ColumnRoshan Lal

پی ٹی آئی سے جانے والے

روشن لعل

عمران خان کو ابھی تک کتنے لوگ چھوڑ چکے ہیں اور کتنے چھوڑنے جارہے ہیں، ان کی نہ تو درست تعداد بتائی جاسکتی اور نہ ہی کوئی اندازہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور بتایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو عام لوگ کن کن ناموں سے پکار رہے ہیں ۔ عجیب بات ہے عمران خان کو چھوڑنے والوں میں سے کسی کے لیے بھی کہیں سے لوٹا، لوٹا کی آوازیں بلند نہیں ہوئیں۔ ایسی آوازیں بلند نہ ہونے کی وجہ شاید یہ ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی اکثریت نے کسی دوسری سیاسی جماعت کا حصہ بننے کی بجائے سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیا ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو اکثر ناقدین منفی ناموں سے یاد کر رہے ہیں مگر کچھ لوگ ان کے متعلق یہ کہتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں کہ ناقابل برداشت دبائو ڈال کر انہیں عمران خان کو داغ مفارقت دینے پر مجبور کیا گیا۔ اب یہ نہ جانے کونسا دبائو ہے جو عمران خان پر مر مٹنے کے دعوے کرنے والوں کے لیے چند دنوں میں ہی ناقابل برداشت ہوگیا ورنہ یہاں تو یہ بھی دیکھا جا چکا ہے کہ خورشید شاہ جیسے بزرگ سیاستدان نے ایک قابل ضمانت کیس میں ضمانت نہ ملنے پر 2019سے 2021 تک جیل میں رہنا برداشت کر لیا مگر کوئی بھی دبائو انہیں ان کی پارٹی چھوڑنے پر مجبور نہ کر سکا ۔ خورشید شاہ ہی کیا پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر عاصم اور شرجیل انعام میمن اور اسی طرح مسلم ن کے خواجہ آصف اور احسن اقبال جیسے کئی لوگوں کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جنہوں نے ہر قسم کا دبائو برداشت کرتے ہوئی اپنی پارٹیوں کے ساتھ وفاداری نبھائی۔ ایسے لوگوں کا نام لیتے وقت علی وزیر کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جنہیں محض ایک ایسے بیان پر 26مہینے جیل میں رکھا گیا جیسے بیان دینا عمران خان کا معمول ہے۔ جب خورشید شاہ، علی وزیر ، شرجیل انعام میمن، ڈاکٹر عاصم ، خواجہ آصف اور احسن اقبال جیسے لوگوں کی دبائو برداشت کرنے کی مثالیں موجود ہوں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ تحریک انصاف چھوڑنے والوں کے لیے ناقابل برداشت دبائو جیسا کوئی عذر قبول کر لیا جائے۔ جو لوگ آنا فاناً تحریک انصاف اور عمران خان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں ان کے لیے یہی سمجھنا بہتر ہے کہ جس طرح وہ کسی کی انگلی پکڑ کر تحریک انصاف میں داخل ہوئے تھے اسی طرح محض کسی کی انگلی کے اشارے سے ان کی واپسی ہو گئی۔
حقائق سے آگاہ لوگوں کے لیے یہ بات قطعاًحیران کن نہیں کہ محض انگلیوں کے اشاروں کی وجہ سے چند دنوں میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی حیثیت ہیرو سے زیرو ہو چکی ہے۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ چھڑی کے زور پر بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو وہ نقصان نہیں پہنچایا جاسکا تھا جو نقصان محض انگلیوں کے اشاروں نے تحریک انصاف اور عمران خان کاہو چکا ہے ۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ عمران خان کی باتیں اور بیانیہ ہی نہیں ان کی مقبولیت بھی پانی کا بلبلا تھی جس کا وجود چند پراپیگنڈا کرنے والوں کو دی گئی کھلی چھٹی کا مرہون منت تھا۔ سرد ہوائیں چلنے پر عمران خان پر مر مٹنے کے دعوے کرنے والے اکثر لوگ زرد پتے ثابت ہوئے۔ تحریک انصاف، عمران خان اور ان کے نام نہاد جانثار جو کچھ ثابت ہو چکے ہیں اسے مد نظر رکھتے ہوئے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کی شکل میں ریت کی دیوار پر مضبوط قلعے کی تختی لگا کر جو کچھ دکھایا جاتا رہا وہ دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ عمران خان یہ دھوکہ دوسروں سے زیادہ خود اپنے آپ کو دیتے رہے۔
