ColumnNasir Naqvi

بجٹ سیاپا

ناصر نقوی

حکومت حقیقی ہو، نقلی ہو، قومی و سیاسی ہو کہ امپورٹڈ، جمہوری ہو کہ آمرانہ، ’’ بجٹ‘‘ پیش کرنا اور اسے منظور کرانا ایک لازمی امر ہے۔ جو حکومت یہ کارنامہ انجام نہ دے سکے، اس کی بقاء ناممکن ہو جاتی ہے اسی لیے بجٹ اجلاس میں اگر حکومتی ارکان لنگوٹ کس کر سامنے آتے دکھائی دیتے ہیں تو اپوزیشن بھی مدمقابل کمربستہ ہوتی ہے۔ پہلا مرحلہ ’’ بجٹ‘‘ کے اعداد و شمار کابینہ میں منظوری کا ہوتا ہے، پھر ’’ بجٹ‘‘ ایوان میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہر بجٹ اجلاس میں سب سے مشکل حالات میں وزیر خزانہ ہوتا ہے اس کے پسینے چھوٹتے ہیں۔ ایک سے زیادہ مرتبہ زبان و کلام میں فرق آ جاتا ہے کیونکہ تقریر ازبر کرنے کے باوجود اپوزیشن کا دبائو، شور شرابا الفاظ کی ترتیب بھی بگاڑ دیتا ہے اسی لیے کوئی بھی وزیر خزانہ جونہی تقریر ختم کرتا ہے، پورا ایوان اسے ایسے ’’ مبارکباد‘‘ پیش کرتا ہے ، جیسے اس نے کوئی جہاد کیا ہو؟ حالانکہ ایوان بھی اپنا، سب لوگ بھی اپنے اور مستقبل کی ’’ جمع تفریق‘‘ ہی نہیں، ضرب جمع تقسیم بھی اپنی لیکن ’’ بجٹ سیاپا‘‘ ہر سال ہر حکومت کے لیے ایک بڑا مرحلہ سمجھا جاتا ہے اس بار پاکستان کے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی انداز میں بجٹ پیش کیا گیا کیونکہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا زہر قبل از وقت نکالا جا چکا تھا۔ کچھ کہتے ہیں انہیں پورا سال ایسے ٹانک دئیے گئے کہ ان میں کسی بھی لمحے اپوزیشن والا زہر پیدا ہی نہیں ہو سکا، فرینڈلی رہے اور آخری دم تک فرینڈلی ہی رہیں گے، لہٰذا وفاقی وزیر خزانہ حکومتی ارسطو اسحاق ڈار نے انتہائی اطمینان اور سکون کے ساتھ 2023۔24ء کے لیے 6924ارب روپے کے خسارے کے ساتھ 14ہزار 460ارب کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا، سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف بھی مسکراتے رہے اور ایوان بھی تالیوں سے گونجتا رہا، بظاہر اس بجٹ کو الیکشن ایئر کا ٹیکس فری بجٹ کہا جا رہا ہے، تاہم چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد کا کہنا ہے کہ 175ارب براہ راست اور 25ارب کے بالواسطہ ٹیکس لگائے گئے جبکہ وفاقی وزیر اسحاق ڈار کہتے ہیں ہم نے سیاسی نہیں، ریاستی بقاء کا بجٹ بنایا ہے اگر آئی ایم ایف نے ساتھ نہ بھی دیا تب بھی ہم غیر معمولی حالات سے بچ نکلیں گے اور ملک کسی بھی صورت ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ انہوں نے یہ گِلہ بھی کیا کہ عالمی ادارہ دوسروں کے مقابلے میں ہم سے مختلف سلوک کر رہا ہے لیکن ہم نے سخت پابندیوں کا وقت بھی گزار ا ہے۔ موجودہ مشکل وقت بھی گزر ہی جائے گا۔ اگر 30جون تک آئی ایم ایف نے عمل درآمد کر دیا تو معاملات میں آسانی آ جائے گی ، نہیں تو پلان ’’ بی‘‘ کے انتظامات مکمل ہیں۔ حکومت اگست کے دوسرے ہفتے میں اپنی آئینی مدت پوری کرے گی، لہٰذا نئے انتخابات کے اخراجات بجٹ میں مختص کر دئیے گئے ہیں۔ الیکشن کب اور کیسے ہوں گے ، یہ کام الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کا ہو گا۔
