Editorial

افغانستان دہشتگردوں کیخلاف موثر کارروائی یقینی بنائے

پاکستان اپنے قیام سے دشمنوں کے خاص نشانے پر رہا ہے۔ وہ اس کو نقصان پہنچانے کے مواقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ خود کارروائی کر گزرتے ہیں یا اپنے کاسہ لیسوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ملک میں بدامنی پھیلانا ان کا مطمع نظر رہتا ہے۔ پاکستان 15سال تک دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ کوئی روز ایسا نہیں گزرتا تھا جب ملک میں دہشت گردی کا واقعہ رونما نہ ہوتا ہو۔ درجنوں لوگوں سے حقِ زیست چھین لیا جاتا تھا۔ دہشت گردوں کا جہاں دل چاہتا تھا، وہاں کارروائی کر گزرتے تھے۔ کبھی مساجد کو نشانہ بناتے تھے تو کبھی امام بارگاہ، مندر، گرجا گھر۔ مزاروں میں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے تھے۔ کبھی عوامی مقامات پر حملے اور خودکُش دھماکے کیے جاتے۔ کبھی سیاسی جلسوں کو نشانہ بنایا جاتا تو کبھی سیکیورٹی اداروں پر حملے کیے جاتے تھے۔ غرض کوئی مقام محفوظ نہ تھا۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح کو گھروں سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ شام کو صحیح سلامت لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔ خاصی کرب ناک صورت حال تھی۔ سایوں سے بھی لوگ ڈرتے تھے۔ ڈیڑھ عشرے تک جاری رہنے والی دہشت گردی کے باعث پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچے۔ یہاں سے بڑی تعداد میں سرمایہ کاروں نے بیرون ممالک کا رُخ کیا۔ پاکستان میں ترقی کا سفر رُکا۔ مصائب بڑھے۔ دسمبر 2014میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پیش آیا۔ 150معصوم بچے اور اساتذہ دہشت گرد حملے میں شہید ہوئے۔ اس سانحے پر پوری قوم غم کی شدّت سے نڈھال تھی۔ اس کے بعد دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاک افواج نے ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کا آغاز کیا۔ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردُالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑی گئی۔ اُنہیں اُن کی کمین گاہوں میں گھس کر مارا گیا، کتنے ہی شرپسند ہلاک ہوئے، کتنے ہی گرفتار ہوئے، جو بچ رہے، اُنہوں نے یہاں سے بھاگ جانے میں ہی اپنی بہتری جانی۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی۔ پاکستان نے تن تنہا دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹ کر دُنیا کو انگشت بدنداں ہونے پر مجبور کردیا۔ پاکستان کی دُنیا بھر میں تعریف و توصیف کی گئی۔ عوام نے سُکون کا سانس لیا۔ خوف و ہراس کی فضا چھٹی اور صورت حال معمول پر آنے لگی۔ کچھ سال امن و سکون رہا، اب جب سے افغانستان میں امارات اسلامیہ کی حکومت قائم ہوئی ہے، تب سے پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت نے پھر سے سر اُٹھانا شروع کردیا ہے۔ خاص طور پر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اُن کے قافلوں پر حملے کیے جارہے ہیں، چیک پوسٹوں پر شرپسندی کی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ ان مذموم واقعات میں کئی جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ پاکستان نے پھر سے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کا آغاز کافی پہلے سے کیا ہوا ہے اور متعدد علاقوں کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کرایا جاچکا ہے۔ سرحد پار سے بھی دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں اور وہاں سے آنے والے دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اپنے فرائض سے غافل نہیں اور ان کی پھر سے کمر توڑنے میں مصروف عمل ہے اور اسے بڑی کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ کافی تعداد میں دہشت گرد مارے جاچکے اور مارے جارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈی آئی خان میں دو آپریشنز میں 21دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا تھا۔ اس کی کچھ ہی گھنٹوں بعد دہشت گردوں نے ڈی آئی خان میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 23 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جب کہ تمام کے تمام 6دہشت گردوں کو اس کارروائی میں مارا گیا۔ اس واقعے پر پوری قوم سوگوار تھی۔ اس واقعے میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے کی شواہد پاکستان نے اکٹھے کیے، جنہیں افغانستان کے حوالے کردیا گیا ہے۔اس حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ ڈی آئی خان حملے پر افغانستان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کر کے ملوث کرداروں کو پاکستان کے حوالے کرے، مسئلہ کشمیر کا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں میں ہے، بھارت کشمیریوں کے حقوق سلب کرنے میں مصروف ہے، پاکستان کشمیر مسئلے کے حل کی عالمی سطح پر کوششیں جاری رکھے گا، اسلام آباد میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے ڈی آئی خان حملے کے ثبوت افغان حکام کے حوالے کیے ہیں، افغانستان نے ڈیرہ اسماعیل خان حملے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے، افغانستان اس کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرے، افغان اتھارٹی سے درخواست