ColumnNasir Naqvi

دھواں دھواں .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

عسکری اور سیاسی قیادت نے سرجوڑ کر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ سیاسی اور معاشی لڑائی کے پردے میں وطن عزیز کے طول و عرض کو ’’ دھواں دھواں‘‘ کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ جے آئی ٹی بن گئی اور وزیراعظم شہباز شریف نے متاثرہ مقامات کا دورہ کرنے کے بعد 72گھنٹے میں گرفتاری کا حکم بھی دے دیا۔ پکڑ دھکڑ جاری اور روپوش ہونے والوں کو بھی تلاش کیا جا رہا ہے۔ حکومت پنجاب نے75مرد و زن کی تصاویر شائع کرتے ہوئے ملزموں کی گرفتاری کے لیے دو لاکھ انعام کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’’ سب پھڑے جان گے‘‘ فورسز کے کوتاہی کرنے والوں کا بھی احتساب ہو گا اور زندہ پیرو مرشد کے فدائین کو بھی معافی نہیں ملے گی کیونکہ 9مئی کو حادثہ قوم اور دنیا نے دیکھا وہ ’’ بائی چانس‘‘ ہرگز نہیں تھا، جو ہوا اس کے منصوبہ ساز بھی گرفت سے نہیں بچیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔۔۔۔۔ ورنہ حکمران صرف وعدے کرتے ہیں، ہر سانحے پر بلند بانگ دعوے، انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے ، کمیٹیاں بنتی ہیں ٹوٹتی ہیں، ضرب جمع تقسیم ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ انصاف وہ جو ہوتا دکھائی دے لیکن حاصل ضرب کچھ نہیں ہوتا۔ 9مئی 2023ء پاکستانی تاریخ کا ’’ سیاہ ترین‘‘ باب جب دشمنوں کی خواہشات اپنی صفوں میں موجود سہولت کاروں اور کالی بھیڑوں نے پوری کیں، الزام ہے کہ ان جتھوں کو بڑی محنت سے اسی دن کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ ان جتھوں نے کمال مہارت سے معصوم شہریوں کو عشق عمران میں پھنسا کر وہ کچھ کر دیا جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ دعویٰ ہے کہ مقبول لیڈر عمران خان کے ساتھ جنرل ( ر) باجوہ ، ڈرٹی ہیری جنرل فیصل نصیر نے ہاتھ کر دیا اس لیے لیڈر کی گرفتاری پر سخت ردعمل دیکھنے کو ملا، عمران خان کہتی ہیں مجھے پتہ ہی نہیں کہ کیا ہوا، مجھے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ میرے کسی سے رابطے نہیں تھے لیکن ’’ نیب‘‘ سے ان کی آڈیو مسرت جمشید چیمہ کے ساتھ بھی آ گئی اور چند گھنٹوں بعد خان اعظم کا یہ بیان بھی آ گیا کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو پہلے جیسا ہی ردعمل آئے گا ، بعد ازیں مارکیٹ میں ان کا ریڈیو پیغام بھی آ چکا تھا کہ اگر مجھے گرفتار کیا جائے تو پوری قوم حقیقی آزادی کے لئے سڑکوں پر نکل آئے، یہی نہیں ان کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ جب لیڈر نہ ہو تو ہجوم کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ جس روز پاکستانی قوم نے لاہور کی کور کمانڈر ہائوس بابائے قوم کے پسندیدہ گھر ’’ جناح ہائوس‘‘ کو ’’ دھواں دھواں‘‘ ہوتے دیکھا اس روز پورے ملک کے حساس اداروں، اہم عمارات، شہداء کی یادگاروں اور تصاویر کے ساتھ جنگ 65ء کے جہازوں کو بھی جلتے ہوئے دیکھا، یہ منظر دیکھ کر اور مناظر کا احساس کر کے آج بھی ہر محب وطن پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہوا مطالبہ کرتا ہے کہ پاک دھرتی کے محافظوں اور جانثاروں کے نشانات مٹانے کی کوشش کرنے والے شرپسندوں کو نشان عبرت بنایا جائے، پاکستان سے ہم ہیں اور ہم سے پاکستان ہے، اس کی شان، آن اور پہچان کے دشمنوں کو کوئی معاف نہیں کر سکتا۔ یہ ایسا کارنامہ ہے جس سے ازلی دشمن بھارت کی دلی مراد پوری ہوئی، دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی اس لیے یہ ناقابل معافی جرم ہے۔72گھنٹے اس بڑے سانحے کے مجرموں کو قابوکرنے کے لیے شاید کم ہوں لیکن 72دن میں غیر جانبدارانہ تحقیقات سے حملہ آوروں، منصوبہ بندی کرنے والوں اور ماسٹر مائنڈ کو قومی مجرموں کی طرح قوم کے سامنے لایا جائے تاکہ وطن عزیز اور اس کی فورسز کے خلاف سازش کو بے نقاب ہی نہیں، مجرمان کو قرار واقعی سزا بھی دی جا سکے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سانحے کے بعد مختلف آڈیوز لیکس سے معاملات کو سوچی سمجھی سازش کے تحت الجھانے اور ملک کے سب سے منظم ادارے میں بغاوت اور انتشار کی افواہیں اڑائیں گئیں، پاکستان مسلم دنیا کی پہلی اور عالمی سطح کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے اگر اس سازش کی تہہ تک پہنچنے میں کسی قسم کی مصلحت پسندی سے کام لیا گیا تو اگلا ہدف سب جانتے ہیں کیا ہو گا؟۔
سینئر سیاسی رہنما اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جی پی او چوک سے جناح ہائوس کور کمانڈر کے گھر تک چار کلومیٹر کا فاصلہ ہے جس میں ’’ آرمی چیک پوسٹ‘‘ بھی ہے لہٰذا ہجوم کو ’’ فری رن‘‘ کیسے ملا؟ انہیں کون سمجھائے کہ منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ ’’ کور کمانڈر ہائوس‘‘ تھا۔ لہٰذ ا اس ڈیوٹی پر مامور جتھے بھی کسی دور مقام سے ہرگز نہیں آئے اور اس کا ثبوت سینیٹر چودھری اعجاز اور ان کے صاحبزادے علی چودھری کی آڈیو گفتگو ہی نہیں، بلکہ سابق صوبائی وزیر اور سینٹرل پنجاب تحریک انصاف کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد کی ویڈیو بھی محفوظ ہے پھر بھی اگر یہ کہا جائے کہ ان بلوائیوں سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ تو اس سے زیادہ سفید جھوٹ کیا ہو سکتا ہے، جی ایچ کیو، ایئربیس، عسکری ٹاور، کاکول اکیڈمی اور ایسے ہی دیگر مقامات کا رخ کرنے والے عام آدمی ہرگز نہیں تھے، نہ ہی یہ نہتے تھے ان کے پاس جلائو، گھیرائو، توڑ پھوڑ اور پتھرائو کا سامان ہی نہیں، آگ لگانے اور اسے بھڑکانے کے لیے پٹرول بم بھی موجود تھے، ظالموں کی شناسائی اپنے ملک پر جان نچھاور کرنے والوں سے بھی نہیں تھی ورنہ وہ کبھی بھی شہدائے وطن کی تصاویر کی توڑ پھوڑ اور انہیں نذر آتش نہ کرتے، ان تمام مقامات کی اپنی اپنی جگہ خصوصی اہمیت ہے اور انہیں نہ صرف قومی اثاثہ بلکہ انہیں محافظین وطن کا ٹھکانہ قرار دیا جاتا ہے لیکن عاقبت نااندیشوں نے لمحوں میں برسوں کی محنت، عزت اور سرمائے کو جلا کرراکھ کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے قیمتی اثاثے ’’ دھواں دھواں‘‘ ہو گئے۔