موجودہ حکومت عمران خان کے دعوے، احتجاج، دھرنے اور ہنگاموں کے باوجود اپنا دوسرا بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو گئی، یقینا یہ نامساعد حالات میں حکومت کی جیت ہے۔ بجٹ کس حد تک عوامی اور فلاحی ہے اس کا جائزہ اور حقیقی کہانی فوری طور پر نہیں سنا سکتا۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ معاشی بحران اور آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کی موجودگی میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بجٹ کا مجموعی حجم144کھرب 60ارب ہے جس میں 73کھرب سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں اس طرح اعداد و شمار کے مطابق 6924ارب روپے کا خسارہ ہے۔ معاشی شرح نمو کا ہدف3.5فیصد اور افراط زر کا اندازہ 21فیصد لگایا گیا ہے۔ تاریخی ترقیاتی بجٹ گیارہ کھرب 50ارب اور دفاعی بجٹ 18کھرب چار ارب رکھا گیا ہے۔ حکومت نے جذبہ خیر سگالی میں سپریم کورٹ کے بجٹ میں 50کروڑ کا اضافہ کر کے تین ارب 55کروڑ 50لاکھ کر دیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں گریڈ ایک سے سولہ تک 35فیصد اور 17سے 22تک 30فیصد اضافے کی تجویز ہے جبکہ پینشنر کے لیے ساڑھے 17فیصد اضافے کے اعلان کے ساتھ کم از کم پنشن بارہ ہزار اور کم از کم تنخواہ 32ہزار کر دی گئی ہے۔ کابینہ نے 30ہزار بنیادی تنخواہ کی منظوری دی تھی لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے دو ہزار کا اضافہ کر دیا۔ تاہم سرکاری ملازمین خوش نہیں، ان کا کہنا ہے تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی کے تناسب سے ہونا چاہیے تھا۔ پرائیویٹ سکولز کے مالکان بھی ناراض ہیں کہ انہیں ٹیکس میں چھوٹ نہیں دی گئی لیکن تاجر برادری نہ صرف خوش ہے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر بجٹ کو عوام دوست قرار دے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشکل ترین حالات میں سیلز ٹیکس رجسٹریشن جیسا کالا قانون ختم کرنے پر حکومت مبارک باد کی مستحق ہے۔ کمرشل بجلی بلوں پر بھی کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا بلکہ ایک لاکھ ڈالر تک بغیر کسی رکاوٹ کے ملک میں لانے کی اجازت دینا بھی خوش آئند ہے۔ اسی طرح کالج اساتذہ کی نمائندہ تنظیم نے ایڈہاک ریلیف کو موجودہ دور میں مناسب اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے برسوں سے منجمد الائوسنز میں اضافہ کیا ۔ اسی طرح صوبائی حکومتوں کو بھی کرنا چاہیے۔ یہی نہیں ، نئے بجٹ کے تحت مقروض افراد کی بیوائوں کا دس لاکھ کا قرضہ حکومت ادا کرے گی اس کے علاوہ بجلی، گیس اور دیگر شعبوں میں سہولت کے لیے دس کھرب 74ارب کی سبسڈی رکھی گئی ہے جبکہ ایف بی آر محاصل کا تخمینہ 92کھرب ارب رکھا گیا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے تحت مختلف شعبہ جات میں نئے منصوبے متعارف کرائے جائیں گے۔ طلباء و طالبات میں وظائف کی تقسیم کے لیے پانچ ارب روپے سے فنڈ قائم کیا گیا ہے اور کھیلوں کے لیے بھی پانچ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق دار کا دعویٰ ہے کہ صنعتی شعبے پر ٹیکس نہیں لگایا گیا، کم آمدن والوں کے لیے نئی مائیکرو ڈیپازٹ سکیم دے رہے ہیں۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 9.5فیصد کمی کی تجویز اور کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس شرح میں چھوٹ دی گئی ہے۔ ہم نے وسائل میں رہتے ہوئے مسائل پر توجہ دی ہے۔ امید ہے کہ ان اقدامات سے مہنگائی میں کمی ممکن ہو سکے گی۔