ہے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کریں، ترجمان نے کہا کہ پاکستان کافی برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور پاکستان حقائق پر مبنی بیانات دیتا ہے، ہماری سیکیورٹی فورسز دہشتگردوں کا نشانہ بن رہی ہیں، ٹی ٹی پی سمیت دہشت گردوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے، لہٰذا افغان عبوری حکومت دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے، ترجمان نے کہا کہ افغانستان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرکے ملوث کرداروں کو پاکستان کے حوالے کرے، پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے ہم افغانستان کے ساتھ مثبت اور دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں، ہم انسانی بنیادوں پر افغانستان میں اپنے بھائیوں کی مدد کو ہمیشہ تیار رہے، ایک سوال کے جواب میں ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی خبروں کی تردید کرتا ہے، ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کوئی مذاکرات نہیں کررہا۔پاکستان نے بالکل صائب مطالبہ کیا ہے۔ افغانستان کی ہر ہر موقع پر پاکستان نے اس کی بھرپور مدد و معاونت کی ہے۔ اب افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال ہورہی ہے تو اس پر افغانستان کی عبوری حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کو یقینی بنانا چاہیے اور ان کا قلع قمع کرنا چاہیے۔ پاکستان نے ہمیشہ اچھے برادر ملک کا کردار نبھایا ہے۔ کچھ ذمے داری اب افغانستان کی بھی بنتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مدد و معاونت کرے اور اپنے ہاں سے ایسے عناصر کا مکمل خاتمہ کرے جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ افغانستان کو اب صرف باتوں کی حد تک نہیں رہنا، بلکہ اس حوالے سے عملی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔
ڈاکٹرز ہڑتال کے بجائے علاج کریں
ہڑتالیں کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتیں، ان سے مسائل ہی جنم لیتے اور مشکلات بڑھتی ہیں۔ نقصانات الگ سامنے آتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد ہڑتالوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوتی ہے۔ عوام کا اس میں کوئی قصور نہیں ہوتا، لیکن سب سے زیادہ خمیازہ اُنہیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے، اس کا مناسب طریقہ ایسا ہے کہ دوسرے لوگ اس سے متاثر نہ ہوں، اس کے لیے کسی میدان کا انتخاب کیا جائے تو سب سے بہتر رہتا ہے، لیکن یہاں خلق خدا کی مشکلات بڑھا کر احتجاج کرنے و دھرنے دینے کی ریت خاصی مضبوط ہے۔ اسی لیے سڑکیں بلاک کردی جاتی ہے۔ سڑکوں پر ٹائر جلائے جاتے ہیں۔ اس طرز عمل سے لوگوں کو بے پناہ مصائب برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ طب مقدس پیشہ ہے اور اس سے وابستہ ہر فرد انسانیت کی خدمت میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ افسوس سی کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز کے مختلف شہروں میں آئے روز ڈاکٹرز ہڑتال پر ہوتے ہیں، جس سے مریضوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض مریض بیماری کی سنگین نوعیت کے سبب داعیٔ اجل کو لبیک کہہ ڈالتے ہیں۔ پچھلے 18روز سے پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں، او پی ڈی بند ہونے سے مریضوں کے لیے پچھلے ڈھائی ہفتے کسی بدترین اذیت سے کم نہیں گزرے ہیں۔ اس حوالے سے ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ینگ ڈاکٹرز کی ہٹ دھرمی برقرار، اسپتالوں کی او پی ڈی 18روز سے بند ہے، جس کی وجہ سے مریض شدید اذیت سے دوچار ہیں۔ ینگ ڈاکٹروں کی بے حسی کے باعث اسپتالوں کی او پی ڈی 18روز سے بند ہے۔ وائے ڈی اے کی ہٹ دھرمی کا خمیازہ مریضوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے، او پی ڈی بند ہونے سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے ایم آر آئی، ایکسرے اور سی ٹی اسکین رُک گئے جبکہ ناک، آنکھ اور دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کے آپریشن بھی متاثر ہورہے ہیں۔ واضح رہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اسپتالوں کی او پی ڈیز بند ہیں بلکہ ماضی میں بھی ڈاکٹرز بارہا ایسی حرکت کرتے رہے ہیں، ڈاکٹروں کی ہڑتال کے سبب بے چارے غریب مریض بے بسی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر ہے۔ ڈاکٹرز مسیحا کا سا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا کام لوگوں کی زندگیاں بچانا ہے۔ یہ انسانیت کی عظیم ترین خدمت شمار ہوتی ہے اور طب مقدس ترین پیشہ قرار پاتا ہے۔ دین میں ایک انسان کی زندگی بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ہم ان سطور کے ذریعے کہنا چاہیں گے کہ مسیحا ہڑتالوں کے بجائے مریضوں کے علاج پر تمام تر توجہ مرکوز رکھیں۔ اگر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن اس سے مریض اور عوام الناس متاثر نہ ہوں۔ اس کے لیے کسی کھلے میدان کا انتخاب کرلیا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔ دوسری جانب حکومت بھی ان کے مسائل سنے اور اگر مطالبات جائز ہیں تو اُنہیں حل کرنے کی جانب پیش قدمی کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button