Column

20 سال سے اردوان ہی کیوں؟؟؟

20سال سے اردوان ہی کیوں؟؟؟

محمد راحیل معاویہ
گزشتہ 20سالوں سے ترکیہ کی عوام طیب اردوان کو ہی اپنا حکمران کیوں چن رہی ہے؟
مسلسل چھٹی بار ایک ہی شخص کو اقتدار کیوں سونپ دیا؟
کوئی حکومت گرانے کی سازش کرے تو عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ کر جان تو دے دیتی ہے لیکن حکومت نہیں گرنے دیتی، آخر وجہ کیا ہے؟
طیب اردوان ترکیہ کی عوام کے دلوں کے ’’ سلطان‘‘ کیوں بنے ہوئے ہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں جو مسلسل چھٹی مرتبہ طیب اردوان کے ترکی کا حکمران بننے پر گونج رہے۔ آخر طیب اردوان کے پاس ایسی کون سی ’’ گیڈر سنگھی‘‘ ہے کہ جو عوام ان کو نا اقتدار سے الگ کرتے ہیں نا ہونے دیتے ہیں؟
ترکیہ کے عوام کی لازوال محبت کرنے کی بہت ساری وجوہات ہونگی لیکن طیب اردوان کی ملکی و غیر ملکی مقبولیت کا سب سے بڑا راز ان کی کارکردگی ہے۔
انہوں نے ترکیہ کی ’’ لولی لنگڑی معیشت‘‘ کو نا صرف اپنے پائوں پر کھڑا کیا بلکہ اس کو دنیا کی 20بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان لا کھڑا کیا۔ آج ترکیہ جی 20میں شامل ہے۔
چند سال میں ترکیہ معیشت کو 111ویں نمبر سے اٹھا کر 16ویں نمبر پر لے آئے۔
10سال پہلے ترکیہ میں فی کس سالانہ آمدن 3500ڈالر تھی جبکہ آج 13000ڈالر ہے۔
اردوان کے آنے سے پہلے ترکیہ بھی مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور بیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔
اردوان بیروزگاری کی شرح 38فیصد سے کم کرکے 2فیصد پر لے آئے ہیں۔
اربوں روپے کا بجٹ خسارہ ختم کرکے بجٹ کو منافع بخش بجٹ بنا ڈالا ہے۔
ملکی خزانے میں 100ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔
قومی پیداوار کو 1100ارب ڈالر تک لے گئے ہیں۔
ترکیہ نے 2017ء میں تمام بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔
2017ء میں ورلڈ بینک کو آخری قسط ادا کرکے آج الٹا ورلڈ بینک ترکیہ کا اربوں ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے۔
برآمدات میں حیرت انگیز حد تک اضافہ کیا اور محض 6ارب ڈالر کی برآمدات کو 200ارب ڈالر پر لے گئے، آج 190ممالک میں ترک مصنوعات پہنچ رہی ہیں، پورے یورپ میں ترکی کی تیار کردہ گاڑیاں اور الیکٹرونکس کا سامان استعمال ہورہا ہے۔
3 ارب سے زائد پھل دار اور پھول دار درخت لگائے جس سے ترکیہ کی خوبصورتی میں اضافہ کیا، موسمیاتی تبدیلی سے بچائو کا انتظام کیا اور سرمایہ بھی حاصل ہورہا ہے۔
بہترین ڈرامے بنا کر پوری دنیا کو اپنی شاندار تاریخ اور ملکی خوبصورتی سے متاثر کیا جس کی وجہ سے ترکیہ میں بیرونی سرمایہ کاری اور سیاحت کو خوب فروغ ملا۔
امریکہ نے جب ترکیہ کرنسی لیرے پر پابندی لگا کر لیرے کو ڈالر کے مقابلے میں ٹکا ٹوکری کرنے کا منصوبہ بنایا تو ترک عوام نے اردوان کی درخواست پر نا صرف ڈالر کا بائیکاٹ کیا بلکہ ہر اس چیز کو خریدنا بھی بند کر دیا کہ جس کا تعلق ڈالر سے تھا، جس کے پاس جتنے ڈالر تھے انہوں نے لاکر مارکیٹ میں پھینک دئیے۔ مارکیٹ میں کوئی ڈالر کا خریدار نہیں ملتا تھا، لوگ ڈالر خریدنا ملک سے غداری سمجھتے تھے، اس قوم کے نزدیک غداری سے بڑی کوئی گالی اور اس سے بڑا کوئی دوسرا جرم نہیں، یوں ڈالر بجائے اڑان بھرنے کے الٹا گراوٹ کا شکار ہوگیا، آج بھی وہاں ڈالر 20ترکیہ لیرے کا ہے۔
پچھلے دس سال میں 125نئی یونیورسٹیاں، 190کالجز اور 1لاکھ 70ہزار نئی کلاسز بنائیں تاکہ 1کلاس میں 21سے زائد طلباء نا ہوں۔
پوری دنیا میں جب فیسیں بڑھ رہی تھیں تو تب اردوان اعلان کر رہا تھا کہ ترکیہ میں کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم بالکل مفت ہوگی اور اس کا بوجھ حکومت اٹھائے گی، استاد کی تنخواہ ڈاکٹر کے برابر کی اور اساتذہ کے احترام میں اضافہ کیا، تعلیمی بجٹ 7.5سے 34ارب تک بڑھا دیا۔
بے شمار ترقیاتی کام کیے، 13500کلومیٹر سڑکیں بنائیں، 1076کلومیٹر ریلوے لائن بچھائی اور نئی ٹرینیں چلوائیں۔
ترکیہ کی قومی ایئر لائن کو دنیا کی ساتویں بڑی ایئر لائن بنایا اور 24نئے ایئر پورٹس کی تعمیر کروائے۔
510نئے ہسپتال اور 35000ٹیکنالوجی لیب بنوائیں۔
ترکیہ کے ہر باشندے کا علاج مکمل مفت کر دیا۔
ترکیہ کی قوم نے بھی ان عظیم کارناموں کا صلہ یوں دیا کہ اردوان کے خلاف ہونے والی سازش کو ناکام بنانے کے لیے جانیں دے دیں، مسلسل چھٹی بار اپنا حکمران بنایا اور انکے ہر حکم پر دل و جان سے اس کا ساتھ دیا۔
حالیہ زلزلوں نے ترکیہ میں سب سے زیادہ تباہی مچائی لیکن وہ قوم اس سے اچھے انداز میں نمٹ کر بحالی کے لیے سرگرم ہے۔
سب سیاست دانوں نے مل کر الیکشن اصلاحات کیں اور ذاتی، شخصی، گروہی یا سیاسی مفادات کی بجائے قومی مفادات کو مقدم رکھا۔
یہی وجہ ہے کہ ترکیہ میں زلزلے کی تباہی کے باوجود بروقت انتخابات منعقد ہوئے اور ہارنے والوں نے کھلے دل کے ساتھ اپنی شکست کو بھی تسلیم کیا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button