ کر کوئی موقف اختیار نہیں کیا تھا بلکہ ہمیشہ اپنے قول اور فعل سے وہ کچھ ثابت کرنے کی کوشش کی جسے انصاف کے تقاضوں کے مطابق حق اور سچ سمجھا۔ عاصمہ جہانگیر اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ کردار1970ء کی دہائی کے اوائل سے آخری دم تک کسی شخصیت کی عقیدت میں نہیں بلکہ نظریاتی طور پر بلا تعصب اور غیر جانبداری سے ادا کرتی رہیں ۔ ماضی میں عاصمہ جہانگیر جب اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے خلاف آواز اٹھایا کرتی تھیں ، کیا آج کے مبینہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ یوٹیوبر ز میں کبھی کوئی ان کی حمایت کرتا نظر آیا تھا۔ جب عاصمہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی مخالفت کیا کرتی تھیں یہ یو ٹیوبر ان دنوں عاصمہ پر برتری کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی جدوجہد کیا کرتے تھے۔ آج کے نام نہاد اینٹی اسٹیبلشمنٹ یو ٹیوبرز کے عاصمہ جیسے حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ لوگوں پر دشنام طرازی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ ان یوٹیوبرز کے متعلق مشہور ہے کہ عاصمہ جیسے لوگوں پر دشنام طرازی کے لیے ایجنسیاں خاص حکمت عملی کے تحت انہیں ان کی قابلیت سے کہیں زیادہ معاوضوں پر صحافیوں کی حیثیت سے میڈیا میں خاص مقام دلوانے کا انتظام کیا کرتی تھیں۔ اگر کسی کو بڑے بڑے صحافیوں کے ایجنسیوں کے پے رول پر ہونے پر شک ہے تو وہ دیئے گئے لنک (https://www.youtube.com
/watch?v=juzieonPw98) پر ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈئیر ریٹائرڈ حامد سعید کا یہ بیان سن لے جس میں انہوں نے بتایا کہ معروف سینئر صحافی کامران خان ان کے پے رول پر ہوا کرتے تھے۔ بریگیڈئیر ریٹائرڈ حامد سعید کا، کامران خان سے متعلق دیا گیا بیان یو ٹیوب پر گزشتہ گیارہ برس سے موجود ہے ، حیرت ہے کہ کامران خان نے خود پر لگائے گئے پیشہ ورانہ خیانت اور بدعنوانی کے الزام کی تو کبھی وضاحت نہیں کی لیکن دوسروں پر بدعنوانیوں کے بے سروپا الزام لگانے کا کام وہ اب بھی اسی زمانے کی طرح کر رہے ہیں جس زمانے میں وہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید کے مطابق ان کے پے رول پر تھے۔ یہاں ہمارا موضوع بحث کامران خان کا کسی پے رول پر ہونا نہیں بلکہ موجودہ دور کے مبینہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ یو ٹیوبرز ہیں، کامران خان کی مثال یہاں پیش کرنی کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے آج خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہنے والے یوٹیوبرز کا تعلق ماضی میں ایجنسیوں سے ویسا ہی رہا جیسا کبھی کامران خان کا ہوا کرتا تھا۔ آج کے ایک مبینہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ یو ٹیوبر عمران ریاض کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایجنسیوں کے لوگ خاص طور پر انہیں عمران خان کے مخالفوں کی کرپشن پر مبنی دستاویزات دکھانے کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ جس تعلق کے تحت ایجنسیاں کامران خان پر مہربان رہیں اسی قسم کے تعلق کی بنا پر عمران ریاض کو عمران خان مخالف سیاستدانوں پر بدعنوانی کے الزامات سے متعلقہ دستاویزات دکھائی جاتی تھیں۔ چاہے کامران خان ہو یا کوئی اور ایجنسیوں کے ساتھ ان کا تعلق مالی مفاد ات کے حصول کا تھا۔ جن یو ٹیوبرز کے مالی مفادات کبھی ایجنسیوں کے پے رول پر رہتے ہوئے کام کرنے سے جڑے تھے آج ان کے لاکھوں روپے کے مالی مفادات یوٹیوب پر پیش کیے جانے والے بے بنیاد پراپیگنڈے سے جڑ چکے ہیں ۔ جو لوگ دنیا کو اپنی مالی منفعت کی عینک سے دیکھتے ہیں ان کے عمل سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ نہ وہ کل فکری طور اسٹیبلشمنٹ کے حامی تھے اور نہ انہیں آج اسٹیبلشمنٹ کا نظریاتی مخالف سمجھا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button