ColumnZia Ul Haq Sarhadi

پاکستان دنیا کا مہنگا ترین ملک بن گیا .. ضیا الحق سرحدی

ضیا الحق سرحدی

گزشتہ دنوں ایک ویب سائٹ کی جانب سے مہنگے ترین ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے مہنگائی کی دوڑ میں سری لنکا کو بھی مات دیدی ہے۔ غذائی افراط زر کی فہرست میں پاکستان دنیا بھر میں 13ویں نمبر پر موجود ہے جبکہ ڈیفالٹ ہونے والے ملک سری لنکا کا فہرست میں 18واں نمبر ہے۔ ٹریڈنگ اکنامکس نامی ویب سائٹ کی جانب سے غذائی افراط زر سے متعلق دنیا بھر کے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ فہرست کے مطابق لبنان 352فیصد مہنگائی کے ساتھ دنیا کا مہنگا ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ 0.4فیصد کے ساتھ چین غذائی افراط زر کے حوالے سے دنیا کا ستا ترین ملک ہے۔ مہنگے ترین ممالک کی فہرست میں وینیز ویلا 158فیصد کے ساتھ دوسرے، زمبابوے 108فیصد کے ساتھ تیسرے جبکہ ایران کا 71.5فیصد کے ساتھ فہرست میں چوتھا نمبر ہے۔ اسی طرح اسلامی ملک ترکی 53.92فیصد کے ساتھ آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ مہنگائی میں اضافے کے بعد پاکستان 48 فیصد کے ساتھ 13 ویں نمبر پر موجود ہے۔ پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت 3.84فیصد کے ساتھ 152ویں جبکہ بنگلہ دیش کو 9.09فیصد کے ساتھ 111واں نمبر دیا گیا ہے۔ مہنگائی نے پاکستانی عوام کو دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشانی میں ڈال رکھا ہے، المیہ یہ ہے کہ گندم کی ریکارڈ فصل کے باجود مارکیٹ میں آٹے کا بحران قائم ہے اور قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کسی دور میں پاکستان کا شمار سستے ترین ممالک میں ہوا کرتا تھا اور حکومتی ذمہ داران دنیا بھر میں مثالیں دیتے تھے کہ پاکستان سستا ترین ملک ہے لیکن آج یہ حال ہے کہ ہم سری لنکا جو ڈیفالٹ کر چکا ہے ہمارے ہاں اس سے بھی زیادہ مہنگائی ہے۔ پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے لیکن معاشی مسائل کے باعث ترقی کی بجائے ہم تنزلی کی جانب گامزن ہیں، یہاں غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری نے ڈیرے جمارکھے ہیں اور مہنگائی کے باعث لوگوں کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہیں یا ختم ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ ملک چھوڑے جارہے ہیں۔ یہاں اقتدار میں آنے سے ہر سیاسی جماعت پہلے غربت و مہنگائی کا خاتمہ کے نعرے لگاتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد یہ جماعتیں اس کے برعکس اقدامات اٹھانا شروع کر دیتی ہیں۔ اگرچہ ملک میں اس وقت سیاست اور معیشت دو ہی بڑے مسئلے ہیں اور دونوں کی حالت انتہائی ابتر ہوتی جا رہی ہے جب تک یہ دونوں مسائل حل نہیں ہوں گے ملک کی سمت درست نہیں ہوگی۔ ملکی سطح پر سیاسی محاذ آرائی کے اثرات تباہ کن ثابت ہورہے ہیں ۔ اسحاق ڈار کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود ڈالر مزید نیچے آنے سے انکاری ہے۔ حکومت کی سرتوڑ کوشش اور تمام تر شرائط کو تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان اور آئی ایم ایف سٹاف لیول معاہدہ کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ اعتماد کے فقدان کی وجہ سے آئی ایم ایف پاکستان پر اندھا اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ سٹیٹ بینک کی کرنٹ اکائونٹ خسارے کو کم کرنے کی کوششوں نے اکانومی اور سرمایہ کاروں کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں بجلی اور گیس کی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، مہنگائی نے اچھے اچھے سفید پوشوں کے بھرم کھول کر رکھ دیئے ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظمؒ نے ایک زرعی صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا لیکن ہم نے زراعت اور صنعت کے شعبوں کو نظر انداز کر کے آج ملک کو ٹریڈنگ سٹیٹ بنا دیا ہے۔ ہمیں دوبارہ پاکستان کی اصل طاقت زراعت کے شعبے کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پہلے جن زرعی اجناس میں ہم نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ ایکسپورٹ بھی کرتے تھے ، آج ہم انہیں امپورٹ کر رہے ہیں جس کے لئے ہمارے پاس ڈالر نہیں۔ پچھلی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کی کھلی خلاف ورزی کر کے پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دو چار کر دیا۔ ملک کو در پیش سنگین معاشی صورت حال سے نکالنے کے لئے موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی مزید سخت شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں جن کا مقصد پاکستان معاشی بحران سے نکالنا اور ملکی وسائل میں اضافہ کرنا ہے۔ ارض پاک جس نازک صورت حال سے دو چار ہے، اس سے نکلنے کے لئے سخت ترین فیصلے اور ان پر سختی سے کار بند ہو کر ہی ملک کو اقتصادی مشکلات سے نکالا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو گا مگر حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ، پاکستان کے تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ گزشتہ دور حکومت میں کئے گئے قرض معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے۔ آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں ریاستی اقتدار اعلی کئی اعتبار سے اپنی جداگانہ حیثیت گنوا بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کے دقیانوسی مالی و مالیاتی نسخوں سے کام چلا اور نہ چلے گا۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے تو نکال سکتی ہے مگر مالی مشکلات سے نہیں بچا سکتی ۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدے سے پاکستان کو قرض مل جائے گا مگر ہمارے حالات ایک مقروض ملک کی طرح ہی رہیں گے جو ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسری جگہ واپس کر رہا ہے۔ مالی مشکلات کو حل کرنے کے لئے پاکستان کو کافی وقت اور محنت کرنا ہوگی ۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد حکومت پاکستان ملک کو معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے خود انحصاری کی جانب قدم بڑھائے ۔ عوام کو مسلسل قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے حکومتی اخراجات کو کم کیا جائے اور چادر دیکھ کر پاں پھیلانے کی عادت ڈالی جائے ۔ پاکستان قدرتی وسائل سے بھر پور ملک ہے ان وسائل کو ملک و قوم کی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے تو پاکستان بہت جلد خود انحصاری کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ ملک کو معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے اب دو فیصد اشرافیہ کو سچے دل سے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تبھی یہ کشتی منجدھار سے نکل کر کنارے پر لگے گی ۔ بلاشبہ جمہوری حکومت عوام کی، عوام کے لئے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے لیکن اس کا عملی اظہار بھی ہونا چاہیے۔ بے پناہ وسائل کے حامل اس ملک کو خلوص نیت ایمانداری اور دیانت داری سے چلایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک و قوم ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button