Ahmad NaveedColumn

اردو ادب کا وزیر ڈاکٹر وزیر آغا .. احمد نوید

احمد نوید

تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا
بدن مرا تھا بدن میں عذاب اس کا تھا
دئیے بجھے تو ہوا کو کیا گیا بد نام
قصور ہم نے کیا احتساب اس کا تھا
یہ کس حساب سے کی تو نے روشنی تقسیم
ستارے مجھ کو ملے ماہتاب اس کا تھا
اردو ادب کی ایک عہد ساز شخصیت، نامور شاعر، ممتاز نقاد اور جدید اردو انشائیہ کو ندرت آشنا کرنے والے تخلیق کار ڈاکٹر وزیر آغا 18مئی 1922کو ضلع سرگودھا میں وزیر کوٹ کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کیا اور 1956میں پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔ 1960سے 1963تک وہ مولانا صلاح الدین احمد کے جریدے ’’ ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے، پھر انہوں نے لاہور سے اپنا سہ ماہی رسالہ ’’ اوراق‘‘ بھی شائع کیا۔ صحافتی مصروفیات کے باو جود ہ وزیر آغا کا اپنا ادبی سفر بھی جاری رہا۔ 10شعری مجموعے، انشائیوں کے چھ مجموعے اور 15تنقیدی مضامین کے مجموعوں کے علاوہ ان کی شعری تخلیقات کی کلیات ’’چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل‘‘ بھی چھپ چکی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اُردو ادب میں جدید نظم کی پذیرائی، پہچان اور تحسین کی فضا پیدا کرنے میں قابلِ تحسین کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں جدید نظم نگاروں کے فنّی اور فکری کمالات پر ایک ایک کر کے جو مضامین ماہنامہ’’ ادبی دنیا‘‘ میں رقم کئے، وہ ایک کارنامے سے کم نہیں ہیں۔ ہر چند اردو آزاد نظم انیسویں صدی میں ظہور پذیر ہوئی، پروان چڑھی اور عروج کو پہنچی تاہم اسی اردو آزاد نظم نے بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں اُردو شاعری کو ایک نئے مزاج سے آشنا کیا۔ ایک وقت تھا، جب آزاد نظم قافیہ ردیف کی بندشوں کے رسیا شاعروں کے لیے ایک گالی سے کم نہ تھی، لیکن ن م راشد، میرا جی اور مجید امجد نے اس کی ترقی اور ترویج کے لیے بے مثال کام کیا۔ وزیر آغا نے آزاد نظم پر میرا جی کی روایت میں باقاعدہ کام کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنی ایک نظم میں کیا خوب کہتے ہیں:
سفر میں ہوں اور رکا کھڑا ہوں
میں چاروں سمتوں میں چل رہا ہوں مگر کہاں ہوں
وہیں جہاں سرخ روشنائی کا ایک قطرہ
کسی قلم کی کثیف نب سے ٹپک پڑا ہے
میں خود بھی شاید کسی قلم سے گرا ہوا ایک سرخ قطرہ ہوں
زندگی کی سجل جبیں پر چمکتی بندیا سی بن گیا ہوں
مگر میں بندیا نہیں ہوں شاید کہ وہ تو تقدیس کا نشاں ہے
دلوں کے دھاگوں کی اک گرہ ہے
گرہ جو صدیوں میں بننے والے حسین رشتوں کا آشرم ہے
جو آنے والے تڑپتی صدیوں کی ابتدا ہے
وزیر آغا نے ابتدا میں نصرت آرا نصرت کے نام سے نظمیں اور نصیر آغا کے نام سے مضامین لکھیں۔ لیکن 1949ء میں اپنے نام سے نظمیں اور مضامین لکھنے لگے۔ وہ غزل اور نظم کے شاعر تو ہیں ہی لیکن ان کا امتیاز بحیثیت نقاد کے بہت نمایاں ہے۔ آزادی کے بعد جب اردو نظم نے ایک نئی کروٹ لی۔ اس وقت کئی اہم شعرا نظم کو نیا موڑ دے رہے تھے، جن میں راشد، میرا جی، فیض، مجید امجد، یوسف ظفر، قیوم نظر وغیرہ خاص تھے۔ اس سفر میں وزیر آغا بھی شامل ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ’’ نظم جدید کی کروٹیں‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی بلکہ خود بعض بیحد اہم نظمیں تخلیق کیں۔
وزیر آغا کے یہاں استعاروں کا ایک خاص مزاج ہے۔ جس کی تازگی اور توانائی محسوس کی جاسکتی ہے۔ انور سدید لکھتے ہیں:
وزیر آغا کی نظموں میں استعارے کے پھیلائو کے ہمراہ موضوع کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرتا ہے اور شعر کہتے وقت ان کی بصیرت اور بصارت دونوں بیدار اور بیک وقت مصروف کار ہوجاتی ہیں۔ ’ شام اور سائے‘، ’ دن کا زرد پہاڑ‘، ’ نردبان‘ اور ’ گھاس میں تتلیاں‘ کی نظموں میں وزیر آغا نے فطرت کے ازلی و ابدی روپ کو دیکھنے اور اس کے اسرار سربستہ کو آشکار کرنے کی سعی کی ہے۔ وہ لاشعور میں گہرے اترتے اور انسان کے بطون میں پرورش پانے والے روحانی کرب تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے انسان کو اپنی ریکھائوں کی قید سے آزاد ہونے کا مشورہ دیا، انہوں نے داخل کے بند دریچے کھول کر تازہ ہوا سے جسم و جاں کو معطر کیا۔
وزیر آغا نے میرا جی کے بعد جدید نظم کو فکری اور معنوی طور پر شاید سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور ان کا فن آفاق کی طرف سفر کر رہا ہے۔ کتنے ہی ہندوپاک کے شعرا نے نئی نظم کی آبیاری کی ہے۔ ن م راشد ایک طرف اور فیض دوسری طرف۔ ان دونوں کے درمیان وزیر آغا کو کہاں رکھا جاسکتا ہے یہ ایک بڑا ادبی سوال ہے، اس لئے کہ وزیر آغا نہ تو فیض ہیں نہ ہی ن م راشد۔ بس اتنا کہا جا سکتا ہے، کہ نئی نظم کے ارتقا میں وزیر آغا کی تخلیقی قوت بھی نمایاں رہی ہے اور کہیں کہیں پر ان کا منفرد فکر اور سوچ انہیں اہم مقام پر جا کھڑا کرتی ہے۔
کون مجھے دکھ دے سکتا ہے
دکھ تو میرے اندر کی کشت ویراں کا
اک تنا بے برگ شجر ہے
رت کی نازک لانبی پوریں
کرنیں خوشبو چاپ ہوائیں
جسموں پر جب رینگنے پھرنے لگتی ہیں
میرے اندر دکھ کا سویا پیڑ بھی جاگ اٹھتا ہے
تنگ مساموں کے غرفوں سے
لمبی نازک شاخیں پھن پھیلا کر
تن کی اندھی شریانوں میں قدم قدم چلنے لگتی ہیں
شریانوں سے رگوں رگوں سے نسوں کے اندر تک
جانے لگتی ہیں
ڈاکٹر وزیرآغا نے جدید نظم کی تفہیم و تعبیر میں قدیم تاریخ، آثار شناسی، سوشیالوجی، انتھروپالوجی اور فلسفہ سمیت جن قدیم و جدید علمی اور سائنسی نظریات سے استفادہ کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button