ColumnRoshan Lal

بے وقت کا راگ .. روشن لعل

روشن لعل

کچھ لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہو سکتی ہے کہ جب ملک میں سول شہریوں کے مقدمات کی آرمی ایکٹ کے تحت سماعت پر بحث ہوری ہے تو راگوں کی باتیں کیوں شروع کر دی گئی ہیں۔ گو کہ سول شہریوں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات کی باتیں بہت اہم ہیں لیکن یہ باتیں اگر راگوں اور موسیقی کی مثالوں سے سمجھنا آسان ہو تو پھر ایسی مثالوں کے بیان پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو موسیقی کو روح کی غذا قرار دیتے ہیں۔ روح کی غذا قرار دی گئی مقامی موسیقی کی بنیاد مختلف قسم کے راگ ہیں۔ موسیقی کے اساتذہ کا ماننا ہے کہ راگ ایجاد نہیں بلکہ دریافت کئے گئے تھے کیونکہ ہر راگ فطری طور پر یہاں پہلے سے ہی موجود تھا۔ موسیقی کے اساتذہ نے صرف راگ ہی دریافت نہیں کئے بلکہ فطرت کے ساتھ ان کے الگ الگ تعلق کی وضاحت بھی کی۔ انہوں نے اگر راگ بھیروں کو سنجیدہ اور مراقباتی کیفیت سے جوڑا تو راگ پہاڑی کو ہلکے پھلکے اور نٹ کھٹ مزاج کا عکاس کہا۔ اسی طرح کسی راگ کی گائیکی کو صبح اور کسی کو شام کے لیے موزوں قرار دیا۔ راگوں کی ترکیب و ترتیب کا کام کرنے والے ان اساتذہ کے متعلق یہ بات بلاشبہ کہی جاسکتی ہے کہ تمام راگ ان کے لیے ایک ہی طرح سے متبرک حیثیت کے حامل تھے۔ یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ جن اساتذہ کے لیے ہر راگ متبرک تھا انہیں یہ بات قطعاً گوارا نہیں تھی کہ کسی بھی راگ کو اس سے وابستہ موقع، مناسبت ، کیفیت یا وقت کو نظر انداز کر کے گایا جائے ۔ ان اساتذہ نے بے وقت راگوں کی گائیکی کو اس حد تک ناپسند کیا کہ اس ضمن میں ان کی کہی ہوئی باتوں کے تسلسل میں ’’ بے وقت کا راگ‘‘ کو بے موقع کہی جانے والی عام باتوں کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ ہمارے ہاں گائیک تواس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہکوئی ان کی گائیکی کو ’’ بے وقت کا راگ‘‘ نہ کہہ پائے مگر عام زندگی میں ایسے لوگوں سے اکثر پالا پڑتا رہتا ہے جن کی کہی ہوئی باتوں کے لیے یہ اصطلاح استعمال کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا ۔ آج کل بھی کئی لوگ کچھ اس طرح سے انسانی حقوق کا حوالہ دے کر اپنا مدعا بیان کر رہے ہیں کہ ان کی باتیں سن کر ذہن میں فوراً ’’ بے وقت کا راگ‘‘ جیسی اصطلاح گونجنے لگتی ہے ۔ جہاں تک انسانی حقوق کی مسلمہ حیثیت کا تعلق ہے تو کوئی بھی مہذب انسان اس بات پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا کہ اس کے سامنے کسی کے انسانی حقوق پامال ہورہے ہوں اور وہ خاموش رہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف کسی خاص گروہ سے تعلق رکھنے والے خاص لوگوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر اچانک بول اٹھنا ہی اس مسئلے کا حل ہے یا اس کے علاوہ کچھ اور ہونا بھی ضروری ہے۔
یاد رہے کہ یہاں ضیاء الحق کی طرف سے آئین میں آلائشوں کی طرح شامل کردہ آٹھویں ترمیم اور خاص طور پر اس کی شق 58ٹو بی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اس کے گن گانے والے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ 1990ء میں جب بے نظیر بھٹو شہید کی پہلی حکومت ختم کی گئی تو 58ٹو بی کی شان میں ایسے ایسے قصیدے سننے کو ملے کہ سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ زیادہ بدبودار آئین میں شامل کی گئی ضیا ئی شق ہے یا ان لوگوں کے ذہن جہاں سے اس غلاظت کی تعریف گٹروں کے پانی کی طرح ابل ابل کر باہر آرہی تھی۔ اس کے بعد جب 1993میں میاں نوازشریف کی حکومت بھی 58ٹو بی کے تحت ہی ختم کی گئی تو جن ججوں نے بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کو درست قرار دیا تھا انہوں نے یہ فیصلہ سنا یا کہ جس شق کے تحت اسمبلیاں توڑی جاسکتی ہیں اس کا درست استعمال نہیں کیا گیا۔ اس وقت کئی لوگوں نے اس فیصلے کی تعریف میں زمین آسمان ایک کئے جبکہ چند ایک نے یہ نشاندہی بھی کی کہ اصل فساد کی جڑ آٹھویں ترمیم اور 58ٹو بی ہے، جب تک انہیں آئین سے نکال باہر نہیں کیا جاتا اس وقت تک پارلیمنٹ ، سول حکومتوں اور جمہوریت کو تحفظ حاصل نہیں ہو سکے گا۔ جن لوگوں نے مذکورہ عدالتی فیصلے کو جانبدارانہ قرار دیا انہیں یہ طعنے سننے کو ملے کہ ان کی جمہوریت پسندی نمائشی ہے کیونکہ جس آئینی شق کے وہ مخالف ہیں اگر اس کے تحت کسی حکومت کے خاتمے کو عدالت نے غلط قرار دیا ہے تو انہیں اس بات پر اطمینان کا اظہار کرنا چاہیے۔ 58ٹو بی کی آئین میں موجودگی کے باوجود میاں نوازشریف کی حکومت اور اسمبلیوں کی بحالی کا فیصلہ کس قدر جانبدارانہ اور غیر اطمینان بخش تھا تاریخ اس پر اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ اس کے بعد تاریخ نے یہ بھی ثابت کیا کہ 58ٹو بی سمیت آٹھویں ترمیم کی شکل میں آئین میں شامل کی گئی آلائشوں کو جس حد تک بھی آئین سے نکالا گیا ہے اس کا راستہ اس میثاق جمہوریت نے ہموار کیا جس پر مکمل عمل کرنے سے جان بوجھ کر گریز کیا گیا تھا۔
سطور بالا میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ سول شہریوں پر آرمی ایکٹ کے تحت قائم مقدمات کی کسی طرح بھی حمایت نہیں کی جاسکتی مگر اس بات کی مخالفت کے باوجود ایسے مقدمات کے اندراج کو روکا نہیں جاسکتا کیونکہ 21ویں ترمیم کے بعد 2017ء میں آرمی ایکٹ میں جو ترامیم کی گئیں ان کے مطابق سول شہریوں پر اس ایکٹ کے اطلاق کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ اس قانون کی موجودگی میں اگر کوئی عدالت اس کے تحت گرفتار ملزموں کو کسی قسم کی رعایت دیتی ہے تو اسے اسی نظر سے دیکھا جائے گا جس نظر سے آج تک میاں نوازشریف کی پہلی حکومت کی بحالی کے فیصلے کو دیکھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر آج جو لوگ آرمی ایکٹ کے تحت سول شہریوں پر مقدمات قائم نہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کا مطالبہ درست ہونے کے باوجود بے وقت کا راگ ہے۔ اس راگ کی گائیکی کا درست وقت وہ تھا جس میں ایک نیا میثاق جمہوریت عین ممکن تھا مگر عمران خان نے یہ وقت دوسروں کو چور چور کہہ کر ایسے عمل کرتے ہوئے گزار دیا کہ آج ان کی اپنی ذات چوری کے ہر الزام کی زد میں نظر آرہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عمران خان کے کرموں کی سزا عام لوگوں کو نہیں ملنی چاہیے مگر کیا کیا جائے کہ جب ان لوگوں کے لیڈر نے ہی اپنے چاہنے والوں کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے۔ جو بندہ آج بھی کسی میثاق جمہوریت کے لیے سیاست دانوں کے ساتھ مفاہمت کرنے کی بجائے ججوں اور عدالتوں کی طرف اس نیت کے ساتھ دیکھ رہا ہے کہ جن قوانین کا اس کے سیاسی حریفوں کے خلاف بدترین استعمال ہوتا رہا ان قوانین میں سے اس کے لیے بہترین سہولتیں پیدا کی جائیں تو اس بندے کے لیے انسانی حقوق کی دہائی کو بے وقت کے راگ کے علاوہ اور کیا سمجھا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button