ColumnTajamul Hussain Hashmi

غیر پارلیمانی رویہ کی پرورش .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

کئی آرٹیکل میں جناب رئوف کلاسرا صاحب کے کہے ہوئے الفاظ کوڈ کر چکا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ دوبارہ بھی کوڈ کرتا رہوں ’’ کلاسرا صاحب کہتے ہیں آپ کے بس میں صرف اتنا ہے کہ آپ ملک کو نقصان نہ دیں اور آپ کے دوست احباب، پڑوسی آپ کے ہاتھ سے محفوظ رہیں، پاکستان کے ساتھ یہ بہت بری نیکی ہو گی ‘‘، کیوں آپ کچھ کر نہیں سکتے، سارا نظام اشرفیہ، کاروباری تاجروں نے جکڑ رکھا ہے، آپ ایسے غیر مہذب معاشرے، غیر پارلیمانی طرز عمل کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، جہاں معاشرتی اقدار دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہیں، جس پارلیمان میں ایک دوسرے کے لئے چور، ڈاکو جیسے غیر پارلیمانی الفاظ استعمال ہوں، یہاں معافی مانگنے والے کو کمزور اور غلطی تسلیم کرنے والے کو بزدل سمجھ جاتا ہے۔ یہاں سرکاری عہدہ رکھنے والے کو طاقتور اور ظلم برداشت کرنے والی کو شریف کا نام دیا جاتا ہو۔ قبضہ مافیا کو انصاف پسند اور سکول ٹیچر کو مزارع سمجھا جاتا ہے۔ اداروں کی اہمیت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، لیکن ہم جس معاشرہ کا حصہ ہیں وہاں سڑکوں پر کھڑے پتھارے والے انتظامیہ کی نہیں سنتے، ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ میں نی پارکنگ مافیا کی واردات پر کالم لکھا تو مجھے اپنی موٹر سائیکل سے ہاتھ دھونے پڑ گئے، ایک نہیں دو موٹر سائیکل ظالم لے گئے، آج تک خبر نہیں ملی، معاشرتی اقدار اور محب وطنی میں سکیورٹی اداروں پر حملہ، توڑ پھوڑ نہیں ملے گی، کبھی بھی اداروں پر سیاست نہیں ملے گی، دنیا کی پارلیمان میں غیر پارلیمانی الفاظ نہیں ملیں گے، غیر پارلیمانی الفاظ ہی غیر مہذب معاشرہ کی پرورش کرتے ہیں۔ امریکہ جس نے بلین، ٹریلین ڈالر افغان، عراق اور یوکرین کی جنگ میں خرچ کئے، اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے ، اربوں ڈالر نقصان کے بعد ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے لیکن کسی سیاسی جماعت نے کبھی عوام کو اداروں پر حملوں کی ترغیب نہیں دی، جمہوری پارٹیوں میں ڈکٹیٹر شپ نظر نہیں آتی، پوری دنیا میں پر امن احتجاج ریکارڈ کرائے جاتے ہیں، سیاست اور الیکشن تنقید سے نہیں، جمہوری طریقہ کار سے لڑے جاتے ہیں، عوامی کارکردگی اور انصاف کی بنیاد پر ہی جیت ہوتی ہے۔ دنیا میں موروثی سیاست کا کوئی تصور نہیں، مہذب معاشروں میں ہی مخلوق کو مکمل تحفظ ہے، مخلوق میں جانور بھی شامل ہیں، جہاں جانوروں کے لئے بھی قانون حرکت میں آتا ہے، چادر اور چار دیواری نہ بھی ہو پھر بھی کوئی پامالی نہیں ہوتی، دنیا بھر میں مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کر رہے ہیں وہاں شام ہوتے ہی میڈیا کی دکان نہیں لگتی، میڈیا ریاست کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ بیٹے کے گناہ کا باپ ذمہ دار نہیں، کرپشن کے الزام پر قوم سے معافی مانگ کر حکومتی بینچ سے الگ ہونا ان کی اخلاقیات کا حصہ ہے، قانون کا سامنا کرنا ان کی ترقی کی ضمانت ہے، الزامات ثابت ہونے سے پہلے استعفیٰ دینا ان کی محب وطنی ہے، انصاف ان کو دہلیز پر میسر ہے، خدمات میں کوتاہی پر سیاست سے کنارہ کشی ان کے مہذب ہونے کا ثبوت ہے، چار چار باریوں کا کوئی اصول نہیں، باپ کروڑ پتی تو بیٹا ارب پتی کی کوئی کہانی نہیں۔ صحت ، روزگار اور تعلیم بنیادی ضرورت ہیں، کچھ تو اصول ہیں جس کی وجہ سے سپر پاور ہیں۔ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد ہم ملک میں خوشحالی لے کر آئے، ملک کے چھوٹے شہر بڑے شہروں میں تبدیل ہوئے، غیر ملکی ریستوران، میگا مالز کھلے، بلند عمارتیں تعمیر ہو رہی تھیں۔ روٹی روزگار میسر تھا۔ سڑکیں، انڈر پاس بن رہے تھے ، میٹرو بس ، موٹر ویز بن رہی تھیں، ملک میں ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی تھیں، سیمنٹ سیکٹر ترقی کر رہا تھا، ٹی وی چینلز کی بھر مار ہو چکی تھی، ایک سے بڑھ کر ایک مہنگی گاڑیاں مارکیٹ میں آ رہی تھیں، ملک میں پی ایچ ڈی ہولڈرز کی ایک لمبی فرسٹ ہے، خواتین کو مکمل آزادی تھی، وہ مستقبل کی دوڑ میں آگے آ رہی تھیں، لیکن ایسے حالات نہیں تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد اداروں پر الزامات، افراتفری نے معاشرہ کی اکائیوں میں شدت پسندی کو بڑھاوا دیا، 9مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے پاس کوئی جواز نہیں رہتا، کم عقل بلوائیوں کی عقل پر پردہ پڑ گیا تھا جو ایسے بیانہ پر چل پڑے، جو دشمن کا ایجنڈا تھا۔ اپنی ملکی وقار، شہدا کی قربانیوں کو بھول گئے ۔ سکیورٹی اداروں اور سول سوسائٹی کے شہدا کی قربانیوں سے پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے۔ ہمارے چاروں طرف دشمن بیٹھا ہے، جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ پی ٹی ائی نے معاشرہ میں ایسے غیر جمہوری رویوں کو جنم دیا ہے، جن کو کنٹرول کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے، جمہوری آزادی کو غلط استعمال کیا گیا ۔ جواب طلبی انتہائی ضروری ہے، ایسے رویوں کیوں پروان چڑھے، ان پر تحقیق کی ضرورت ہے جزا و سزا کے ساتھ ایسے غیر جمہوری رویوں کی افزائش پر غور انتہائی ضروری ہے، انصاف کی فراہمی میں شخصی انصاف کو کیوں پروان چڑھایا جا رہا ہے ، ایسی تقسیم کو اگر بر وقت نا روکا گیا تو سسٹم مزید کمزور ہوتا چلا جائے گا، معاشی ترقی کو یہ سسٹم سپورٹ نہیں کر سکے گا، مہنگائی کے طوفان کو روکنے کے لیے وفاق کی طرف سے سستا آٹا سکیم جاری کی گئی، آج ذرائع ابلاغ عامہ کے مطابق نیب نے سستا آٹا سکیم میں کرپشن کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہے، خدمات کے چکر میں اربوں روپے کا چونا لگا دیا گیا، ایسے عناصر پر بھی ایکشن ہونا چاہئے۔ روزانہ کی بنیاد پر گندم کی پکڑ دھکڑ کرنے والوں کے عدل پر کون یقین کرے گا ۔ ایسی ڈکیتیوں سے بھی معاشرہ میں دولت کی غیر مساوی تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button