ColumnFayyaz Malik

دو دن مظفر گڑھ میں

فیاض ملک
مظفر گڑھ، جس کا پرانا نام موسن دی ہٹی تھا، ہٹی ( دکان) چناب سے ڈیرہ غازی خان جاتے ہوئے راستہ میں تھی جہاں سے مسافر خوردونوش کی اشیاء لیتے تھے اور رات کو وہاں قیام کرتے تھے مالک کا نام موسن تھا اسلئے دکان کا نام موسن دی ہٹی تھی، نواب محمد مظفر خاں نے اس ہٹی سے نصف میل کے فاصلہ پر 1798میں قلعہ تعمیر کروایا پھر شہر آباد ہو گیا اس طرح قلعہ اور شہر مظفر گڑھ کی بنیاد رکھی گئی، سلطنت دہلی اور مغلیہ سلطنت کے ادوار میں مظفر گڑھ مسلم اکثریتی علاقہ رہا، جس کی وجہ اس وقت بھی اس علاقے میں موجود مبلغین اور صوفیائے کرام تھے، جن کی درگاہیں آج بھی وہاں موجود ہیں۔ مغل سلطنت کے زوال کے بعد سکھوں نے ضلع مظفر گڑھ فتح کیا۔ 1848میں برطانوی راج نے یہاں کی حکومت سنبھالی،1864میں یہ ضلع مظفر گڑھ کا صدر مقام بن گیا اس جگہ کو ’ کالا پانی‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ جگہ دو دریائوں دریائے سندھ اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے۔ برطانوی دور میں اسے پلوں کے ذریعے مضافاتی علاقوں سے ملایا گیا۔
پاکستان کی تحریک آزادی کے دوران اس علاقے کے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی حمایت کی،1947میں جب پاکستان کو آزادی ملی تو اس علاقے کے ہندو اور سکھ بھارت ہجرت کر گئے جب بھارت سے آنے والے مسلمان مہاجرین مظفر گڑھ کے علاقے میں بھی رہائش پذیر ہوئے، جغرافیائی طور پر مظفر گڑھ تقریباً پاکستان کے بالکل وسط میں واقع ہے اس کا قریب ترین بڑا شہر ملتان ہے۔ شہر میں ہموار دریائی میدان بھی ہیں جو آموں اور ترشاوہ درختوں کے باغات کیلئے مثالی ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 39واں بڑا شہر ہے جسکی پانچ تحصیل ہیں جن میں مظفر گڑھ، علی پور، جتوئی، چوک سرور شہید اور کوٹ ادو شامل ہیں، ضلع مظفر گڑھ میں عمومی طور پر سرائیکی(j86.3)، بلوچی، پنجابی(j7.4)، رانگڑی اور اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 8249 مربع کلومیٹر ہے، دو دریائوں کے سنگم پر واقع اس ضلع کی زمین بہت زرخیز ہے، اس کی زرعی پیداوار میں آم، کپاس، گندم، چنا، چاول، جیوٹ اور کماد شامل ہیں، جبکہ ضلع میں تین شوگر ملز لگائی جا چکی ہیں دیگر صنعتوں میں ٹیکسٹائل اور جیوٹ انڈسٹری کو کافی فروغ حاصل ہے اس ضلع میں قومی اسمبلی کی چھ نشستیں اور پنجاب اسمبلی کی 12نشستیں ہیں، جبکہ یہاں سے تعلق رکھنے والے بہت سے سیاست دانوں نے شہرت پائی، جن میں مغربی پاکستان کے سابق گورنر مشتاق احمد گورمانی، نوابزادہ نصر اللہ خان، غلام مصطفی کھر، حنا ربانی کھر، ڈاکٹر سہیل عالم حماد نواز خان ٹیپو، قدوس نواز خان محمد خان، سردار عبد القیوم خان، نصرللہ خان جتوئی، مخدوم سید عبد للہ شاہ بخاری، مخدوم سید ہارون سلطان بخاری اور جمشید احمد خان دستی شامل ہیں، جبکہ مختاراں مائی، گلوکار پٹھانے خان، بھارتی کھلاڑی ملکھا سنگھ کا بھی تعلق اس شہر سے ہے، اسی طرح مظفر گڑھ کی صحافت میں اعجاز رسول بھٹہ ، ملک تحسین بدھ، اے بی مجاہد، شیخ کاشف نذیر اور محمد عدنان مجتبیٰ کے نام قابل ذکر ہیں، گزشتہ دنوں میں ضلع مظفر گڑھ گیا جہاں میں نے وہاں پر مختلف تھانوں کیساتھ ساتھ ڈی پی او آفس میں سائلین کی جانب سے موصول ہونیوالی شکایات پر افسران کی جانب سے کارروائیوں کا سسٹم بھی دیکھا، آٹھ اضلاع کی وسط میں واقع 24 تھانوں پر مشتمل اس ضلع میں جہاں دیگر شعبوں میں ہونے والی ترقی سامنے آئی وہی یہاں کی پولیس اور اس کے ورکنگ کے سسٹم نے بھی خاصا متاثر کیا ،اس میں کوئی شک نہیں کہ مظفر گڑھ ایک حساس ضلع ہے جسکی کمانڈ کرنے والے سید حسنین حیدر