Column

چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری اور گجرات کی سیاست

چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری اور گجرات کی سیاست

یاور عباس
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو اینٹی کرپشن پنجاب نے 4مقدمات میں گرفتار کرلیا ہے۔ ان کی گرفتاری کے لیے ایک ماہ سے کارروائیاں کی جارہی تھیں ، پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی جو کہ چودھری برادران کے قریبی رشتہ دار ہیں اور چودھری شجاعت حسین اور ان کے بیٹے کے وفاقی وزیر ہونے کے باوجود گزشتہ دنوں لاہور میں پولیس کی طرف سے ان کی رہائش گاہ گیٹ توڑنے اور خواتین کو گرفتار کرنے کی خبروں پر سیاسی بھونچال آیا، بعد ازاں پنجاب حکومت نے اس واقعہ پر معافی بھی مانگ لی۔ سانحہ9مئی کے بعد چودھری شجاعت حسین کے بھائی چودھری وجاہت حسین اور ان کے بیٹے چودھری حسین الٰہی ( ایم این اے ) نے پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ کر دوبارہ مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کرلی۔ ذرائع کے مطابق اس صلح میں مرکزی کردار ان کے بھائی چودھری شفاعت حسین سابق ضلع ناظم گجرات نے ادا کیا اور چودھری شفاعت حسین کا کہنا ہے کہ جلد چودھری پرویز الٰہی بھی مسلم لیگ ق میں واپس آجائیں گے ۔ جس طرح پی ٹی آئی کی سینئر قیادت گرفتاری کے بعد پریس کانفرنسز کے ذریعے تحریک انصاف چھوڑنے کے اعلانات کر رہی ہے، بہت سارے حلقوں کا خیال ہے کہ چودھری پرویز الٰہی بھی جلد پریس کانفرنس کر لیں گے جبکہ ان کے بیٹے چودھری مونس الٰہی جو کہ بیرون ملک ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ عمران خاں کا ساتھ کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔ مسلم لیگ ق جو کہ چودھری برادران کی پارٹی ہے ان کے اتحاد کی بدولت ہی مضبوط رہ سکتی ہے، وگرنہ پی ٹی آئی الیکشن سے آئوٹ نہ ہوئی تو شاید ہی مسلم لیگ ق ایک دو نشستیں لے سکے۔
چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری پر مخالفین جملے کس رہے ہیں کہ مرکزی صدر کی گرفتاری پر لوگ باہر نکلے ہیں نہ کوئی احتجاج ہوا ہے، احتجاج جمہوریت کا حسن ہوتا ہے مگر اب ملک میں جس طرح کا سیاسی ماحول بنا دیا گیا شاید اس میں احتجاج کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی گئی۔ ہاں جب چودھری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ کا گیٹ توڑا گیا تھا تب ایسا ماحول تھا کہ احتجاج ہوتا مگر تب جس طرح احتجاج ہونا چاہیے تھا نہیں ہوا تھا ، گجرات میں بطور وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے ایک سو سے زائد مشیر بنا رکھے تھے مگر گجرات میں ہونے والے احتجاج میں تب عوام تو دور کی بات، بہت سارے مشیران بھی نہیں نکلے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گجرات کی سیاست چودھری برادران کے گرد گھومتی رہی ہے، گجرات سے منتخب ہونے کے بعد چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب ، چودھری شجاعت حسین وزیر اعظم منتخب ہوچکے ہیں۔ چودھری وجاہت حسین، چودھری مونس الٰہی بھی وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ چودھری سالک حسین اب بھی وفاقی وزیر ہیں۔ گجرات میں کسی اور خاندان کے پاس اتنی وزارتیں یا عہدے نہیں رہے، مگر چودھری برادران کے سیاسی اختلافات کی وجہ سے مقامی پارٹی ورکر بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ چودھری پرویز الٰہی کا ساتھ دیں یا چودھری شجاعت حسین کا، اگرچہ گجرات کی سیاست میں گرفت چودھری پرویز الٰہی ، چودھری مونس الٰہی اور چودھری وجاہت حسین کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ڈویژنل رہنما چودھری عابد رضا چودھری برادران کے خلاف مضبوط سیاسی رہنما ہیں، وہ دو مرتبہ ایم این اے منتخب ہوچکے ہیں اور اپنے حلقہ انتخاب پر اب بھی مضبوط سیاسی گرفت رکھتے ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی کے مرکزی لیڈر چودھری قمر زمان کائرہ گزشتہ دو انتخابات میں بری طرح شکست کھا چکے ہیں اور ان کے خاندان سے کوئی بھی ایم این اے یا ایم پی اے منتخب نہیں ہوسکا۔ مائنس پی ٹی آئی الیکشن ہوں تب بھی شاید ان کے لیے الیکشن جیتنا آسان نہیں ہوگا، حالانکہ وہ اس وقت بھی وزیر اعظم کے مشیر ہیں اور اپنے حلقہ انتخاب میں لوگوں کو وقت بھی بہت زیادہ دیتے ہیں ۔
گجرات سٹی میں پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے چودھری سلیم سرور جوڑا مقبول سیاسی شخصیت بن کر اُبھرے ہیں، وہ ایک مضبوط سیاسی گھرانے سے ہیں، دوران حراست جب وہ عزیز بھٹی شہید ہسپتال گجرات میں داخل تھے تو پیپلز پارٹی ضلع گجرات کے رہنما میاں فخر مشتاق پگانوالہ نے ان کی عیادت کی اور ان پر ہونے والے ظلم کی مذمت کی ، میاں فخر پگانوالہ نے کہا کہ اہل گجرات ایک سلیم جوڑا کو سرمد منصور نہیں بننے دیں کیونکہ پرویز مشرف دور میں پیپلز پارٹی کے ضلعی رہنما سرمد منصور 2006ء میں پولیس حراست میں انتقال کرگئے تھے ۔ پارٹی وابستگی سے بالا تر ہوکر انسانی ہمدردی کے تحت اُٹھایا جانے والا یہ قدم ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے لیے اعلیٰ ظرفی اور مثبت جمہوری رویہ کی بہترین مثال ہے ۔
چودھری برادران گزشتہ 35برس سے مسلسل اقتدار میں ہیں، نواز شریف سے راہیں جدا کر کے پرویز مشرف کے ساتھی بنے تو 5سال انہوںنے پورے ملک پر راج کیا پھر چودھری برادران کی بدترین مخالف سیاسی جماعت پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو چودھری برادران نے سیاسی حکمت عملی سے آصف زرداری سے ہاتھ ملا لیا اور ملکی تاریخ میں پہلی اور شاید آخری بار چودھری پرویز الٰہی ڈپٹی وزیراعظم کے عہدہ پر فائز رہے۔ 2013ء کے انتخابی نتائج مسلم لیگ ق کے لیے حیران کن تھے، یہی وجہ تھی کہ 2018ء کے انتخابات میں عمران خاں کے ساتھ اتحادی بن کر الیکشن میں میدان میں اترنا پڑا، سیاسی ہوائوں کا رُخ بدلا، تمام اتحادی عمران خاں کا ساتھ چھوڑ گئے، مگر چودھری مونس الٰہی کا خیال تھا کہ عوامی سیاست کی جائے اور عوام کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں لہٰذا چودھری پرویز الٰہی نے عمران خاں کا ساتھ دیا جس کی بدولت چودھری پرویز الٰہی ایک بار پھر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے، مگر اس فیصلے نے مسلم لیگ ق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ چودھری برادران نے 1995ء میں پیپلز پارٹی کے خلاف تحریک نجات کے بعد شاید کسی سیاسی احتجاج میں عملی طور پر حصہ نہیں لیا، اگرچہ علامہ طاہر القادری کے دھرنوں، عمران خاں کے دھرنوں کی مکمل سہولت کاری کی اور اب عمران خاں کی احتجاجی سیاست میں چودھری برادران خاص متحرک نظر نہیں آئے۔ 9مئی سے قبل بھی گجرات میں بھی کوئی خاطر خواہ احتجاج ، جلسہ یا جلوس نہیں نکالا گیا تھا۔ اب پورے پاکستان کو انتظار ہے کہ چودھری پرویز الٰہی پریس کانفرنس کرتے ہیں یا پھر نہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button