ColumnJabaar Ch

شوکت خانم کا بیٹا

جبار چودھری

شخصیت پرستی معاشروں کے معاشرے تباہ، انسانوں کو ذہنی غلام اور سوچ سمجھ سے عاری کر دیتی ہے۔ شخصیت پرستی انسانوں کو شرک کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ اگر پوجا جانے والا شخص دنیاوی جاہ و ہشم اور اقتدار کے لیے ہلکان ہورہا ہوتو معاملہ دوچند۔ ہمارے ہاں سیاست شخصیت پرستی سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں کہنے کو جمہوری لیکن شخصی آمریت سے لبریز۔ جب تک قائد کی سانس میں سانس ہے سربراہی اور حکم اسی کا چلے گا۔ انتہائی مجبوری کی صورت میں زندہ ہونے کے باوجود سربراہی کسی دوسرے کو منتقل ہوگی وہ بھی ایسی جھاڑ پھونک اور دیکھ بھال، تراش خراش کے بعد کہ خدا کی پناہ ۔ ن لیگ والے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا بیٹھے تھے اب موقع آیا اور ان کو نہیں بنایا تو حالت دیکھ لیں۔ کہنے کو شاہد خاقان عباسی امیر، مالدار اور وفادار لیکن ایک سال سے ایک عہدے کی خاطر اپنی پارٹی کے خلاف لٹھ لے کر میدان میں ہیں۔ مفتاح اسماعیل دوسری مثال ۔ کچھ اسی طرح کی بات سمجھانے شاہ محمود قریشی عمران خان کے پاس گئے تھے جو حال ہوا سب سے سامنے۔ ویسے تو سب جماعتوں میں ہی شخصیت کو مادرمہام کا درجہ حاصل لیکن پی ٹی آئی اگلے بلکہ آخری مرحلے پر ۔ خان صاحب کی شخصیت سازی باقاعدہ ایک بزنس پراجیکٹ کی طرح کی گئی۔ اخلاقی اعتبار سے چونکہ خان صاحب انتہائی نازک اور کمزور قدموں پر تھے، اس لیے اس پہلو کو ہنڈ سم اور’’ کرش‘‘ جیسی اصطلاحات کے کارپٹ کے نیچے چھپا دیا گیا۔ پھر ان کی مشہوری کے لیے ان کا کرپٹ نہ ہونا چنا گیا۔ ہر طوطے کو یہ بات رٹا دی گئی کہ خان کرپٹ نہیں ہے۔ وہ ایماندار ہے ہاں اس کی ٹیم کرپٹ ہوسکتی ہے۔ اس کے آس پاس لوگ ایسے ہوسکتے ہیں لیکن خان کرپٹ نہیں ہے۔ یہاں تک خان صاحب کی کرپشن کی بات ہے تو یہ سب جانتے ہیں کہ خان صاحب خود اپنے ہاتھوں سے کرپشن نہیں کرتے۔ انہوں نے یہ کام ’’ آئوٹ سورس‘‘ کرکے کیا ۔ وہ کرپٹ نہیں تھے لیکن انہوں نے ورلڈ کپ کھیلنے کے بعد کبھی پیسے کمانے کے لیے بھی خود کچھ نہیں کیا۔ ان کے گھر کے کچن چلانے کے لیے بھی ہمہ وقت کوئی نہ کوئی اے ٹی ایم موجود رہتی تھی۔ علیم خان سے جہانگیر ترین تک سب ہی خان صاحب کی روزی روٹی اور سفر کا سامان کر چکے۔خان صاحب وزیراعظم بنے تو وہ اپنے ساتھ ان لوگوں کو لائے جنہوں نے ان پر انوسٹ کیا تھا۔ لوگوں میں یہ بات پھیلنے لگی کہ یہ لوگ کرپٹ ہیں۔ مفادات کا ٹکرائو ننگا ناچ کر رہا ہے تو پھر یہی طریقہ واردات کہ بے چارہ خان اکیلا کیا کرے وہ تو کرپٹ نہیں ہے نا۔ جب سوال اٹھتا کہ یہ لوگ بھی تو خان صاحب کے ہی لائے اور لگائے ہوئے ہیں تو جواب ملتا کہ اب خان بے چارہ فرشتے کہاں سے لائے۔ یہی لوگ ہیں وہ خود کرپٹ نہیں ہیں۔ اوپر سچا اور ایماندار ہو تو نیچے کرپشن نہیں کرنے دیتا۔ لیکن یہ تھیوری بری طرح پٹ گئی کہ ان کے اپنے دور میں ملک میں چینی کا سکینڈل آیا اور پچاس روپے کلو بکنے والی چینی کی قیمت ایک سو بیس روپے تک پہنچا دی گئی ۔ اس ایماندار شخص کی اپنی حکومت نے انکوائری کمیشن بنایا اور بتایا کہ اوپر صرف کہنے کی حد تک یا مشہوری کی حد تک ایماندار کا ہونا زیادہ کرپشن کا باعث بنتا ہے کیونکہ کرپشن کرنے والے جانتے ہیں کہ اوپر والا صرف کہنے کی حد تک ہی کرپشن مخالف اور ایماندار ہے۔ خان صاحب کی ایمانداری کی چھتری کے نیچے ہی ایک زرعی ملک میں آٹے کا اتنا خوفناک اسکینڈل آیا کہ وزیر خوراک فخر امام نے اسمبلی فلور پر کہا کہ گندم پیدا تو ٹھیک ٹھاک ہوئی لیکن پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے۔اس ملک میں گندم کہیں غائب ہوگئی اور ہم یوکرین سے اناج منگوانے پر مجبور ہوئے لیکن ایماندار شخص نے اس ’’ ایمانداری‘‘ پر کسی وزیر ، مشیر کو نشان عبرت بنانا ہی مناسب خیال نہ کیا؟۔ اس ایماندار کی اپنی حکومت میں ندیم بابر کو مفادات کے ٹکرائو کے باوجود پٹرولیم کا مشیر بنایا تو اس ملک میں پٹرول کی وہ قلت پیدا ہوئی کہ صرف قلت دور کرنے کے لیے بلیک میل ہوکر ایک ہی دن میں طے شدہ تاریخ اور وقت سے بھی پہلے قیمت میں پچیس روپے کا اضافہ کرنا پڑا۔ میں عمومی طور پر یو ٹیوب پر مونو لاگ کرنے والوں کو سننے سے گریز کرتا ہوں کہ اس اسپیس میں موجود سبھی دوستوں کی رائے، ذاتی رجحانات اور مجبوریوں سے واقف ہوں۔ خبر تو ان کے پاس نہ ہوتی ہے اور نہ ہی درست ہوتی ہے اپنی اپنی روزی روٹی کی مجبوریوں میں پھنسے ان دوستوں نے بیانیوں کی بھوک میں مبتلا سیاسی کارکنوں کی بھوک کا سامان کرنا ہوتا ہے سو کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حق میں یو ٹیوب پر رائے ہموار کرنے والوں میں حبیب اکرم صاحب بھی شامل ہیں۔ سیانے آدمی ہیں۔ جانتے ہیں کہ مقبولیت اور کمائی کس طرف اچھی ہے اس لیے وقت پر اچھے فیصلے کر لیتے ہیں ۔ ایکسپریس میڈیا گروپ سے وابستہ سینئر رپورٹر اور ہمارے دوست خالد رشید کہتے ہیں کہ سیانے بندے بارش کے حالات دیکھ کر ہی وقت سے پہلے چارپائیاں اندر کر لیتے ہیں۔ حبیب اکرم صاحب کو اپنی رائے رکھنے اور اس کی تبلیغ کا پورا حق ہے۔ ان کو بھی بہت سے دوستوں کی طرح یہ پلیٹ فارم بنانے اور بڑھانے میں پی ٹی آئی کی مدد حاصل ہے اور ان کو سننے اور خریدنے والے بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکن ہی ہیں۔ حبیب صاحب کا ذکر خیر اس لیے آگیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنی آفیشل سائٹ پر ان کا ایک مونو لاگ پوسٹ کیا اس کا عنوان تھا شوکت خانم کا بیٹا۔ انہوں نے اس میں شوکت خانم کے بیٹے کی مشہوری کی کوشش کی جبکہ وہ جانتے ہیں کہ شوکت خانم کا بیٹا اس وقت اس لیے مشکل میں ہے کیونکہ انہوں نے یہ مشکلات خود اپنے لیے پیدا کی ہیں۔ حبیب بھائی نے شوکت خانم ہسپتال سے شوکت خانم کے بیٹے کی پہچان کروائی ہے تو حبیب صاحب بھی جانتے ہیں کہ شوکت خانم ٹرسٹ جو انہوں نے بنایا اس کے لیے زمین ان کو پنجاب حکومت نے الاٹ کی اس لیے مسائل نہیں ہوئے، ورنہ انہوں نے خود حکومت میں ہوتے ہوئے القادر ٹرسٹ بنانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ حالانکہ پنجاب میں ان کی اپنی حکومت تھی اس ٹرسٹ کے لیے بھی وہ زمین پنجاب حکومت سے الاٹ کروا سکتے تھے لیکن انہوںنے ملک ریاض کو فائدہ پہنچا کر ان سے زمین لینا زیادہ مناسب سمجھا اب وہ کرپشن کا کیس بھگت رہے ہیں۔ حبیب صاحب کہتے ہیں کہ شوکت خانم کا بیٹا وزیراعظم بنا لیکن سازش سے ان کو نکال دیا گیا۔ یہ سازش والی بات سے خود شوکت خانم کا بیٹا مکر چکا ہے لیکن جن طوطوں کو یہ سبق رٹایا گیا تھا وہ ابھی تک پتہ نہیں کیوں اس پر پہرہ دے رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ آئینی اور جمہوری طریقے سے عدم اعتماد کی تحریک ان کو سازش لگتی ہے اور پانامہ کیس کے باقی چار سو لوگوں کی پٹیشن پر سپریم کورٹ کے دو دن پہلے آنے والے ریمارکس کہ نوازشریف کو سازش کا شکار بنایا گیا وہ ان کو میرٹ لگتا ہے۔ حبیب صاحب اور ان جیسی رائے کو پرموٹ کرنے والوں کو ایک دکھ آج کل اور بھی کھائے جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے اندر نہیں گھسنا چاہئے تھا۔ اس بارے میں وہ قاسم سوری کی رولنگ کا حوالہ دے کر ماتم کناں ہوجاتے ہیں۔ جب وہ تجزیہ فرماتے ہیں تو فکری دیانت کا یہ عالم ہوجاتا ہے کہ فرماتے ہیں کہ قاسم سوری نے کیا کہا۔ کیوں رولنگ دی کس قانون کے تحت عدم اعتماد مسترد کی یہ سب کچھ بے معنی ہے بس اتنا اہم ہے کہ شوکت خانم کے بیٹے نے الیکشن کا اعلان کر دیا تھا اس لیے سپریم کورٹ کو اسمبلی بحال کرنے کی بجائے الیکشن کے ساتھ کھڑے ہوجانا چاہئے تھا۔ یعنی قاسم سوری آئین توڑ دے اس کی خیر ہے بس شوکت خانم نے جو فیصلہ کر دیا تھا وہ سب کو ماننا چاہئے تھا۔ چلیں ان کے تجزیے کا احترام کہ سپریم کورٹ کو پارلیمان میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے لیکن اس کے بعد ان کے تجزے سے تریسٹھ اے کی تشریح کی بجائے اس کا دوبارہ لکھ کر پی ٹی آئی کو فیور دینا غائب ہوجاتا ہے۔ چودھری شجاعت کے بطور پارٹی سربراہ کے خط کو غیرقانونی قرار دے کر چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی قسط بھی غائب پائی جاتی ہے۔ اب یہ والی تجزیائی غلطی نہیں بلکہ میرے نزدیک بددیانتی کہلاتی ہے۔ شوکت خانم کے بیٹے اور اس کی مشہوری کرنے والوں کو خبر ہوکہ اگر سپریم کورٹ کا پارلیمان کے اندر قاسم سوری کی رولنگ کے دوران جانا غلط تھا تو پھر تریسٹھ اے کی تشریح بھی غلط۔ حمزہ کو ٹرسٹی وزیراعلیٰ کہنا بھی غلط۔ چودھری شجاعت کے خط کو نہ ماننا بھی غلط۔ نیب ترامیم پر عمران خان کی پٹیشن سننا بھی غلط۔ سپریم کورٹ کے اختیارات والا قانون بننے سے پہلے معطل کرنا بھی غلط۔ نظرثانی والا قانون سننا بھی غلط۔ اور خلاف آئین جاکر ایک سرکاری ملازم کے کیس سے الیکشن کا سوموٹو نکالنا بھی غلط۔ آئین میں درج اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے الیکشن کی تاریخ دینا بھی غلط۔ اورآئین کے نوے دن پر عمل کروانے اور نہ کرنے والوں کو سزا دینے کی بجائے نظریہ گنجائش نکالنا اور مذاکرات کی پٹی پڑھانا بھی غلط۔ اگر ہم اپنے تجزیوں میں اتنے سارے غلطان کو ایک ساتھ غلط کہنے کی ہمت رکھتے ہیں تو پھر بھلے آپ شوکت خانم کے بیٹے کو ولی ثابت کریں یا میاں شریف کے بیٹوں کی چوکی بھریں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button