ColumnImtiaz Aasi

سعودی عرب میں پاکستان کی پہچان

امتیاز عاصی

یہ ان دنوں کی بات ہے وزارت مذہبی امور کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا تھا، سعودی فرمانروا شاہ سعود نے گورنر جنرل غلام محمد کو مسجد نبویؐ میں باب جبرائیل کے بالمقابل ایک عمارت پاکستانی زائرین کے قیام کے لئے تحفہ میں دی تھی ۔ وزارت مذہبی امور نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ہائوس کا متولی سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر کو مقرر کیا گیا، جو سعودی حکومت کے ریکارڈ میں ابھی تک متولی چلے آرہے ہیں۔ مسجد نبویؐ کے توسیع منصوبے میں پاکستان ہائوس کی بڑی عمارت کے آنے سے سعودی حکومت نے عمارت کے عوض جو رقم دی اس سے حکومت پاکستان نے دو عمارات خرید لیں۔ پاکستان ہائوس نمبر ایک مسجد سبق کے سامنے شاہراہ امیر محسن پر واقع جو اٹھانوے کمروں پر مشتمل تھا۔ چند سال پہلے وہ توسیع منصوبے کی نذر ہوگیا پاکستان ہائوس نمبر دو کی چھوٹی عمارت جو شاہراہ سلطانہ پر واقع تھی کو منہدم کرنے کے لئے خالی کرا لیا گیا ہے۔ پاکستان ہائوس کو عارضی طور پر شاہراہ عبدالعزیز پر واقع کرایہ کی عمارہ اجیال کی چھوٹی اور پرانی عمارات میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہمیں ایک عشرے تک مسلسل حج کی سعادت نصیب ہوئی ۔1997ء میں مجھے مدینہ منورہ کے پاکستان ہائوسز کا نگران مقرر کر دیا گیا جو مجھ ایسے گناہ گار کے لئے بہت بڑی سعادت تھی۔ پاکستان ہائوس کی بڑی عمارت کے عوض سعودی حکومت نے ساٹھ ملین ریال ادا کئے جو سعودی شرعی عدالت کی نگرانی میں جمع ہیں۔ پاکستان حج مشن کو عمارت خریدنے میں جو مشکلات پیش آرہی ہیں ان میں بڑی مشکل یہ ہے سعود ی حکومت نے شرط رکھ ہے جو عمارات خریدی جائے وہ سعودی شہری کے نام پر حاصل کی جائے۔ اس شرط کو ختم کرانے کے لئے سعودی حکومت کی منظوری ضروری ہے۔ سعودی حکومت کے قوانین کی رو سے پاکستان حج مشن کے دفاتر جدہ میں واقع ہیں۔ کئی سال تک ڈائریکٹر حج اور ڈپٹی ڈائریکٹر حج مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے پاکستان ہائوسز میں باقاعدگی سے فرائض کی انجام دہی کرتے رہے۔ یہ بات سعودی حکومت کے علم میں آئی تو حج مشن کے افسران کو جدہ قونصیلٹ میں بیٹھنے کو کہا گیا، جب سے حج افسران جدہ میں قائم اپنے دفاتر میں بیٹھتے ہیں البتہ وہ عازمین حج کے رہائشی انتظامات کے سلسلے میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے دو ماہ قبل ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر حج کا تقرر کیا ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور طلحہ محمود نے حاجی کیمپ میں خادمین سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے سابق ڈائریکٹر جنرل حج کے خلاف شکایات موصول ہوئی ہیں اور کچھ شواہد بھی ملے ہیں جس کی انکوائری کرائی جائے گی۔ خبر میں عازمین حج کے لئے ادویات کی خریداری میں مبینہ بے قاعدگیوں کی اطلاعات ہیں۔ سوال ہے عازمین حج کے لئے ادویات کی خریداری وزارت مذہبی امور پاکستان سے کرتی ہے جن کے اخراجات حجاج سے وصول کئے جانے والے بہبود فنڈ سے ادا کئے جاتے ہیں۔ جہاں تک حج مشن کا تعلق ہے عازمین حج کے لئے رہائشی عمارات کرایوں پر لینے کا حصول، مقامی طور پر بھرتی کئے جانے والے خدام، مقامی ملازمین کا ماہانہ مشاہرہ، گاڑیوں کی خریداری اور دیگر متفرق اخراجات پی ڈبلیو فنڈ سے ادا کئے جاتے ہیں۔ وزیر موصوف نے حج مشن کے فنڈز کا آڈٹ کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ معمول کے مطابق ہر سال وزارت مذہبی اور سے ایک اکائونٹ آفیسر حج مشن کے فنڈز کا آڈٹ کرنے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ توجہ طلب ہے بات یہ ہے پاکستان حج مشن کے فنڈز بارے برسوں سے آڈٹ پیراگراف زیر التوا ہیں جنہیں نپٹانا بہت ضروری ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں وزیر مذہبی امور اپنے دور میں حج مشن کے تمام اکائونٹس کا تفصیلی آڈٹ کرائیں گے تاکہ حجاج کے بہبود فنڈ میں پائی جانے والی مبینہ بے قاعدگیوں کا پتہ چلایا جا سکے۔ اہم بات یہ ہے حج مشن میں تعینات بعض افسر جدہ سے مکہ مکرمہ آنے کی صورت میں ایک سو ڈالر یومیہ ڈیلی الاونس وصول کرتے ہیں حالانکہ وہ سرکاری ٹرانسپورٹ سے مکہ مکرمہ آتے ہیں۔ جدہ سے مکہ مکرمہ کی مسافت ستر کلو میٹر ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ایس ایم اسماعیل مرحوم اور ڈائریکٹر حج میجر ریٹائرڈ ضیاء کے مابین جدہ سے مکہ مکرمہ جانے کا یومیہ الاونس وصولی کا تنازعہ پیدا ہو گیا۔ ڈائریکٹر جنرل کا موقف تھا وہ جدہ سے مکہ مکرمہ جانے کا یومیہ ایک سو ڈالر الائونس لینے کے اہل نہیں ہیں۔ دونوں افسران کے مابین تنازع کے بعد اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے دونوں افسران کو واپس بلا لیا تھا۔ ہمیں یاد ہے ایک راست باز ڈائریکٹر جنرل حج اور بلوچستان کے سابق چیف سیکرٹری احمد بخش لہڑی کا سعودی عرب میں قیام کے دوران معمول رہا ہے وہ مکہ مکرمہ اور جدہ سے مدینہ منورہ جانے کا یومیہ الاونس کا استحقاق رکھنے کے باوجود وصول نہیں کرتے تھے ۔ ہم وزیر مذہبی امور کی طرف سے حج مشن کے فنڈز کا آڈٹ کرانے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں وہ حجاج کے فنڈ میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں کے ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی کریں گے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے پاکستان ہائوس کی عمارات کی خریداری کے لئے سعودی وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے اس معاملے کو سعودی فرمانروا کے علم میں لا کر مستقل طور پر حل کرانے کی کوشش کرے ۔ سعودی عرب میں پاکستان ہاوسز دراصل پاکستان کی پہچان ہیں۔ پاکستان کے علاوہ یورپی ملکوں اور مشرق وسطیٰ سے حج و عمرہ کی غرض سے آنے والے پاکستانیوں کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے وہ سعودی عرب میں پاکستان ہاوسز میں قیام کریں۔ پاکستان ہاوسز کے ملازمین کی ماہانہ اجرت اور دیگر اخراجات ہاوسز کی آمدن سے پورے کئے جاتے ہیں، جس میں حکومتی بجٹ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس وقت پاکستان ہاوسز مدینہ منورہ سے حاصل ہونے والی آمدن کے نو ملین ریال سعودی بینک میں جمع ہیں، جن میں چھ ملین ریال اس ناچیز نے 1997ء کے حج کے دوران پاکستان ہائوسز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نان گروپ کے حجاج کو ٹھہرا کر ایک ماہ میں جمع کئے تھے، جس پر ہمیں ایوارڈ سے نواز گیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button