تمام مقامات کا تذکرہ ان سطور میں ممکن نہیں لیکن کور کمانڈر کے گھر ’’ جناح ہائوس‘‘ کی کہانی یوں ہے۔ یہ یادگار کوٹھی 1939ء تک شیوا دیال نامی ہندو کے پاس پانچ روپے سالانہ لیز پر تھی۔ اس نے اسے خواجہ ظہیر کو ٹرانسفر کر دی جس نے اسے اپنی بیگم کو تحفے میں دے دیا۔ جو بعد ازاں موہن لعل کو ٹرانسفر ہو گئی اور اس سے حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 1943ء میں خرید ی، انہیں یہ کوٹھی بے حد پسند تھی اور وہ مستقل رہائش اسی کوٹھی میں رکھنا چاہتے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور کوٹھی بابائے قوم کی مختار خاص لاہور کی کاروباری شخصیت سید مراتب علی شاہ کے حوالے ہو گئی۔ انہیں زمینیں خریدنے کا بے حد شوق تھا ان کی بیگم بھی ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ مراتب علی شاہ معروف صنعتکار سید بابر علی پیکجز کے والد تھے۔ 1948ء میں مراتب علی شاہ کی تحویل میں ہی محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ساڑھے تین لاکھ روپے میں اسے ملٹری کو فروخت کر دیا۔ یوں یہ ’’ کور کمانڈر ہائوس‘‘ بن گیا۔ تاہم اس جناح ہائوس کے تین مختلف کمروں میں قائد کے استعمال کی چیزیں سنبھال کر رکھی گئیں تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق پندرہ سو سے زائد نوادرات یہاں سجائے گئے تھے جن میں تاریخی تصاویر، صوفہ جات، کرسیاں، سگار دان، گلدان، بستر، جوتے اور مختلف ملبوسات بھی شامل تھے۔ یہ قیمتی اثاثہ 8مئی تک بطور قومی امانت محفوظ تھا لیکن 9مئی 2023ء کی شام ایک ایسی منحوس گھڑی ثابت ہوئی جب شرپسندوں نے سب کچھ لوٹ مار کرنے کے بعد جلا کر راکھ کر دیا۔ اب صرف ’’ جناح ہائوس‘‘ کے جلے ہوئے درودیوار ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ تاریخی ’’ جناح ہائوس‘‘ کی دیواریں بھی شرپسندوں کے منصوبہ سازوں کے کالے کرتوتوں کی طرح ’’ دھواں دھواں‘‘ ہو کر ’’ کالے‘‘ ہیں بلکہ اب9مئی بھی پاکستانی تاریخ کا ’’ یوم سیاہ‘‘ قرار دیا جا چکا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل کسی دشمن یا اس کے سہولت کارکو ایسی واردات کرنے کی ہمت نہیں ہو سکی تھی۔ قوم کی توقعات ہیں کہ اس دکھ کا مداوا کرنے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت بھرپور کارروائی کر کے حقیقی چہرے بے نقاب کرنے اور اس واردات کے تمام ذمہ داروں کو عبرت ناک تاریخی سزا دے تاکہ قومی اداروں اور قیادت پر اعتماد کی ناصرف بحالی ممکن ہو سکے بلکہ مستقبل کی پُرعزم زندگی کا ایک نئے جذبے سے آغاز ہو جائے۔ موجودہ معاشی، آئینی اور سیاسی بحرانی دور میں قومی یکجہتی اور احساس ذمہ داری کے لیے یہ سب کچھ انتہائی ضروری ہے۔ غلطی یا کوتاہی کی گنجائش اس لیے کہ اگر ایسا نہ ہو سکا تو موجودہ تخریب کاری کا ’’ دھواں‘‘ پورے معاشرے اور پاکستان کو ایسے ’’ دھواں دھواں‘‘ کر دے گا کہ سانس بھی نہیں لیا جا سکے گا۔ مملکت کی بقاء و استحکام اور حکومتی رٹ کے ساتھ عسکری و قومی اداروں کی مضبوطی کا فارمولا یہی ہے کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات سے حقیقی مجرموں کو بلا امتیاز سخت سزا دی جائے ، تاہم یہ خیال ضرور رکھا جائے کہ کسی کے ساتھ سیاسی انتقام نہ ہو اور یہ بھی بتایا جائے اس کارنامے کی حقیقی منصوبہ بندی کس کی تھی؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button