گوکہ عمران خان نے سیاست میں جو کانٹے دوسرے کی راہوں میں پھینکے تھے وہ ان کے اپنے پائوں میں چبھ رہے ہیں مگر اس کے باوجود اس بات پر تشویش ظاہر کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ انگلیوں کے اشاروں سے ایک تحریک انصاف گرا کر دوسری تحریک انصاف بنانے کا سلسلہ یہاں ابھی تک ختم نہیں ہو سکا۔ کچھ باریک بین دوستوں سے جب اس موضوع پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ گرم ہوا چلتے ہی موسمی پرندوں کے تحریک انصاف کی چھتری سے اڑ جانے کے بعد جس طرح یکایک سابق گورنر پنجاب چودھری سرور مسلم لیگ ق کو پی ٹی آئی کے سابقین کی شکل میں نئی توانائی مہیا کرنے اور جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے پرانے لوگوں پر مشتمل نئی پارٹی بنانے کے لیے متحرک ہوگئے ہیں اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ کٹھ پتلیاں بنانے اور انہیں انگلیوں کے اشاروں پر نچانے کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں موجود تمام سیاسی، سماجی اور معاشی خرابیوں کے متعلق وثوق سے کہا جاتا ہے کہ ان کی بنیادی وجہ یہاں غیر سیاسی اداروں کا طویل عرصہ سے سیاست میں مداخلت کرتے چلے آناہے ۔ غیر سیاسی اداروں کی سیاست میں مداخلت اگر ماضی میں بار بار نقصان دہ ثابت ہوئی تو کسی طرح ممکن نہیں کہ اب کی بار سود مند ثابت ہو ۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں جو غیر سیاسی مداخلت نظر آرہی ہے اس کے متعلق کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں سیاست میں سب زیادہ مداخلت کرنے والے ادارے کے لوگوں کی طرف سے گزشتہ دنوں جب یہ کہا گیا کہ وہ آئندہ مداخلت سے گریز کریں گے تو اس بات پر یقین کرنے کی بجائے کئی مبصروں نے یہ سوچا کہ آنے والے دنوں میں وہ قرائنی شہادتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس بارے میں کوئی رائی قائم کریں گے۔ مبصر ابھی مشاہدہ کرنے کے مرحلہ سے آگے نہیں بڑھے تھے کہ عدلیہ کے ایک گروپ نے اپنے من پسند سیاسی گروہ کے لیے ایسی جانبداری کا مظاہرہ شروع کر دیا کہ مبصرین کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ اس وقت ان کے لیے زیادہ قابل غور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مبہم مداخلت ہونی چاہیے یا ان ججوں کا واضح کردار جو اپنی آئینی حیثیت استعمال کرکے من پسند سیاست دان کو فائدے پہنچانے کے لیے اپنے عہدے، وقار اور خاندان کے افراد کی عزت سمیت کچھ بھی قربان کرنے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔
وطن عزیز کے موجودہ منظر نامے میں مختلف غیر سیاسی اداروں کی چپقلش اور سیاست میں مداخلت کے جو مظاہر سامنے آرہے ہیں ان کا نہ تو انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ مقابلے میں فلاں ادارہ درست اور فلاں غلط کردار دا کر رہا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ غیر سیاسی اداروں کی سیاست میں مداخلت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ادارہ برتری حاصل کر لے۔ غیر سیاسی اداروں کی سیاسی مداخلت کے مقابلے میں برتری چاہے جس کو بھی حاصل ہو، سیاست کا حسب سابق شکست خوردہ ہونے کا امکان نظر آرہا ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے نام نہاد سیاستدانوں نے گزشتہ چند روز میں جو کچھ کیا اس سے سیاست کی بدنامی اور شکست کا امکان مزید بڑھ گیا ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے یہ لوگ آئندہ انتخابات میں کسی نئے روپ میں دوبارہ عوامی نمائندہ بننے کی کوشش کر سکتے ہیں، اب یہ عوام کو چاہیے کہ وقت مقررہ پر انتخابات کا انعقاد ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ ، اپنے ووٹ کا درست استعمال کر کے نام نہاد سیاستدانوں کی شکست اور سیاست کی فتح کا امکان پیدا کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button