اپنی پوسٹنگ کے بعد سب سے پہلے جو اچھا کام کیا وہ تمام افسران کے دفاتر میں سے چٹ سسٹم کا خاتمہ ہی جس کے بعد عام شہری کی ہر پولیس افسر تک پہنچنے کی رسائی آسان ہوگئی ، اگر اس شہر کی پولیسنگ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوا کہ مظفر گڑھ میں موجودہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سید حسنین حیدر نے یہاں کے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے نا صرف عملی اقدامات کئے بلکہ عملی طور پر دور دراز کے علاقوں میں جا کر کھلی کچہریاں لگا کر شہریوں کے مسائل حل کرنے پر خصوصی توجہ دی، اس نوجوان پولیس آفیسر نے تھانوں کی سطح پر بیٹ سسٹم کو فوری فعال کیا اور گشت کے نظام کو مزید موثر بنانے کیلئے آن لائن ٹریکنگ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کیا، شہر میں کرائم کو کنٹرول کرنے کیلئے پٹرولنگ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے فعال کرنے کیلئے ہر تھانہ میں کانسٹیبل سے آفیسر تک کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اینٹی ویمن ہراسمنٹ سیل بھر پور انداز میں فعال کیا، ڈی پی او آفس کے ساتھ ساتھ تھانے کی ہی سطح پر مصالحتی کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ معمولی نوعیت کے مقدمات کی شرح میں کمی لائی جاسکے جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی ہوئی ہیں، تھانہ کلچر میں بہتری لانے اور کیمونٹی پولیسنگ کے تحت پولیس اور عوام کے درمیان روابط کو بہتر بنانے کیلئے بطور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سید حسنین حیدر بھرپور محنت کر رہے ہیں، ضلع میں موجود تھانوں کی حالت کو بھی ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنایا گیا، اسی طرح پولیس لائن اور دور دراز کے تھانوں میں تعینات پولیس افسران اور اہلکاروں کیلئے فری ڈسپنسری ، یوٹیلیٹی سٹور، میس کی اوور ہالنگ اور فرنیچر کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا، پولیس ملازمین کے کرونا، ہیپا ٹائٹس اور دیگر بیماریوں کے ٹیسٹ کرانے کے ساتھ ساتھ انہیں مفت علاج کی بہترین سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈی پی او سید حسنین حیدر نے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی طور پر کام کرتے ہوئے روایتی تھانہ کلچر کو تبدیل کیا ہے، اب یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مظفر گڑھ جیسے ضلع کی پولیسنگ میں جدت آسکتی ہے تو بڑے اضلاع اس میں اب تک خاطر خواہ کامیابی کیوں نہیں حاصل کر سکے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ڈسٹرکٹ اور ریجن کی سطح پر تعینات افسران بیان بازی کرنے کی بجائے عملی طور پر اقدامات کریں تو یقینا کرائم میں واضح طور پر کمی آسکتی ہیں، میری اس تحریر کا مقصد پولیس افسران کی، مدح سرائی، کرنا نہیں، مگر جہاں ہم پولیس کی ناقص کارکردگی پر تنقید کرتے ہے وہی بحیثیت صحافی میرے فرائض میں شامل ہے کہ میں اس کی اچھی کارکردگی اور عوام دوست اقدامات کی بھی کھلے الفاظ میں تعریف کرو، عموما ہمارے طبقے میں اگر کوئی پولیس کی تعریف کریں تو اس کو فورا سے پیشتر ٹائوٹ اور خوشامدی کا خطاب دیا جاتا ہیں ، پتہ نہیں کیوں ہم بحیثیت قوم تنقید برائے اصلاح کی بجائے تنقید برائے تنقید کرنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں، پتہ نہیں کیوں ہم پولیس کے اچھے کام کرنے اور عوام کو ریلیف دینے والے افسران کو بھی اچھا کیوں نہیں سمجھتے، خیر چھوڑے یہ بھی ایک لاحاصل قسم کی بحث ہے جس کا شاید ہی کوئی نتیجہ نکل سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button