بُرے اور بحرانی دور میں بھی حکومت اور اسحاق ڈار بغیر کسی سیاپے کے اپنی من مرضی اور آئی ایم ایف کے مطابق بجٹ پیش کر کے بری الذمہ ہو گئے۔ تحریک انصاف کے موجودہ اور سابق رہنمائوں نے بجٹ کی مخالفت کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ سالانہ بجٹ میں کچھ نیا نہیں، الفاظ کا گورکھ دھندا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کہتے ہیں سودی بجٹ ہے۔ آئندہ برس 7303ارب قرض ادا کرنا ہو گا لیکن ٹیکس میں اضافے کا کوئی بہتر میکنزم نہیں ہے۔ لہٰذا غریب کا کسی نہ کسی طرح خون نچوڑا جاتا ہے۔ عوامی ردعمل بھی ملا جلا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہر سال بجٹ بڑی دھوم دھام کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے لیکن نتائج مثبت نہیں نکلتے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ان کی توقعات کے مطابق اضافہ نہیں کیا گیا، پھر بھی نجی سیکٹر کے ملازمین ان مراعات سے محروم ہیں۔ حکومت نے کم از کم تنخواہ
32ہزار روپے مقرر کی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر سال اعلان ہوتا ہے۔ عمل درآمد نہیںہوتا۔ حکومتی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرائے۔ نجی سیکٹر میں’’ لیبرلاز‘‘ پربالکل عمل نہیں کیا جاتا بلکہ صنعتکار ’’ مک مکا‘‘ فارمولے سے ٹھیکے داری سسٹم میں مزدوروں کا استحصال کر رہے ہیں اور ہر حکومت اس مافیا کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر جو بھی اقدامات کئے جائیں ان پر سختی سے عمل درآمد کے ایسے طریقہ کار بنائے جائیں جن سے حکومت کی سہولت حقیقی حق داروں تک پہنچے، ’’ مافیا‘‘ کی نذر نہ ہو، لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ پہلے نئے بجٹ کو متوازن قرار دیا جاتا ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے الفاظ کی جادوگری اپنا اثر کم کرتی ہے اور اس پر تنقید شروع ہو جاتی ہے۔ موجودہ بجٹ میں زرعی سیکٹر، آئی ٹی اور صنعتی شعبے کے لیے بہت کچھ رکھا گیا ہے لہٰذا اس کی نگرانی بھی حکومتی ذمہ داری ہے۔ معاشی بحران دور اور کمزور سیاسی حکومت کی جانب سے متوازن بجٹ تسلیم بھی کر لیا جائے تو آنے والے وقت میں ایک نئی حکومت ہو گی اسے استعمال ضروری نہیں اسی انداز میں کیا جا سکے جس کی منصوبہ بندی اتحادی حکومت نے کی ہے، بہرکیف ’’ پاکستان‘‘ اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے اس لیے حکومت جو کر سکتی تھی اس نے کر لیا، اب صنعت کاروں، سرمایہ داروں اور تمام شعبہ ہائے زندگی کے ذمہ داروں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ معاشی بحران یقینا اچانک پیدا نہیں ہوا اس لیے اس کے خاتمے کے لیے بھی پاکستانی کی حیثیت سے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، ورنہ معاشی بحران آئندہ سال کے لیے نیا مسئلہ بن جائے گا اور آئندہ سال موجودہ پارلیمنٹ ہو گی نہ ہی فرینڈلی اپوزیشن ، لہٰذا ایک مرتبہ پھر ترقی پذیر ملکوں کی طرح ’’ بجٹ سیاپا‘‘ ہی ہو گا، یوں کل کی فکر میں آج بہت کچھ کرنا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button