ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیاسی مریدوں کا انجام

تجمل حسین ہاشمی

ہمارے ہاں سیاست کا انوکھا انداز ہے، اقتدار میں آنے تک ایسے جذباتی اور خدمات گاری کے نعرے سننے کو ملتے ہیں دنیا بھر میں ایسے نعرے، جذبے نہیں ملتے، حالانکہ وہ ایسے نعروں کے بغیر بھی ہم سے بہت آگے نکلے چکے ہیں۔ ہمارے ہاں اقتدار ملنے کے بعد ’’ تو کون، میں کون‘‘ ہو جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ آمر حکمران بھی کچھ کم نہیں تھے ، ایسے ایسے نعرے، سوہنے خواب، لوگوں کو ایسا محسوس کروایا جاتا رہا کہ پاکستان ترقی پذیر سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آ جائے گا، یہاں مدینے کی ریاست جیسا نظام ہو گا، پھر ایسے ایسے گناہوں کے مرتکب ہوئے، جس کا دشمن بھی گمان نہیں کر سکتا تھا، 12مئی، 9مئی، 22اگست، بلدیہ فیکٹری، پانامہ پیپرز، ڈان لیکس کئی اور واقعات ریاست کیلئے امتحان ثابت ہوئے۔ جہاں ریاست کا ایکشن ناگزیر ہو جائے تو پھر آہستہ آہستہ پارٹی رہنمائوں کی غیر مشروط لیڈر سے محبت بھی دم توڑ دیتی ہے، ریاست ہر حال میں صبر سے کام کرتی ہیں، کیوں کہ عوام کا تحفظ بنیادی ذمہ داری ہے، جب بھی سیاسی جماعتوں میں ایک خاص سوچ یا اس کو ونگ کہہ لیں پیدا ہوں جائیں جو ریاست کے سامنے کھڑے ہو جائیں، ان سے شہری تحفظ کا مسئلہ، ملکی سلامتی کا مسئلہ بننے لگے تو پھر ریاست کو رسپونڈ کرنا پڑتا ہے اور یقینا کرنا بھی چاہئے، لیڈر سے غیر مشروط محبت میں زیادہ تر ووٹر سزا کے زیر اثر آتے ہیں، کیوں ان کے دماغ میں لیڈر کے لیے ایک خاص مقام ہے، جیسے لوگوں پیروں کی قبروں کو سجدہ کر دیتے ہیں، عقل سلیم رکھنے والا انسان شرک سمجھتا ہے، لیکن مرید اس بات کو کبھی نہیں تسلیم نہیں کرتا، کیوں کہ وہ ایسی کیفیت میں چلا جاتا ہے جہاں پر وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، یہی حال تحریک انصاف کے ورکرز میں نظر آیا ہے۔ سیاسی رہنما پریس کانفرنس کر کے گناہ سے پاک ہو جاتے ہیں، کیوں کہ ان کے ذاتی مفادات خطرے میں ہیں۔ لیکن 9مئی کے واقعات میں ملوث سیاسی کار کون تھے، جن کی عقل میں خان پیر کی حیثیت اختیار کر چکا تھا، ریاستی املاک کا نقصان ریاست کے ساتھ دشمنی ہے لیکن ان سیاسی بلوائیوں، مریدوں کو کیسے سمجھ آئے گی۔ ریاست کی سلامتی سیاسی پیروں سے مقدم ہے۔ سیاست میں مریدوں والی محبت سے پرہیز کرنے کی بہت ضرورت ہے، ماضی سے حال تک یہی دیکھا گیا کہ سیاسی جماعتوں نے عوام کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور لاتعلقی کا طول کارکن کے گلے میں ڈال کر خود کو محفوظ کر لیا اور اپنی سیاست اور خود کو پارسا ثابت کر کے کسی دوسری پارٹی کی گود میں بیٹھیں گے، اس نظام کو ختم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہے۔ پہلے اس طرح کے اعلان کراچی میں زیادہ سنے جاتے تھے، لیکن آج کل یہ کام پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کر رہی ہی ، سو سے زیادہ سیاسی لیڈرز پارٹی سے لاتعلقی کا علان کر چکے ہیں، پارٹی کے مریدوں کو استعمال کیا گیا آج کل وہ مشکل حالات میں ہیں اور اپنے سرکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں، لاتعلقی کے اعلانات کی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن افسوس کم عقل، ناسمجھ لوگ اتنا بڑا جرم کر بیٹھے ہیں، جو زندگی بھر ان کو تنگ کریگا۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف 9مئی کے واقعات کی حساسیت کو ابھی تک نہیں سمجھ رہے ، دو چار ہفتے کی بات ہے، سب واضح ہو جائے گا، سینئر تجزیہ نگاروں اور ذرائع ابلاغ عامہ کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف کا مقدمہ آرمی کورٹ میں چلایا جا سکتا ہے، جس کے اشارے زیادہ ملے رہے ہیں، اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر فصیل واوڈا بھی ٹی وی پروگرام میں بات کر چکے ہیں، حامد میر بھی کہ رہے ہیں کہ خان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ معاملہ کتنا حساس ہے۔ دوسری طرف فواد چودھری، عمران اسماعیل اور محمود مولوی سیاست میں متحرک ہوگئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تینوں سیاستدانوں نے اڈیالہ جیل میں وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جس کے بعد جیل کے باہر میڈیا سے بات چیت بھی کی۔ اس موقع پر فواد چودھری نے کہا کہ شاہ محمود قریشی سے تفصیلی اور اچھی ملاقات ہوئی، 9مئی کو جو ہوا، اُس کی سخت مذمت کی ہے۔ فواد چودھری نے کہا کہ عوام کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کے سہارے پر نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ 25کروڑ پاکستانیوں کو نواز شریف اور آصف زرداری کے سہارے نہیں چھوڑے جاسکتے اور اس حکومت کو اپوزیشن کے بغیر ایسے کھلا بھی نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ واقعات میں ملبوس افراد کے خلاف کارروائی آگے بڑھے گی، پاکستان کو مستحکم حل کی طرف جانا ہے، کارکنوں کو جیلوں سے رہا کروانا بھی ہماری ذمہ داری ہے، اس تمام باتوں سے تھوڑی سمجھ یہ آ رہی ہے کہ میاں نواز شریف کی طرز پر کام کیا جا رہا ہے، مائنس ون کو بھی ایگنور نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ چیئرمین تحریک انصاف پر مقدمات کی لمبی لسٹ ہے، 9مئی کے واقعات پر قانونی کارروائی کا سامنا یقینی نظر آ رہا ہے، الیکشن کا کسی جگہ ذکر نہیں ہو رہا، حکومت اس حوالے سے بظاہر کوئی پلاننگ کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی، جس مقصد کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے کمپین چلائی تھی وہ الیکشن اب ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے، اگر الیکشن ممکن نہیں تو حکومت آگے مرحلے کے لیے کیا پلان کر رہی ہے، تحریک انصاف کو ایک طرف کرنے کے بعد بھی پی ڈی ایم حکومت خراب معاشی صورتحال سے باہر نہیں نکل سکتی، معاشی خراب صورتحال کا ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کو ٹھہرا کر بھی حکومت بری ذمہ نہیں ہو سکتی، مہنگائی اور لا قانونیت نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے، ان اقدامات سے کھچ معاشی فرق نہیں آنے والا، جس توقع کا حکومت کو انتظار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button