Column

وزارت عظمیٰ کا سوال ہے بابا

میاں اشرف کمالوی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آج کل ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تواتر کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ کسی کو دوسری تیسری یا چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنانے کی بجائے بہتر ہے کہ ان کے یعنی بلاول بھٹو کے سر پر وزارت عظمیٰ کا ہما بٹھا دیا جائے۔ وہ ایک نئی سیاست کو متعارف کرانا چاہتے ہیں، کیونکہ ملک کی سب سے بڑی دشمن پرانی سیاست ہے، پرانے سیاستدان آج کی سوچتے ہیں نہ مستقبل کی، پرانے سیاست دانوں اور سیاست کو گھر بٹھا دینا چاہیے، ستر سالہ بابوں سے ملک کی جان چھڑوائی جائے، اور یہ کہ مہنگائی اور غربت روکنے کا ان کے پاس ایک بڑا منصوبہ موجود ہے، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ان کے ساتھ چلنا ہوگا۔ بند کمروں میں وزیراعظم کی سلیکشن ترقی کی دشمن ہے، جسے عوام کبھی قبول نہیں کریں گے۔ ان کی کسی سے سیاسی مخالفت نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی مخالف مہنگائی، بے روزگاری اور غربت ہے، جس سے نپٹنے کے لیے وہ بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ میں اضافہ کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی دگنی کر دیں گے۔ ان کے پاس نظریہ اور منشور ہے، اور یہ کہ اگلی حکومت پی پی کی ہوگی۔ جہاں تک کسی کو دوسری تیسری یا چوتھی بار وزیراعظم بنانے اور ستر سالہ بابوں سے ملک کی جان چھڑوانے کا تعلق ہے، تو ہم بلاول بھٹو زرداری کی اس بات سے تو مکمل اتفاق رکھتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی یا بڑی سے بڑی سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے پنتیس سے چالیس سال تک عمر کی ایک حد مقرر ہے اور ملازمت جوائن کرنے سے پہلے کامیاب امیدواروں سے ان کا میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ لیا جانا قانون کا تقاضا ہے اور یہ لیا بھی جاتا ہے۔ پھر ان سرکاری ملازمین کو ساٹھ سے پینسٹھ سال کی عمر کے بعد ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کس قدر حیرت و افسوس کی بات ہے کہ وہ لوگ جو ملک کا نظم و نسق چلاتے ہیں، انتظامیہ کے بڑے بڑے سیاسی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ٹھہرتے ہیں اور ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں، ان کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر ہی اور نہ ہی میڈیکل فٹنس کی کوئی شرط۔ اپنے اثر و رسوخ اور دولت کی فراوانی کے باعث وہ بار بار اقتدار میں آتے ہیں، باریاں بدل بدل کر اقتدار کے مختلف عہدوں کے جھولے جھولتے ہیں، مبینہ طور پر قومی خزانہ لوٹتے ہیں، اپنی سکیورٹی، پروٹوکول اور بیرونی سیر سپاٹوں پر قوم کی دولت باپ کا مال سمجھ کر بے تحاشہ لٹاتے ہیں، ان کے دور اقتدار میں ان کے ذاتی کاروبار کبھی خسارے کا شکار نہیں ہوتے اور کوئی قومی پروجیکٹ کبھی منافع میں نہیں جاتا۔ قومی خزانے پر داد عیش دیتے ہوئے اقتدار کی مدت ختم ہونے کے بعد بیرون ملک بنائے گئے اپنے محلات اور جائیدادوں میں جا کر اس وقت تک مبینہ طور پر قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے عیاشیاں کرتے ہیں، جب تک کہ ان کو اگلے الیکشن میں کامیاب و کامران ہو کر ملک و قوم کی مزید تباہی و بربادی کا سامان کرنے کی یقین دہانی نہ کرا دی جائے۔ لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آئین و قوانین میں کچھ دور رس ترامیم کرنا وقت کی ضرورت اور پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ کسی بھی ایسے شخص کو سیاست میں حصہ لینے، کسی سیاسی جماعت کا قائد یا کوئی بھی عہدے دار بننے، حتی کہ یونین کونسل ممبر سے لے کر قومی و صوبائی اسمبلیوں و سینٹ کا رکن منتخب ہونے کے لیے نااہل قرار دیا جائے، جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم یا پینسٹھ سال سے زیادہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹیوں کو خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بنانے کی بھی سختی سے حوصلہ شکنی بلکہ آئینی ممانعت ہونی چاہیے ۔ باپ، بیٹا، بیٹی، بھائی یا بیوی کو بیک وقت جماعت یا حکومت کے کلیدی عہدوں پر فائز نہ ہونے دینے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ ہر اس شخص پر بھی الیکشن لڑنے کی پابندی ہونی چاہیے، جس کی کسی طرح کی بھی کوئی جائیداد یا بینک بیلنس بیرونی ممالک میں موجود ہو۔ امریکہ کی طرح کسی بھی شخص پر دو بار سے زیادہ ملک کا صدر، وزیر اعظم، وزیراعلیٰ یا گورنر بننے پر آئینی پابندی عائد ہونی چاہیے۔ اس وقت ملکی سیاست میں تمام سیاسی جماعتوں سے متعلق جتنے بھی ستر سالہ بابے موجود ہیں، انہوں نے واقعی اس ملک پر کئی کئی بار حکمرانی کرنے کے باوجود، عوام کی فلاح و بہبود، خوشحالی، صحت، تعلیم، فراہمی روزگار و انصاف، قیام امن و امان اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے، واقعی کچھ نہیں کیا۔ ان کی اپنی دولت ان کے اقتدار میں آنے کے وقت سے لے کر اب تک سیکڑوں گنا بڑھ چکی ہے، لیکن ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور آئی ایم ایف نے اپنی شرائط پر اس ملک کو وینٹی لیٹر پر ڈال رکھا ہے۔ ان بابوں نے چالیس سالوں میں کوئی ایسا بڑا پراجیکٹ مکمل نہیں کیا، جس میں انہوں نے اپنی مرضی کا کمیشن نہ کھایا ہو۔ ان بابوں میں تقریبا سبھی پارٹیوں کے بابے شامل ہیں۔ لہذا اب واقعی وہ وقت آ گیا ہے کہ بلاول بھٹو کے الفاظ میں ان بابوں کو ان کے گھروں میں بٹھا دیا جائے۔ ملک میں ایسے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ، پڑھے لکھے، باصلاحیت نوجوانوں کی ہرگز کوئی کمی نہیں بلکہ بہتات ہے، جو اس کنگال ملک کا نظم و نسق اب بھی، ان بابوں سے ہزار گنا زیادہ بہتر طور پر چلا بھی سکتے ہیں اور سنبھال بھی سکتے ہیں۔ ضرورت صرف الیکشن قوانین میں اصلاحات کی ہے۔ الیکشن میں کروڑوں کا خرچہ کرنے کی جو روایت ان سرمایہ داروں، جاگیرداروں، گدی نشینوں اور بار بار باریاں بدل کر ملک کو لوٹنے والے حکمرانوں نے ڈال رکھی ہے، اس کو سخت ترین قوانین بنا کر ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں تک بلاول بھٹو زرداری کی اس بات کا تعلق ہے کہ ان کے پاس مہنگائی، بے روزگاری اور غربت پر قابو پانے کا منصوبہ موجود ہے، تو اس طرح کا دعویٰ نون لیگ بھی کر رہی ہے، بلکہ ن لیگ والے تو یوں کہہ رہے ہیں کہ صرف نواز شریف کے پاس ہی ایک ایسا فارمولا ہے کہ وہ برسر اقتدار آتے ہی اپنے پی ڈی ایم دور حکومت کے پیدا کردہ مسائل، مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کر دیں گے۔ جو وہ اپنے تین سابقہ ادوار میں اس لئے نہیں کر سکے کہ یہ فارمولا بعد میں انہوں نے دوران خود اختیار کردہ جلاوطنی دریافت کیا ہے اور اس کو انہوں نے ابھی تک اس لئے سات پردوں میں چھپا کر رکھا ہے کیونکہ اس کی باقاعدہ تقریب رونمائی ان کے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی کی جائے گی۔ ہم حیران ہیں کہ جب بلاول بھٹو اور شہباز شریف سولہ ماہ تک ایک ساتھ حکومت میں رہے ہیں۔، جس دوران وہ ایک دوسرے کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملایا کرتے تھے، بلاول بھٹو اور نواز شریف نے شہباز شریف کو، مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی چکی میں پستے ہوئے عوام کی تقدیر بدل کر چار چاند لگانے والے اس عظیم منصوبے یا فارمولے کی ہوا تک کیوں نہیں لگنے دی۔ سولہ ماہ اسی پی ڈی ایم نے مہنگائی غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں عوام کا جینا دوبھر کیے رکھا، ان کی سولہ ماہ کی بد ترین مشترکہ حکومت نے ہر زاویے سے عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا، لیکن نواز شریف اور بلاول عوام کی حالت سدھارنے والے اپنے اپنے منصوبوں کو شہباز شریف حکومت سے یوں چھپائے رکھا جس طرح ایٹمی سائنس دانوں نے ایٹم بم کا راز چھپا رکھا ہے۔ مگر جناب یہ تو سیدھی سادھی عوام دشمنی ہے۔ اب یہ لوگ الیکشن مہم میں عوام کو ایک بار پھر سبز باغ دکھا کر بیوقوف بنانا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے مزید فرمایا کہ بند کمروں میں وزیر اعظم کی اگر سلیکشن ہوئی تو عوام اس کو قبول نہیں کریں گے۔ اس بے خبر کو کیا معلوم کہ کہاں کے عوام، اور کیسے عوام۔ کیونکہ جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی سازش بند کمروں میں ہو رہی تھی تو عوام اپنے اس مقبول ترین لیڈر کے لیے اس طرح سڑکوں پر نہیں نکلے، جس طرح کہ انہیں نکلنا چاہیے تھا۔ تو اب بھی جس طرح کا ماحول بنایا جا رہا ہے، اس تاثر کو دن بدن گہرا کیا جا رہا ہے کہ آئندہ کے وزیراعظم کا انتخاب ہو چکا ہے۔ وہ بھی کسی کی بڑھتی ہوئی مقولیت کو تسلیم نہ کرنے کا کھلم کھلا اعلان ہے، جس کے سنگین نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہو چکا ہے، جب شیخ مجیب الرحمان پاکستان کا مقبول ترین لیڈر تھا، جس کی جیتی ہوئی نشستوں کی تعداد پاکستان پیپلز پارٹی سے تقریبا دگنا تھی، پورے ملک میں حکومت بنانا صرف اس کا استحقاق تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی صرف اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی تھی۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے ایسا جال بچھایا، جس کا نتیجہ ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی صورت میں برآمد ہوا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بند کمروں میں حکومت بنانے اور بدلنے کے فیصلوں کو نہ شیخ مجیب الرحمان روک سکا نہ عمران خان۔ بلاول بھٹو کے پاس وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ جس سے وہ عوام کی طاقت سے بند کمروں کی سلیکشن کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ شیخ مجیب الرحمان اور عمران خان کی پارٹیوں کے مقابلے میں بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی تو ایک بہت ہی چھوٹی سی جماعت ہے، جو کبھی وفاقی جماعت ضرور ہوا کرتی تھی مگر اب تو وہ اندرون سندھ کی ایک علاقائی پارٹی ہے۔ پھر شیخ مجیب الرحمان اور عمران خان کی عوامی مقبولیت کے سامنے بلاول بھٹو تو دھول میں نظر آ رہا ہے۔ غریب و مجبور عوام تو ابھی تک روٹی کپڑے مکان کے اس نعرے کے زخموں کو چاٹ رہے ہیں، جو بھٹو نے محض ان کے ووٹ ہتھیانے کے لیے لگایا تھا، عوام مہنگائی، بے روزگاری امن و امان اور دیگر معاشی مسائل میں اس بری طرح الجھ چکے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے تو ہرگز تیار نہیں ہوں گے، ہاں چھتر مارنے والوں کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ ضرور کر سکتے ہیں۔ لیکن پھر وہ جلد متوقع الیکشن میں ان چھتر مارنے والوں کو بیلٹ باکس سے نکلنے والے ووٹوں کی طاقت سے سبق ضرور سکھائیں گے۔ بلاول بھٹو کی یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ان کا مقابلہ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے ہوگا۔ جبکہ صرف ان کا ہی نہیں، پوری پی ڈی ایم کا مقابلہ انہی تین چار جان لیوا مسائل سے ہو گا، کیونکہ سولہ ماہ میں پاکستان کی تاریخ کی بدترین حکمرانی میں عوام کا بھرکس نکال دینے کی ذمہ دار صرف نون لیگ اکیلی تو نہیں، اس میں بلاول بھٹو، فضل الرحمن، ایم کیو ایم، باپ پارٹی، محمود خان اچکزائی، آصف علی زرداری، نواز شریف اور دیگر کئی پردہ نشینوں کے بھی نام بھی آتے ہیں۔ جن سب کو الیکشن میں عوامی کٹہرے میں کھڑے ہونا پڑے گا۔ اور اب کی بار عوام ووٹ کی طاقت کے بھرپور استعمال سے ان سب کو نشان عبرت بنانے کے موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔ بیلٹ پیپر پر کسی کا نشان ہو یا نہ ہو، کوئی جیل کے اندر ہو یا باہر، لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس کی عوامی مقبولیت کو چیلنج کرنے والا اس وقت کوئی نہیں ہے، بلاول کی پچگانہ باتیں صرف اسی طرح کے سبز باغ ہیں، جو کہ ہر الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتیں عوام کے ووٹ ہتھیانے کے لیے دکھایا کرتی ہیں۔ تنخواہیں دگنی کرنا ہو یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ بڑھانا وغیرہ، سب الیکشن جیتنے کے حربے ہیں۔ ان لوگوں کو کیا معلوم کہ ایسی سکیمیں اصل حق داروں تک بہت کم پہنچتی ہیں۔ ایم این ایز، ایم پی ایز اور دیگر سرکاری حکام تمام کا تمام فنڈ خرد برد کر جاتے ہیں۔ اگر کسی غریب مزدور کو طویل قطاروں میں لگ کر ذلیل و خوار ہونے کے بعد دو چار ہزار روپیہ ملتا بھی ہے، تو وہ اس کے کتنے دن کام آتا ہوگا۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جب پی ڈی ایم کی حکومت تھی، تو اس وقت یہ کام کیوں نہیں کیے گئے۔ بلاول بھٹو اور اس کے اتحادیوں نے سولہ ماہ کی بیڈ گورنس میں اس غریب و مقروض ملک کا جتنا پیسہ اپنے پروٹوکول اور صفر نتائج کے حامل بیرونی دوروں پر برباد کیا ہے، وہی پیسہ اگر عوامی فلاح و بہبود کے پراجیکٹس پر لگایا جاتا تو غریب عوام کو کافی ریلیف مل سکتا تھا۔ اسی طرح منتوں ترلوں کے ذریعے آئی ایم ایف سے جو قرضہ حاصل کیا گیا، اس کو نون لیگ کی ٹکٹ کے متوقع امیدواروں میں فی کس ایک ایک ارب روپیہ، باپ کی جاگیر سمجھ کر بانٹ دیا گیا۔ آئندہ الیکشن میں بیوروکریسی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بطور رشوت ان کو اربوں کی نئی مہنگی ترین گاڑیاں لے کر دی گئیں، اپنے متوقع ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ایک ایک ارب روپیہ صرف اس امید پر دیا گیا کہ وہ آئندہ الیکشن میں اس میں سے تھوڑا بہت غریب عوام پر خرچ کرکے، ان کو بیوقوف بنا کر، الیکشن جیتں اور نون لیگ کو اقتدار میں لانے کا سبب بنیں، لیکن افسوس کہ ملک و قوم کو مقروض سے مقروض تر کر دیا گیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت مل کر پوری دیانتداری کے ساتھ ایک صاف شفاف اور فیئر الیکشن کا اہتمام کرے، جس میں تحریک انصاف سمیت تمام پارٹیوں کو یکساں طور پر لیول پلینگ فیلڈ فراہم کی جائے۔ اس الیکشن کے جو بھی نتائج آئیں، اس کو ہر سیاسی جماعت قبول کرے اور اکثریت حاصل کرنے والی جماعت اپنی حکومت بنائے۔ فی الحال جو صورت حال نظر آرہی ہے، اس میں ہمیں تو کم از کم بلاول بھٹو زرداری کا وزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوتا ہی نظر آ رہا ہے، کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی ایک وفاقی جماعت ہوا کرتی تھی، اب پنجاب کی حد تک تو اس کا مکمل صفایا ہو چکا ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں اس کو کبھی بھی دو تین سے زیادہ نشستیں نہیں ملیں، ہاں اس وقت بھی وہ اندرون سندھ کی ایک علاقائی پارٹی ضرور ہے۔ لیکن صرف سندھ کی بنیاد پر وہ کبھی بھی وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتی۔ البتہ نون لیگ کی مقبولیت اس وقت تحریک انصاف کے بعد دوسرے نمبر پر نظر آ رہی ہے۔ اگر نون لیگ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پیپلز پارٹی نون لیگ کو حسب سابق بلیک میل کرکے، حکومت میں صرف اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ ہی وصول کر پائے گی۔ ہاں البتہ خیرات میں وزارت عظمیٰ مانگنے کا حق بلاول بھٹو کو ضرور پہنچتا ہے، وہ بے شک پورے پاکستان میں اپنے اس نعرے کی دہائی دیتے پھریں کہ وزارت عظمیٰ کا سوال ہے بابا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button