ColumnImtiaz Aasi

نو مئی کے ملزمان اور دہشت گرد

امتیاز عاصی
اس وقت حکومت کی نظریں سانحہ نو مئی میں ملوث ان لوگوں کو سزائیں دینے پر مرکوز ہیں جنہوں نے فوجی تنصیبات اور شہد ا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا تھا۔ نومئی کے واقعہ میں ملوث افراد کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونے کو تھا کہ عدالت عظمیٰ نے مقدمات کی سماعت کو روکنے کا حکم جاری کر دیا۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کر دی جس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے چار ایک سے فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت روکنے کے حکم کو معطل کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت آئندہ سال جنوری کے تیسرے ہفتے میں کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ عام طور پر ملزم فریق کا کسی معزز جج پر اعتراض ہو تو ایسے جج صاحبان اس بینچ کا حصہ بننے سے انکار کر دیتے ہیں یہاں تو صورت حال مختلف ہے ایک جج صاحب پر اعتراض ہوا تو انہوں نے بینچ سے علیحدہ ہونے سے انکار کر دیا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے ہمارا ملک اس وقت دہشت گردی کی لیپٹ میں ہے ۔ ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی کے آئے روز واقعات میں بے شمار سیکورٹی اہل کاروں نے وطن عزیز کی حفاظت میں جام شہادت نوش کیا ۔ جہاں تک اس ناچیز کی معلومات کا تعلق ہے سانحہ نو مئی کے ملزمان کو قانون میں دی گئی بڑی سزا تو شائد نہ ہو البتہ انہیں ان کے جرم کے مطابق سزائیں تو ضرور ہوں گی اور ہونی بھی چاہئیں۔ تعجب تو اس پر ہے کہ وہ افراد جو ماضی میں دہشت گردی میں ملوث رہے جن کی تعداد دو سو سے زائد ہے اور موت کی سزائوں کے منتظر ہیں۔ یہ وہی افراد ہیں جو سیکیورٹی اداروں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانے میں ملوث ہیں اور عدالتوں سے انہیں موت کی سزائیں ہو چکی ہیں۔ عجیب تماشا ہے ایک طرف سانحہ نو مئی میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کی حکومت کو جلدی ہے اور دوسری طرف وہ دہشت گرد جو موت کی سزائوں کے منتظر ہیں انہیں ساہیوال کی ہائی سیکیورٹی جیل میں مہمان بنا رکھا ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے موت کی سزا پر عمل درآمد روکنے کے لئے یورپی یونین کا ہم پر ہمیشہ دبائو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی کے فلور پر موت کے سزائوں کو عمر قید میں بدلنے کا اعلان کیا تو ملک کی جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بلاشبہ جس شخص کو موت دکھائی دے رہی ہو اور اسے اچانک اس بات کا علم ہو اس کی موت کی سزا کو ختم کیا جا رہا ہے تو اس سے بڑی اور کوئی خوش خبری موت کے منتظر قیدیوں کے لئے اور کیا ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے موت کی سزائوں پر عمل درآمد روکے رکھا لیکن ایوان میں سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد نہ ہونے سے سزائے موت کے قانون کو عمر قید میں نہیں بدلا جا سکا۔ اس دوران پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سانحہ نے حکومت کو سزائے موت پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کر دیا۔ ملکی تاریخ میں ریکارڈ تعداد میں سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دی گئی۔ عجیب تماشا ہے مغربی اور اسلامی ملکوں میں موت کی سزائوں پر باقاعدگی سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ ایک ہمارا ملک ہے جسے نہ جانے پورپی یونین کا کیا دبائو ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے موت کی سزائوں کے منتظر دہشت گردوں کے قیام اور طعام پر ریاست کے کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ ساہی وال کی ہائی سیکورٹی جیل جہاں ان دہشت گردوں کو رکھا گیا ہے پنجاب حکومت کو جیل ملازمین کو تنخواہوں کے علاوہ خصوصی الائونس دنیا پڑتا ہے۔ یہ تو جیل ملازمین ہیں جن پر قومی خزانے کا کتنا سرمایہ خرچ ہو رہا ہے ان کے علاوہ سیکورٹی اور خفیہ اداروں کے بے شمار ملازمین وہاں تعینات ہیں ان پر کتنا سرمایہ خرچ ہو رہا ہوگا۔ صدر مملکت عارف علوی کو موت کے منتظر دہشت گردوں کی اپیلوں کا جلد فیصلہ کرنا چاہیے۔ تعجب ہے بعض حضرات کا موقف ہے فوجی عدالتوں کے مقابلے میں عام عدالتوں کے جج دہشت گردوں کو سزائیں دینے سے لیت و لعل کرتے ہیں حالانکہ ان کا یہ موقف درست نہیں۔ ساہیوال کی ہائی سیکیورٹی جیل میں سزائے موت اور عمر قید کے جو مجرمان ہیں ان میں سے بہت مجرمان کو فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئی ہیں۔ ہائی سیکورٹی جیل میں مجرمان کو دہشت گردی کی عدالتوں سے موت اور عمر قید کی سزائیں ہوئی ہیں لہذا ہم ان حضرات کے اس موقف کو مسترد کرتے ہیں عام عدالتیں دہشت گردوں کو سزائیں دینے سے گریز کرتی ہیں ساہیوال کی ہائی سیکیورٹی جیل میں ساٹھ فیصد دہشت گرد ایسے ہیں جنہیں دہشت گردی کی عدالتوں نے سزائیں دی ہیں۔ اس وقت ہائی سیکورٹی جیل میں ایم کیو ایم کے عمران فاروق قتل کے مجرمان کے علاوہ اسامہ بن لادن کیس کے مجرم ڈاکٹر شکیل آفریدی کے علاوہ ایک آرمی چیف کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کرنے والے ایک سابق جنرل کا بیٹا سید رضا عمر قید کی سزا بھگت رہا ہے۔ ہائی سیکیورٹی جیل کو تین مختلف سیکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے ہر سیکٹر کے ساتھ ایسوسی ایٹ بیرک ہے جہاں اس وقت کوئی قیدی نہیں ہے۔ چاروں صوبوں کی عدالتوں سے سزایاب ہونے والوں کو انفرادی سیلوں میں رکھا گیا ہے جہاں سے انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اسی جیل میں ملک کے منافی سرگرمیوں میں ملوث وہ مجرمان ہیں جنہیں فوجی عدالتوں کی طرف سے سزائیں دی گئی ہیں۔ ہم سانحہ نو مئی میں ملوث ملزمان کے فوجی ٹرائل پر معترض نہیں ہیں ملکی قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے تو انہیں سزائیں دینے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ فوجی عدالتوں سے سزایاب ہونے والوں کو اپیل کا حق دیا جا تا ہے جیسا کہ سانحہ نو مئی کے ملزمان بارے حکومت نے اعلان کیا تھا انہیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق ہوگا۔ بہرکیف سانحہ نو مئی اور دہشت گردی میں موت کی سزا پانے والوں کو موازنہ کیا جائے تو حکومت کو ہائی سیکورٹی جیل میں موت کی سزا کے منتظر دہشت گردوں کی سزائوں پر عمل درآمد کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button